قاضی صاحب کا قرض۔ ۔ ۔

ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم جانے والے کی شان میں قصیدہ گوئی اور مرثیہ نگاری تو خوب کرتے ہیں لیکن اس شخص کی زندگی میں اس کے افکار کی طرف توجہ دینے کی بجائے سنی سنائی باتوں اور افواہوں پر کان لگائے رکھتے ہیں ۔ قاضی حسین احمد رخصت ہوگئے، ملک کے تمام نامور کالم نگار حضرات اور ٹی وی اینکروں نے ان کی شخصیت کو واشگاف الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور قاضی صاحب کی جہد مسلسل کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔  کم و بیش تمام حضرات اس امر پر متفق نظر آئے کہ قاضی صاحب ایک بہادر اور مدبر شخص تھے جنہوں نے ساری عمر اصولی سیاست کی جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری اقدار مستحکم ہوئیں۔

قاضی صاحب کے اوصاف یقینا ایسے ہیں کہ ایک ہی نشست میں ان کا احاطہ نامکن ہے۔ قاضی صاحب نہ تو موروثی سیاست کی پیداوار تھے کہ راتوں رات کسی گڑھی خدا بخش کی بدولت لیڈر بن گئے اور نہ ہی حادثاتی طور پر لاٹری نکنلے کی صورت میں لیڈر بنے۔ قاضی صاحب نے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے عملی سیاست کی اور اس جدوجہد میں مصائب و تکالیف بھی برداشت کیں۔

قاضی صاحب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار تھے اور وحدت مسلمین کے سفیر۔ قاضی صاحب کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہی تھی کہ مسلمانوں میں تفرقہ بازی کے فروغ کے سدباب کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں اور اسی مقصد کیئلے انہوں نے تمام مکاتب فکر کے علما اور پیروکاروں سے دردمندانہ اپیلیں بھی کیں۔ اس کا پھل کبھی ناموس صحابہ کے ٹھیکیداروں کی جانب سے لاٹھیاں برسا کر دیا گیا اور کبھی حرمت اہل بیت کے پاسداروں کی جانب سے طعن و تشنیع کے ذریعے، مگر آفرین ہے اتحاد امت کے اس داعی پر جس نے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی کی مخالفت نہ کی بلکہ اپنے مشن پر اخلاص سے ڈٹے رہے۔

قاضی صاحب کی یہ تمام خوبیاں بلاشبہ سراہنے اور بیان کرنے کے لائق ہیں لیکن دردمندانہ سوال یہ ہے کہ آج کتنے اہل قلم ایسے ہیں جنہوں نے قاضی صاحب کی زندگی میں ان کی اس مثالی جدوجہد کا کھل کر ساتھ دیا اور اپنی توانائیاں اس پیغام کو عام کرنے میں صرف کیں جس کا پرچار قاضی حسین احمد کر رہے تھے؟ تحریر کا مقصد کسی پر بے جا تنقید کرنا نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ قاضی صاحب کی وفات کے بعد ان کے کمالات سے قوم کو آگاہی کرنا بے شک اچھی کاوش ہے کہ یہ مرحوم کا ہم سب پر قرض ہے لیکن کیا یہ خود احتسابی کا بھی وقت نہیں کہ قلم کی حرمت کے پاسبان ٹھنڈے دلوں سے سوچیں کہ کیا وجہ تھی کہ قاضی صاحب اسلام آباد میں عالم اسلام کی عظیم اتحاد امت کانفرنس منعقد کروا رہے تھے اور بیشتر قلمکاروں کے موضوعات کچھ اور تھے؟ قاضی صاحب امت کی سربلندی اور فرقہ واریت کو روکنے کیلئے میدان عمل میں موجود تھے لیکن ہم نے قوم کو ان کے اس پیغام سے آشنا کروانے کیلئے اتنا بھی ٹاک ٹائم نہ دیا جتنا لندن اور کینیڈا سے امپورٹڈ انقلابیوں کو دیا جاتا ہے۔ اگر قاضی صاحب کی زندگی میں میڈیا نے کسی قسم کے سیاسی تعصب سے بالاتر ہو کران کا پیغام عام کیا ہوتا تو کیا آج ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں نظر نہ آرہی ہوتیں؟

قاضی صاحب بلاشبہ ایک عظیم انسان تھے اور ان کی تمام زندگی ذاتی نمود و نمائش کی بجائے اس پیغام کیلئے وقف تھی جس کو حق جان کر انہوں نے جمعیت اور پھر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ قاضی صاحب جا چکے لیکن وہ پیغام اور تحریک زندہ ہے اور تاقیامت زندہ رہے گی۔

قاضی صاحب کی جماعت اسلامی میں ابھی بھی نعمت اللہ خان جیسے بہترین منتظم، پروفیسر خورشید جیسے اعلی معیشت دان و تھنکر، حافظ سلمان بٹ جیسے منجھے ہوئے سیاست دان موجود ہیں جن میں سے ہر ایک شخص قاضی صاحب کی طرح مولانا مودودی کا جانشین اور اپنی مثال آپ ہے۔ ہم میں اچھے لوگوں کی کمی ہرگز نہیں، المیہ یہ ہے کہ اچھے لوگوں کا ذکر ہی ان کی وفات کے بعد کیا جاتا ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی کے کارکنان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے وہ طبقات جنہوں نے قاضی صاحب کو حق پر سمجھا اب ان کے مشن کی تکمیل ک لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ کہ شائد اسی طرح ہم قاضی صاحب کا قرض اتار سکیں۔

فیس بک تبصرے

قاضی صاحب کا قرض۔ ۔ ۔“ پر 3 تبصرے

  1. ye waqie sahi likha hay k qazi sab ki wafat kay baad he saro nay unki qadar ki hay. unka paigham saro ko philana chaye hay

  2. ان کے پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔

  3. ان کے پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply