محبت کا داعی۔۔۔ قاضی!

قاضی حسین احمد سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ ایک بار ان کو مل لینے والا بلکہ قریب سے دیکھ لینے والا بھی ان کے چہرے کی بشاشت، تازگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا، میٹرک میں تھا کہ ایک  کلاس فیلو کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں اتفاق سے قاضی حسین احمد سے ملنے کا موقع مل گیا، اس نے بھی گزرتے ہوئے ہاتھ ملا لیا، تو فورا میرے پاس آکر بولا یار یہ بابا تو کوئی ولی ہے اتنا نور چہرے پر اور اتنا نرم ہاتھ مجھے تو ملاقات سے سرور آگیا۔ ایک جگہ کچھ بزرگ لوگ بیٹھے حسب عادت جماعت پر تنقیدی گفتگو میں مصروف تھے سب سے زیادہ شور مچانے والا ایک بڑی عمر کا آدمی بول  پڑا  “یار گلا دی گل اے ویسے بابا قاضی ہے بڑا سوہنا، اودھے چہرے تے نور ای بڑا اے۔” ۔ ۔ ۔بلاشبہ قاضی صاحب کا چہرہ محبت وشفقت اور جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا!

 

قاضی صاحب کو اقبال کے اشعار سے عشق تھا،  فارسی اور اردو کا تقریبا سارا ہی کلام زبانی یاد تھا، اپنی تقاریر میں جس خوبصورتی، اور سوز جگر  سے اقبال کے اشعار پڑھتے  دل عش عش کر اٹھتا تھا، میں نے شاید پہلی مرتبہ قاضی صاحب کو جمعیت کی ایک تربیت گاہ میں دیکھا تھا۔ پرتپاک استقبال کے بعد ان کے خطاب  سے پہلے ایک نوجوان نے کلام اقبال ترنم سے پڑھا تو میں نے دیکھا  قاضی صاحب کی آنکھیں  آبدیدہ  تھیں اور  وہ ساتھ ساتھ اشعار گنگنا رہے تھے۔ جمعیت کے نوجوانوں سے قاضی صاحب کا پیار ہی بہت تھا، وہ انہیں ہمیشہ اقبال کے شاہین کے طور پر دیکھتے اور ایسا ہی بنانا چاہتے تھے۔ کارکنان جمعیت  بھی قاضی صاحب کا استقبال   ہمیشہ ” ہم بیٹے کس کے ،قاضی کے”  جیسے  پرجوش اور عقیدت سے بھرپور  نعروں سے  کیا کرتے۔۔۔ یہ عزت و تکریم پاکستان میں  شاید  کسی جماعت کے لیڈر کو اپنے کارکن سے نہ مل سکی ہو۔

 

اتحاد امت  کیلئے ہمہ وقت کوشاں قاضی صاحب کا کردار قابل رشک تھا۔ روس کے خلاف  جہاد افغانستان کے موقع پر مجاہدین کی پہلی بڑی فتح  جلال آباد  کے موقع پر قاضی صاحب اچانک  محاذ کے اگلے مورچوں پر مجاہدین کی حوصلہ افزائی کیلئے جاپہنچتے ہیں، انجینئیر گلبدین حکمت یار استقبال کرتے ہیں، جلال آباد   کی فتح اور قاضی کی رفاقت نے مجاہدین کی خوشی دیدنی کر دی تھی، جیسے ان کا کوئی بہت پیارا ان کے ساتھ ہو۔ سب دیوانہ وار پشتو میں “راشا راشا، قاضی راشا”  کے نعرے لگا رہے تھے۔ اسی طرح  سیکولر ترکی میں اسلامی تحریک کی پہلی جیت کے  بعد   جشن فتح استنبول منانے کیلئے ترکی پہنچے تو  ترکی کے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان ایک کھلی جیپ میں قاضی صاحب  کو لیکر بڑے اسٹیڈیم پہنچے  تو تمام رستے اور  اسٹیڈیم میں موجود لاکھوں   خواتین مرد اور بچے یک زبان ہو کر “مجاہد قاضی “کے نعرے اس جوش و خروش سے لگا رہے تھے گویا قاضی ان کے محبوب ترین لیڈر ہوں۔ یہ ویڈیو دیکھ کر میں اکثر کہا کرتا کہ قاضی صاحب کا  ایسا استقبال آج تک شاید جماعت یا جمعیت کے کارکن بھی نہ کر پائے جو ترکی کے لوگوں نے کیا۔

 

یورپ کے پہلو میں سربیاکے بدترین مظالم  کا شکار  بوسنیا  میں اسلامی بیداری نے انگڑائی لی تو ان  کے زخموں پر مرحم رکھنے   کیلئے حالت جنگ میں، انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قاضی صاحب بوسنیا پہنچے، ایک خطیر رقم  اور عطیات ان مجبور و مقہور مسلمانوں  کے سپرد کئے۔  بوسنیا کےصدر عالی جاہ  عزت  بیگویچ نے قاضی کی موجودگی سے حوصلہ پایا۔ امت  مسلمہ کو اکٹھا کرنے میں قاضی صاحب کا مرکزی کردار رہا، سوڈان میں شریعت کے نفاذ کے بعد ایک لمبے عرصے کے بعد جب اسلامی تحریک کے سربراہ اور سوڈانی صدر کے اختلافات بڑھ گئے،  جس سے دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں مضطرب  ہوئیں تو قاضی صاحب ان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے سوڈان گئے اور  کامیاب  مذاکرات  کرتے ہوئے امت کیلئے اس قیمتی اتحاد کو  ٹوٹنے سے بچالیا۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں اتنا احترام پاکستان کے کسی اور سیاستدان کے حصے میں نہیں آیا۔

 

قاضی صاحب ذاتی زندگی میں  انتہائی شفیق اور سادہ  مزاج تھے، منصورہ میں دوکمروں کے فلیٹ میں سارا دور امارت گزارا،  اپنے گھر سے پیدل نکلتے، دو گلیوں سے گزر کر مسجد  آتے، نماز پڑھاتے اور اسی طرح  اکیلے پیدل ہی واپس روانہ ہو جاتے، دفتر آنا جانا بھی اسی طرح اکیلے ہی کرتے۔ قاضی صاحب کو اکیلے گزرتے دیکھ کر اکثر چھوٹے بچے ان سے چمٹ جاتے، قاضی صاحب سب کے سر پر ہاتھ رکھتے اور پیار کرتے، کوئی بھی فرد یا خاتون تن تنہا اس دو مرتبہ  قومی اسمبلی کے ممبر، سینیٹر،  ایک ملک گیر جماعت کے سربراہ اور عالمی اسلامی  تحریکوں کے مقبول رہنماسے راہ چلتے روک کر ملاقات کر لیتا، بات چیت کرلیا کرتا تھا، اپنا کوئی مسئلہ بیان کر لیتا۔ یہ مثال پاکستان  کے سیاستدانوں میں ڈھونڈنا شاید مشکل ہو۔

 

خوبصورت آواز میں جہادی ترانے پڑنے والے  کمانڈر مقصود فاروقی  شہید کشمیر  کے جہاد میں روانہ ہونے لگے تو لاہور آگئے، منصورہ  مسجد میں ملاقات ہوئی پوچھا آپ ادھر کدھر؟؟؟ تو کہنے لگے کہ خواہش تھی کہ یہاں آکر بابا جی سے شہادت کی دعا لے کر روانہ ہوں، اتنے میں قاضی صاحب  مسجد سے  باہر  آتے ہوئے  دکھائی دئیے، مقصود فاروقی تیزی سے آگے بڑھے اور مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ میں  کشمیر جا رہا ہوں دعا کریں اللہ مجھے شہادت سے سرفراز کرے، قاضی صاحب ایک لمحے کیلئے رکے اپنے دونوں ہاتھوں سے  ان کے کندھوں کو پکڑا، ماتھے پر بوسہ دیا، اور  گلے سے لگاتے ہوئے  کہا کہ اللہ آپ کو غازی بنا کر لوٹائے۔ مقصود فاروقی نے واپس آکر بجھے دل سے کہا یار بابا جی نے  شہادت کی دعا نہیں کی، میں نے کہا آپ قیمتی اثاثہ ہیں، ان کا  یہیں کہنا بنتا تھا۔۔۔ مجاہدین کے  دلوں میں قاضی ہمیشہ عقیدت و احترام  کا مرکز بنے رہے۔

 

سارے عالم کی اسلامی تحریکوں سے رابطہ، پاکستان کی  ہنگامہ خیز سیاست کی  بے پناہ مصروفیات، اس سب کے باوجود قاضی صاحب چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی نظر رکھتے اور خیال رکھتے۔ اس کا حیران کن احساس  ایسے ہوا کہ ایک دن مجھے فون آیا کہ قاضی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں دوپہر تین بجے دارالضیافہ آجائیں، میں حیران و پریشان۔۔۔ ملاقات کی  وجہ بھی معلوم نہیں تھی، خیر پہنچا تو قاضی صاحب اکیلے کمرے میں موجود تھے، میں آیا تو اٹھ کر گلے ملے اور اپنے پاس بٹھایا، منصورہ آبادی میں مقیم  لوگوں  کے حوالے سے   ایک چھوٹے اور عام سے مسئلہ پر بات کی اور شدید پریشانی کے عالم میں  کہا کہ ا ٓپ اس علاقے میں جمعیت کے ذمہ دار ہیں، اس شکایت پر توجہ دیں۔ ایک چھوٹے سے مسئلے میں بھی  قاضی صاحب کی اس قدر پریشانی اور توجہ دیکھ کر دل میں ان کی عظمت کیوں نہ بیٹھتی! دو ہزار چار میں میرا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا میرے ساتھ موجود ساجد چوہدری  کی موقع پر ڈیتھ ہو گئی اور مجھے چودہ دن آئی سی یو میں گزارنے پڑے، گھر شفٹ کیا گیا تو ڈرائنگ روم میں ہی بیڈ بچھا دیا گیا تھا کہ ملاقاتیں آسان ہو جائیں، میں پسلیاں ٹوٹ جانے کے باعث بیٹھ نہیں سکتا تھا صرف لیٹا رہتا تھا، ایک دن صفدر چوہدری صاحب سے کہا کہ یہاں ایک بابا جی ہوتے ہیں ان سے دعا کروادیں،  اگلی صبح فجر کا وقت تھا  ابو اور بھائی مسجد نماز کیلئے گئے تھے، میں سورہا تھا کہ دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی، امی جائے نماز سے اٹھ کر گئی کہ اس وقت کون آگیا، امی نے اندر سے پوچھا کہ کون ہے تو آواز آئی  حسین احمد، ا می کہنے لگی کہ سب نماز پڑھنے گئے ہیں ابھی آئے نہیں ، میں نے امی سے کہا  کہ یہ آواز تو قاضی صاحب کی لگ رہی ہے امی نے فورا دروازہ کھول دیا اور  پھر سب حیران تھے کہ قاضی صاحب بہ نفس نفیس اکیلے عیادت کیلئے گھر تشریف لے آئے تھے،  میں آنکھوں کی میل ہی صاف کرتا رہا قاضی صاحب  بیڈ کے ساتھ کھڑے رہے، سینے پر ہاتھ رکھا، دم کیا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے، اتنے میں ابو اور بھائی بھی آگئے وہ بھی حیران  ہوئے، قاضی صاحب  چند لمحے ان کے ساتھ بیٹھے اور  کچھ کھائے پئیے بغیر واپس روانہ ہو گئے، قاضی صاحب کی ذاتی زندگی کی یہ سادگی ان کے بڑے پن اور عظمت کی عکاس تھی۔ صرف میری عیادت کیلئے  قاضی صاحب کا گھر آنا۔۔۔ میں اپنی خوبیء قسمت پہ کیوں نہ ناز کروں۔۔۔

 

آج قاضی ہم میں نہ رہے، نماز فجر کے بعد رفیق وڑائچ صاحب نے اعلان کیا تو پتہ چلا، گھر آیا تو موبائل ان بکس  ایس ایم ایس سے بھرا تھا، اخبار کی لیڈ دیکھی، آفس پہنچا ہی تھا کہ ایک سینئیر نے دیکھتے ہی کہا ہاں بھئی تمھارا باپ فوت ہوگیا، فورا ہی ذہن میں “ہم بیٹے کس کے قاضی کے” نعرے گونجنے لگے، اور میں نے آہستگی سے سر ہلا دیا، ہاں باپ چل بسا۔ دن میں ٹی وی پر جنازہ براہ راست دیکھا۔ رات گھر آکر  فیس بک  پہ ہر طرف قاضی صاحب کی تصاویر اور تبصرے دیکھتا رہا اور موبائل ایس ایم ایس پڑھتا رہا ، دو تبصرے ایسے تھے  کہ اچانک دل بیٹھ گیا اور آنکھیں نم آلود ہو گئیں، سارے دن بعد  تب احساس ہوا کہ ہاں قاضی صاحب واقعی چلے گئے۔ ایک دوست کی پوسٹ تھی  کہ “کتنے ہی لوگوں کو بچھڑتے دیکھا ہے،عوام سے بھی اور خواص میں سے  بھی ، لیکن جیسا دل آج اداس ہے شاید پہلے کبھی نہ ہوا ہو،  اور کیوں نہ ہو، بچھڑنے والا کسی جماعت کا قائد ہی نہ تھا  وہ تو سراپا خلوص اور سرتا پا محبت تھا، جو محبت ان کے چہرے سے پاکستان اور نوجوانوں کیلئے ٹپکتی تھی  وہ بھلائی نہیں جاسکتی، اور تحریک کے نوجوانوں نے بھی تو ان کے ساتھ رومانس کیا تھا، افسوس کہ “ہم بیٹے کس کے قاضی کے”  نعرے لگانے والوں کا روحانی باپ نہ رہا، ابھی کچھ ہی دن پہلے تو قاضی صاحب اور منور صاحب نے پروفیسر غفور کو کندھا دیا تھا اور اب قاضی صاحب  بھی  منور صاحب کے  کندھے کا سہارا مانگ رہے ہیں، اللہ تحریک  اسلامی کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے اور قاضی صا حب کو اپنی خاص رحمت سے نوازے،  آمین”۔ ایک  اور دوست کا ایس ایم ایس تھا “جنت میں آج کیا خوب منظر ہو گا ،مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی، میاں طفیل محمد،خرم مراد  اور پروفیسر غفور ،قاضی صاحب کے اسقبال کیلئے  اکٹھے کھڑے ہونگے ،اور ان کے پیچھے ہزاروں شہدائے افغانستان وکشمیر  ہاتھ باندھے  دل و جان سے پکار رہے ہونگے، راشا راشا، قاضی راشا “۔۔۔

اے نفس مطمئنہ۔۔۔ چل اپنے رب کی جنتوں کی طرف۔۔۔(القرآن)

فیس بک تبصرے

محبت کا داعی۔۔۔ قاضی!“ پر 5 تبصرے

  1. مضمون دل سے لکھا گیا ہے اسی لیے اس کا ہرحرف اور ہر لفظ دل میں اترتا چلا گیا ،اللہ پاک قاضی حسین احمد کواعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور مضمون نگار کے قلم میں مزید دل سوزی پیداکرے۔ امین

  2. بہت خوبصورت تحریر ہے.قاضی صاھب کی یاد تازہ کردی آپ نے.

  3. السلام علیکم
    اللہ قاضی حسین احمد کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین اور جنت میں انکو نبیوں، ولیوں،شہداء اور صدیقین کا ساتھ نصیب کرے آمین-
    انکی وفات پر لوگوں رد عمل علامہ اقبالؒ کے اس مصرعہ کی یاد دلاتا ہے

    مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

    بہت اچھا خراج عقیدت پیش کیا آپ نے محمد حسان بھائ، اور آخر تک پہنچتے پہنچتے آنکھیں بھر آئیں، یہ آیت جو آپ نے لکھی مجھے بہت پسند ہے – اللہ اس آیت کو انکے اور ہم سب کے حق میں قبول کرے آمین-

  4. main qazi sb ki wafat ki khbr sun k nahi roya….onn pe baray baray sahafion k kalm parhay nahi roya…….rula dia na!!!!!!!

Leave a Reply