احمد پاریکھ صاحب کی یادیں!

ahmed-parekh

غالبا 2009 کی بات ہے میں شارع فیصل نرسری کے پاس واقع ایک پٹرول پمپ سے متصل دکان میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ہلکے بھورے رنگ کی اونی ٹوپی اوڑھے، زردی مائل سفید رنگ کی شلوار قمیص پر گہرے بھورے رنگ کی ویسٹ کوٹ میں ملبوس، بھورے رنگ کے مخملی جوتے زیب تن کیئے ایک باریش بزرگ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ داہنے ہاتھ میں لکڑی کی ایک خوبصورت چھڑی تھامے انکھوں پر نظر کے عد سے اور لبوں پرمنفرد مسکراھٹ سجاۓ، لگ بھگ چھ فٹ اونچے ساٹھ پینسٹھ برس کے اس بزرگ نے انتہایؑ پھرتی سے بایؑں جانب ہٹ کر مجھےدایؑں ہاتھ سے اندر آنے کا اشارہ دیا، گویا کسی چوراہے پر ٹریفک منظم کر رہا ہو – میں نے انتہائی احترام سے سر ہلکا سا خم کر کے اسلام علیکم کہا تو بزرگ نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوےؑ مشفقانہ انداز میں وعلیکم السلام کہا اور پھر انتہایؑ بارعب آواز میں مجھے مخاطب کر کے کہا ” مسلمان لگتے ہو۔ یا کسی مسلمان باپ کے بیٹے ہو”

میں نے عرض کیا “میں آپ کو جانتا ہوں آخری بار آپ سے محمد خالد کی شادی کی تقریب میں ریلوے گراوؑنڈ میں ملاقات ہوئی تھی” بزرگ کی آنکھیں پھیل گیؑں اور دانتوں سے نچلے ہونٹ کو دباتے ہوےؑ بولے “اس بات کو تو بیس برس ہو گئے ہیں۔ میں پانچ سال جمشید ٹاوؑن کا ناظم رہا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میرا بیٹا عامر پاریکھ ایک کنٹینر ایکسیڈنٹ میں ڈرائیور حنیٖف سمیت جاں بحق ہو گیا”۔ یہ کہتے ہوۓ بزرگ کی آنکھیں ڈبڈبا گیؑں اور آواز بیٹھ گئی۔ میں نے سر کو اثبات میں ھلکا سا ہلا کر کہا “جی پاریکھ صاحب مجھے معلوم ہے”۔ میرا ہاتھ پکڑ کر بولے “تم آئے کیوں نہیں؟ “۔ میں نے عرض کیا “آپ سے براہ راست کویؑ تعارف نہیں تھا”۔ تو میرے ہاتھ کو دبا کر اپنے روایتی بارعب انداز میں بولے ” آللہ کے بندے! احمد پاریکھ جماعت اسلامی کا کارکن ہے۔ احمد پاریکھ سے ملنے کے لۓ کسی سفارش کی ضرورت نہیں”۔
یہ میری احمد پاریکھ سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔

احمد پاریکھ اپنے ملنے والوں میں کوئی نہ کوئی خوبی تلاش لیتے تھے۔ دو ایک بار جب میں ان سے ملنے گیا تو گرمجوشی سے استقبال کے بعد اپنے مخصوص اندازمیں کہتے ” سالا یہ اتنی اچھی خوشبو کہاں سے لیتے ہو؟ کون سی ہے؟ ” میں بات ٹالنے کے لیۓ کہتا ” عام سی ہے پاریکھ صاحب، ہر جگہ مل جاتی ہے۔” تو مسکرا کر کہتے “سالا ایک ایچ ملتی ہے دو نہیں ملتیں۔ کہ یہ بڈھا بھی لگا لیوے۔” اور میں ہر بار وعدہ کرتا کہ آئیندہ جب لینے جاؤں گا تو آپکے لیۓ بھی لیتا آؤں گا۔”

اوائیل جون 2014 کی بات ہے برادر محمد امین صادق کے ہمراہ محمد علی جناح روڈ جانا ہوا تو عطر کی ایک دکان سے ایک ہی خوشبو کی دو عدد شیشیاں خریدیں۔ چھوٹی شیشی امین صادق کو تحفتا دی اور بڑی شیشی خود رکھ لی تو امین صادق نے برجستہ کہا ” مجھے تمہاری خود غرضی پر پہلے پہل اگر کویؑ شبہہ تھا بھی تو اب نہیں رہا۔” میں نے قہقہہ لگا کر کہا “یہ محبت کی باتیں ہیں تم جیسا خشک آدمی کیا سمجھے” جس پر امین صادق تجسس میں پڑ کر اصرار کرنے لگے کہ نام بتاؤں تو بتانا پڑا کہ یہ بڑی شیشی پاریکھ صاحب کے لۓ لی ہے۔ امین صادق نے ازرہ تفنن کہا “مجھ غریب کےلۓچھوٹی اور ایک امیر آدمی کے لیۓ بڑی شیشی لی کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔” جس پر ہم دونوں ہنس پڑے ۔

بلاشبہہ احمد پاریکھ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا – بمبئی سے کراچی ہجرت کر کے آنے والا یہ تاجر ایوارڈ یافتہ برآمد کنندہ تھا لوگ جس زمانے میں کیمیکل پاکستان میں درآمد کرتے تھے یہ پاکستان میں کیمیکل بنا کر تائیوان جیسے ترقی یافتہ ملک کو برآمد کرتا تھا- کئی عشروں سے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا فعال رکن تھا اور کئی کمیٹیوں کا ممبر بھی۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں اپنی فیکٹری تھی۔ گھر پرنصف درجن سے زائید ملازم تھے۔ اپنے بیٹے عامر اور ڈرائیور حنیف کے نام پر آہ (اے اے ایچ ) فنڈ قائیم کر رکھا تھا جس سے پاکستان بھر میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے مستحق افراد کے لواحقین کی حسب توفیق مدد کرتا تھا۔ کئی گھرانوں کی کفالت اور کئی مستحق طلبہ کے تعلیمی اخراجات اٹھاتا اور اگر اپنا ہاتھ کچھ تنگ پڑتا تو دوست احباب مستحقین کےلۓ رابطے کرتا، کئی خیراتی اداروں کی سرپرستی کرتا تھا۔

حکومت پاکستان، کراچی بندر گاہ امانیہ اور معروف کنٹینر ٹرمینلز سمیت متعدد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑ رہا تھا۔ ان سب کے باوجود کراچی کے مرکز میں شارع فیصل کے قریب ایک سوسایؑٹی میں مقیم اللہ کا یہ بندہ انتہایؑ سادہ، منکسرالمزاج اور ملنسار بھی تھا۔

عطر کی وہ شیشی کئی دن تک میری گاڑی کے ڈیش بورڈ میں پڑی رہی ہر چند کہ میرا دفتر ان کے گھر سے بمشکل 3 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا مجھے ان کے گھر جانے کا موقع نہ مل سکا- پاریکھ صاحب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر میں چند دن ملنے نہ جاؤں تو خود فون کرتے اور اگر غلطی سےکال ریسیو نہ کروں تو ٹیلیفون کالز کے تانتے بندھ جاتے۔ دوست احباب سے پوچھتے۔ یا پھر اپنے بیٹے الطاف پاریکھ سے فون کرواتے۔ اس دن بھی یہی ھوا خود فون کرکے فور آنے کا حکم دیا۔

میں ان کے گھر پہنچا تو حسب عادت گھر کے اندر واقع ان کے ذاتی دفتر و مطالعہ گاہ کی طرف بڑھ گیا تو بائیں جانب گھر کی کھڑکی سے زوردار آواز آیؑ ” اوۓ میں یہاں بیٹھا ہوں، واپس آکر گھر کے اندورونی دروازے میں داخل ہوجاؤ اور ا لٹے ہاتھ پر دوسرے دروازے سے میرے کمرے میں آجاؤ۔” ہدایات کے مطابق کمرے میں پہنچا تو اپنے بیڈ پر بیٹھے تھے اور دایؑں بایؑں بیٹے الطاف اور ان کے معتمد آصف شاہ کے ہمراہ ایک مہمان بھی موجود تھا- سلام کے بعد مہمان سے میرا تعارف کرواتے ھوۓ بولے “یہ ہے وہ اللہ کا بندہ جس کی میں بات کر رہا تھا۔ اس دن انڈس ٹی وی کے پروگرام میں کیا بولا ہے مرد کا بچہ۔ تم نے تو سی ڈی دیکھی ہے نا۔ ہے یہ پختونخواہ کا مگر اردو ایسی بولتا ہے کہ اردو بولنے والے بھی کیا بولتے ہوں گے، مجھ جیسے میمن کے تو سر سے گزر جاوے ”

پھر کچھ توقف کر کے بولے “اس کے منہہ پر کبھی اس کی تعریف نہیں کرتا کہ اس کا دماغ نہ خراب ہوجاۓ۔ بس اللہ جس سے جو کام لینا چاہے وہ لے لیتا ہے۔ مگر میرے ابتدائی پروگرامز کے علاوہ روڈ سیفٹی پر اس نے جو کچھ کیا ہے اس کا صلہ اسے صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔”

پھر مجھے مخا طب کر کے کہنےلگے “میں نے تمہیں ڈرائیور حنیف کی والدہ کا تو بتایا تھا نا۔ تم نے اس سلسلے میں نیازی سے بات کی؟” میں نے عرض کیا “میری تیمور سے بات ہوئی ہے اس کا کہنا ہے کہ جو معاملات عدالت میں ہیں ان پر بات کرنی ہے تو پوری فائل اور وکیل کو ہمراہ لانا ہوگا۔ ہاں اگر ذاتی حیثیت میں یا ادارے کی جانب سے سی ایس آر کی مدد میں کوئی معاونت چاہیۓ تو ایک کاغذ پر درخواست بنا لی جاۓ تو ہم بھی کچھ کریں گے اور نیازی صاحب بھی۔” یہ سن کر ان کا چہرا تمتما اٹھا اور بولے ” یہ تیمور مسلمان لگتا ہے- سیدھے صاف کھری بات کی ہے اس نے” یہ کہہ کر اپنا فون مجھے تھمایا اور کہا “فرخ ایڈووکیٹ کا نمبر ملاؤ۔” میں نے کال ملا کر دی تو اپنی گرج دار آواز میں بولے “طارق سے تمہارا غائیبانہ تعارف تو ہے، لو اس سے بات کرو اور فائل اور کاغذات تیار کرکے اس کے ساتھ تیمور کےپاس جاؤ” فون کال کے اختتام پر کچھ اپنے مہمان اورکچھ مجھ سے باتیں کیں، مہمان نے جب رخصت مانگی تو میں بھی کھڑا ہوگیا تو کہنے لگے تم بیٹھو تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ الطاف پاریکھ اور آصف شاہ مہمان کے ساتھ باہر نکل گۓ تو مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

میں نے جیب سے عطر کی شیشی نکال کر انہیں دی توبہت خوش ہو ۓ شکریہ کہہ کرشیشی ایک طرف رکھی اور مجھ مخاطب ہو کر کہا ” عامر میرا بیٹا تھا اس کی بیوہ بھی ہے اور بچے بھی۔ مگر یہ بڈھا ابھی زندہ ہے۔ حنیف ڈرائیور کی ماں اور بچوں کے لۓ کچھ پریشان ہوں، ایکسیڈنٹ کے دن سے آج تک ایک بھی تنخواہ میں تاخیر نہیں ہوئی ڈسٹرکٹ مانسہرہ جماعت کے ایک ساتھی ہیں جن کے ذریعے باقاعدگی سے ہر ماہ تنخواہ پہنچ جاتی ہے، اور بھی کوئی ضرورت ہو یا عید تو اللہ بندوبست کر دیتا ہے۔ بیٹی کی شادی تھی تو بھی انتظام ہو گیا تھا۔ اب ماں شدید بیمار ہے میں نے پشاور میں ڈاکٹر رحمان سے بات کی ہے۔ اس کا بھی اللہ کچھ انتظام کر ہی دے گا مگرمیری کولہے کی ہڈی کے ٹوٹنے اور آپریشن کے بعد ڈاکٹرز نے مجھے چھ مہینے کا بیڈ ریسٹ تجویز کیا ہے- میں چاہتا ہوں تم نیازی سے جا کر بات کرو اللہ شاید تم سے یہ کام بھی لے لے اور حنیف کی والدہ کے لیۓ کچھ ہو جاۓ۔”

پھر اپنی چھڑی سے بیڈ کے پاۓ کو کھٹکھٹایا اور کمرے کے دوسرے کونے میں رکھی ایک پرانی سی لکڑی کی الماری کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے ” میں اپنی بڈھی سے کہتا ہوں اس کمرے میں احمد پاریکھ کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں انٹیق ہیں۔” میری نظر ان کے بیڈ پر پڑی جو الماری ہی کی طرح کافی خستہ حال تھا۔ کمرہ صاف ستھرہ تھا مگر ہر چیز بزبان حال کہ رہی تھی کہ یہ ایک فقیر منش قلندر کا کمرہ ہے۔ انہوں نے خود بھی ایک معمولی کرتا پاجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔ جو دنیا سے ان کی بے نیازی کا غماز تھا۔

ھر چند ان کے پاؤں پر سوجھن نمایاں تھی، وہ اچانک نہایت پھرتی سے چھڑی کے سہارے کھڑے ھوۓ اور اپنے روایتی رعب دار انداز میں بولے ” جاؤ بیٹا اللہ تمہارا حامی و ںاصر ہو”

یہ میری احمد پاریکھ سے آخری ملاقات تھی ۔

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے ۔۔۔
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر ۔۔۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply