ہم دیکھیں گے ۔۔۔۔!

ہ

 “۔۔۔ماما ! آپ  روئیں بالکل نہیں ! ماموں جان نے کہا ہے کہ ہم سب خیریت سے ہیں ۔الماس سے کہو ہمیں فون نہ کرے ۔۔۔! 

ماہم نے  روتی بلکتی ماں  کو فون پر تسلی دی  دوسری طرف اپنے شور مچاتے بچوں کو چپ کرانے کی کوشش کی۔ ہمیشہ قہقہے انڈیلتی الماس وحید  اس وقت آنسوؤں سے رندھی آواز میں   سلمیٰ بانو کو فون پر بتارہی تھیں۔

“۔۔۔۔۔  بھائی تو  میرا فون ہی نہیں  اٹینڈ کر رہے تھے کہ انڈین فورس نے گھر کو محاصرے میں لیا ہو اتھا ۔ماہم  انگلینڈ سے فون کر رہی تھی  تو اس کے ذریعے رابطہ ہورہا تھا ۔۔۔اور میں پورا دن روتی رہی ۔۔۔” سلمیٰ بانو   تفصیل سنتے ہوئے سامنے کیلنڈر پر نظر  ڈال رہی تھی ۔25 دسمبر  ۔۔یوم قائد اعظم  !

” ۔۔۔قائد اعظم کتنے دور اندیش تھے  کہ انہوں نے ہمارے لیے پاکستان بنایا ۔۔۔۔!” یہ بات اس نے الماس وحید  سے کی تو اس نے تائید میں مزید واقعات سنائے ۔ 

الماس  وحید اور سلمیٰ بانو  برسوں سے ہم محلہ ہیں ۔  تعلق تو خیر بنتا ہے  مگر مزاجوں اور ذہنی فرق کے باوجود ان کی دوستی حیران کن ہے ۔ الماس وحید پر جوش ،فعال  اور سماجی  شخصیت !  خوش باش  ہر ایک  کے کام آنے والی الماس اپنے ہم مزاج شوہر  اور  دو پیاری بیٹیوں ماہم اور صدف  کے ساتھ آسودہ زندگی گزار رہی  ہیں ۔ ماہم  شادی کے بعد  انگلینڈ میں ہے  اور رابطوں کی سہولت نے دوری کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ دوسری طرف سلمیٰ بانو اپنے آپ میں مگن ایک قلم کار ! اپنے مشاغل کے باعث کسی حد تک  تنہائی پسند ! ایک قلم کار کے جہاں مداح ہوتے ہیں وہیں اس کے قریبی  افراد جھجکتے بھی ہیں  کہ کہیں ہمارے اوپر نہ کہانی لکھ دیں !             اس کے بر عکس بہت سے لوگ خود رابطہ کر کے  اپنی کہانی لکھنے کو کہتے ہیں !  خیر ان دونوں خواتین کے درمیان رسمی تعلق میں تغیر اس وقت آیا جب  حج سے واپسی  پر تقریب کے موقع پر الماس وحید بڑے زور و شور سے اپنی داستان سفر بتا رہی تھی ۔

“۔۔۔ بھائیوں اور کزن سے مدینے میں ملاقات ہوئی ۔وہ انڈیا سے  حج کرنے آئے  تھے ۔۔۔۔”

  سلمیٰ بانو نے دلچسپی سے اس کی باتیں سنیں ۔ان کو انڈیا پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی اپنی کہانی کا سیکوئل  لکھنا تھا ۔آزادی کے بعد بیاہ کر پاکستان آنے والی خاتون اپنے بچوں کی شادی کے تناظر میں انڈیا جاتی ہیں ۔وہاں  کے موجودہ  معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات  کی تفصیل  الماس وحید سے جاننی چاہی ۔

 ” آپ  آخری بار کب گئی تھیں انڈیا ؟۔۔۔۔   ”  سلمیٰ بانو نے تجسس سے سوال کیا

 “۔ مجھے تو  دس سال سے زیادہ ہوگئے ۔۔ فون اور واٹس اپ سے رابطہ ہتا ہے ۔  بہت بلارہے ہیں کہ انڈیا  آکر ملاقات کرو ۔۔۔میں نے صاف انکار کر دیا جب تک مودی ہے میں نہیں آؤں گی ۔۔۔؛ ”   اتنی  کرب انگیز حقیقت  الماس وحید نے ایک قہقہے میں بیان کردی ۔  انسان  عید الاضحیٰ میں اپنے جانور کی  قربانی بھی نہ کر سکے ! اس سے بڑا کوئی انسانی حقوق کا مذاق ہوسکتا ہے بھلا !   ۔ گئو ما  تا سمجھنے والوں  کے دیش میں لنچنگ عام تھی یا  اس کی ویڈیو وائرل کر کے اپنے عزائم کا اظہار تھا ؟ گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا ۔۔شرکاء نے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر اور شکر کا اظہار کیا ۔سلمیٰ بانوکو الماس  سے اپنی یہ گفتگو حرف بہ حردف یاد تھی امگر انہیں یقین نہیں تھا کہ الماس وحید نے بھی اسے دل سےیاد رکھا ہوا ہے ۔!

انڈیا میں مودی کی دوبارہ کامیابی خطے  میں امن کے حوالے سے  خطرے کی گھنٹی تھی!     پھر کشمیر پر غاصبانہ  قبضے کے بعد تو  بد ترین اندیشوں کی تصدیق ہوتی گئی ۔ اس پر  اپنی حکومت کی بے حسی کے بر خلاف پاکستانی عوام  کشمیر ایشو پر مارچ  بھی کر رہے تھے اور  سائبر  وار میں حصہ بھی  لے رہے تھے !                                                                           

       10 / دسمبر ! عالمی انسانی حقوق کادن  اتنے بڑے انسانی حقوق کی پامالی  پر بڑی کفایت سے اپنے تبصرے کر رہا تھا ۔ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی ۔ چار ماہ سے مقید کشمیری  کیا سوچ رہے ہیں کسی کو نہیں معلوم ہورہا ! تاریخ نے یہ دور بھی دیکھنا تھا !

یہ 15/ 16 دسمبر کی درمیانی رات تھی ۔ محلے میں ولیمہ کی تقریب  میں  وہ دونوں ایک ہی میز پر بیٹھی تھیں ۔انڈین میوزک پر دلہن دلہا کیٹ واک میں مصروف   تھے ! اندھیرے میں اچانک قمقمے جل اٹھے ۔ اس سارے منظر سے  بے نیاز وہ دونوں  اپنی باتوں میں مصروف تھیں ۔  الماس انڈیا میں ہونے والے جھگڑوں سے آگاہ کر رہی تھی۔سلمیٰ بانو نے  خبروں سے دور رہنے   کے باعث اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ۔

“۔۔۔میں نے بھائی سے کہا ہے کہ میں اپنے محلے میں آپ لوگوں کے لیے کرایہ کے گھر دیکھ رہی ہوں ۔۔۔” حسب عادت الماس قہقہ لگا کر بولی۔

” ۔۔۔یعنی ۔۔؟ ”                   

“۔۔۔۔۔نیا شہری قانون  جس کی رو سے ۔۔۔۔۔”

اگلے دن کے اخبارات اور سوشل میڈیا چیخ رہے تھے۔ 16 / دسمبر ۔۔یوم سقوط ڈھاکہ  پر اندرا گاندھی کے بیان 

”۔ہم نے دو  قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ۔”                کونمایاں کر کے  انڈیا کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے  احتجاجی مظاہروں کی جھلکیاں تھیں اس  عنوان کے  ساتھ ”  دو قومی نظریہ  ڈوبا ہر گز نہیں ہے   زندہ و تابندہ ہے ”

الماس سے ملاقات کے بعد سلمیٰ نے گزشتہ دنوں کے اخبارات اٹھائے ۔پھر اس کی سوچوں میں  کتنے بھنور آئے ۔انڈیا کتنا بھی زور لگا لے پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر وہاں رہنے بسنے والے مسلمانوں کا قتل عام کا سوچ کر قلم کانپ گیا!

وہ نسل جس  کے والدین تک نے انڈیا میں جنم لیا آج کیسے اپنے حقوق کے لیے میدان میں مودی کو للکار رہی تھی ۔!  نظریہ بھلا کبھی مرتا ہے اسے تو جتنا دبایا جائے اتنا ہی ابھرتاہے ! شناخت کا مسئلہ ہندوستان کے چپے چپے میں آزادی کی شمع روشن کر گیا تھا۔ دہلی سے علی گڑھ تک ایک ہی نعرہ گونجنے لگا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آزمائش کی بھٹیاں تیز تر ہونے لگیں !  وہ رب جس نے موسیؑ کو فرعون کے دربار میں بھیجا تھا آج ان نہتے اور کمزور بندوں کو وقت کے فرعون کو للکارنے کی ہمت دے دی تھی !

25 دسمبر کی صبح قائد اعظم کی چھٹی تھی اور پاکستانی قوم کام ، کام اور صرف کام کے سلوگن اپنی ڈی پی پر لگا کر نیند مکمل کر رہے تھے۔ ایسےمیں الماس کا فون سلمیٰ کے لیے حیرت کا باعث تھا اور آواز اور لہجہ بھی نارمل نہیں تھا ۔  اس نے اپنی بات کا آغاز ماہم کے پیغام سے کیا جو اس نے اپنی ماں کو دیا تھا ۔

”۔۔۔۔ پتہ ہے انڈیا میں میرے مکان پر انڈین آرمی نے حراست میں لے لیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کچھ نہیں کہیں گے بس آپ سب  تاحکم ثانی گھر پر رہیں گے۔ تین منزلہ گھر ۔۔ میری بہنوں بھائیوں کے  خاندان آباد ہیں ۔کانگریس کے حامی ہیں  مگر اس لیےعتاب کا شکار ہیں کہ مودی کے جلسے کے خلاف کالا جھنڈا نہ لہرائیں  ۔۔۔۔۔۔”  سلمیٰ اس کی باتیں سنتی رہی  اور سوچ کر رہ گئی   This is incredible India !

“۔۔۔خاندان کے سارے لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ۔۔اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں اس قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں ۔۔میری بھتیجی راحمہ نے ٹو ئٹ کی ہے  میں آپ کو بھیجتی ہوں سلمیٰ ۔۔۔!”  وہ سسکیوں بھرے لہجے میں بول رہی تھی ۔

۔۔۔” میرے دادا کا گھر جو پچھلے 70 سال سے انڈیا کی ترقی اور جمہوریت کا گن گا رہا ہے آج جیل کا منظر پیش کر رہا ہے ۔۔۔۔”   ٹو ئٹ   کہہ رہی تھی۔سلمی بانو نے سکرین نزدیک کرکے چشموں کے اوپر سے ٹیکسٹ میسج دیکھا سانسوں کی نمی نے عبارت کو دھندلا دیا مگر جوں ہی واضح ہوئی ۔ان کی نیند اڑانے کے لئے کافی تھی۔  

الماس کی گفتگو جاری تھی             

۔۔۔” میرے نانا  شرافت حسین  نے  نیو دہلی میں پلاٹ  لے کر گھر بناناشروع کیا ۔اس ویرانے میں گارے اور مٹی سے گھر کی بنیادیں کھڑی کرنے کےدوران  ایک قطعہ  نماز پڑھنے کے بنا دیا۔ یہاں وہ اور مزدور اللہ کی کبریائی بیان کرتے۔  جیسے جیسے گھر تعمیر ہوتا گیا نمازیوں کی تعداد بڑھنے سے زمین کا وہ ٹکڑا بھی  مسجد کی شکل اختیار کرتا گیا ۔ دور تک کوئی آبادی نہیں تھی گھر کی تعمیر کے ساتھ ہی مسجد بھی مکمل ہوگئی ۔ لوگ عقیدت سے اس جگہ کو دیکھتے ہوئے گزرتے کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ ہاں مگر اذان کی آواز دور بنے ہوئے مندر کے پنڈت کو شعلہ بار کرتی گئی ۔۔ اور جب یہاں  لاؤڈ اسپیکر لگانے کی بات ہونے لگی تو وہ عدالت چلے گئے کہ اذان کی آواز ہماری گھنٹیوں سے کیوں ٹکراتی ہے ؟ اس بحثا بحثی میں اس وقت ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی جب  کیس کرنے والے پنڈت نے اپنے مندر کی تمام چیزیں توڑ کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر دیا ۔ اور پھر اس کو پاگل قرار دے کر پاگل خانے داخل کروادی گیا۔۔۔۔،”                                                                                                                                               اس گھر کے مکینوں نے  اپنے وطن انڈیا کو 70 سال سے  اپنی محنت اور قوت سے یکجائی دی ہوئی تھی  مگر جنونیوں کے ہاتھوں آج  وہ  بھی اذیت کا شکار تھا ۔

الماس اور سلمیٰ کی گفتگو آدھ گھنٹے  سے زیادہ   کی ہوچکی تھی مگر ہنوز  تشنگی باقی تھی۔ سلمیٰ نے اپنا اسمارٹ فون اٹھا یا اور بلاگ مکمل کر نے لگی ۔ انھیں الماس کی کہانی کو بالی وڈ کی فلم  کا انجام دینے کا خیال گذرا مگر اس حقیقت کا کیا کریں کہ ہند کی زمین پر ایک بھی مسلمان کا ہونا انتہا پسندوں کو گوارا نہیں !   انھیں کچھ عرصہ قبل چلنے والی سٹوڈنٹس مہم  ہند بنے گا پاکستان کا حشر  یاد آگیا جسے اپنے تئیں باشعور لوگوں نے محتاط رہنے کے مشورے کے ساتھ مسترد کردیا تھا ۔ مگر اب ہند میں مسلم سٹوڈنٹس کی تحریک کو زور و شور سے  حمایت کررہے تھے۔ ذہن میں بچوں کے لگائے نعرے گونج رہے تھے

                                                                                                                                                                                                                                                                                        ”ہند بنے گا ۔۔۔۔! ”                                                                                  

مسئلہ جب شناخت کا آجائے تونظریہ جیت جاتا ہے !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


فیس بک تبصرے

ہم دیکھیں گے ۔۔۔۔!“ ایک تبصرہ

  1. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بہر حال ہندوستان کہ وفادار ہیں اور وہ ہندوستان کی حکومت سے ایسی توقع نہیں کرتے تھے ،اب دیکھیے وقت کیا رنگ دکھاتا ہے

Leave a Reply