تنہا ۔۔۔سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھا ناول

سلمیٰ اعوان کا ناول    تنہا                                     آ ج بھی تنہا ہے ! 

 

یادش بخیراردو ڈائجسٹ میں پڑھی سلمٰی اعوان کی کہانی کے کچھ حصے ذہن میں چمکتے ہیں   جنہوں نے اس وقت سے ان کو پسندیدہ ناول نگار کا درجہ  دے دیا تھا ۔   پھر اشتہار دیکھا  کہ سلمیٰ اعوان کا     ناول  ” تنہا  ” شائع ہو گیا ہے۔ ناول پڑھنے کا شوق اپنی جگہ مگر اس کی طلب اور چاہ  مزید بڑھ گئی جب معلوم ہوا کہ ناول سابقہ مشرقی پاکستان کے منظر میں لکھا گیا ہے ! وجہ ؟   بچپن کی یادوں میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کا واقعہ جیسے ذاتی غم کی طرح موجودہے ۔ مگر کیوں اور کیسے کے جوابات  میں تشنگی تھی۔ اس ناول میں ضرور اس سے پردہ اٹھے گاکیونکہ اس کا انتساب ہی موضوع کا احا طہ کررہا ہے :

ان بنگالی نوجوانوں کے نام

جنہیں پاکستان سے پیار تھا اور جو اس کی سالمیت کے لیے کٹ کٹ مرے

اس ناول کی دستیابی  ایک جستجو ہے جو ہر بڑے چھوٹے کتب میلے میں ناکامی سے دوچار ہوتی ہے ۔ شکر ہے کہ ماہ فروری میں ہونے والے کتب میلہ میں بالآخر دستیاب ہوگئی ۔اگرچہ دو ہفتے پہلے آن لائن اس ناول کو پڑھ چکے تھے مگر کتابی شکل میں پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے !  یہ ناول ہماری پہنچ سے کیوں دور رہا ؟  اس سوال کا جواب  اسی ناول کے ابتدائیہ میں مصنفہ کی زبانی ایک شکایت ایک حکایت میں  ملتا ہے               :

جون 1970 ءمیں ڈھاکہ یونیورسٹی سے واپسی کے بعد اسے لکھنا شروع کیا ۔1972 ء میں سنگ میل والوں کے پاس پہنچا ۔انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جیل جانے کا ارادہ نہیں۔فیروز سنز والوں نے کچھ حصے حذف کرنے کو کہا اور یہ وہ حصے تھے جن کے بغیر اس کہانی کا جواز نہیں بنتا ۔مکتبہ جدید کے پاس گیا تو انہوں نےتعریف تو بہت کی مگر حکومت کا ڈراوا دیا۔ اب مکتبہ عالیہ کی باری تھی ۔انہوں نے بخوشی  وصول تو کر لیا مگر ٹال مٹول! 1972 ء سے 1977ء تک کتابت کا جانگسل مرحلہ طے ہوا۔ ستمبر میں آس بندھی تو مارشل لا بہانہ بن گیا۔ 1980 ء میں مسودہ اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسین قریشی کے پاس پہنچا تو انہوں نے تھوڑا انتظا ر کرنے کو کہا ۔

مصنفہ کے الفاظ    ” پروردگار ! سچ لکھنا کیا اتنا بڑا جرم ہے ؟ ”                                 بہر حال 1982 میں ڈاکٹر اعجاز قریشی سے بات ہوئی اور انہوں نے حامی بھر لی ۔پھر کتاب چھپ گئی ۔بارہ سال بعد خدا نے روڑی کی سن لی تھی

سلمیٰ اعوان کی خصوصیت سفر نامے ہیں لہذا اس ناول میں اس کا رنگ خوب نظر آتا ہے۔ اس میں ناول کے تمام اجزاء نہایت چابک دستی اور مہارت سے استعمال کیے گئے ہیں ۔ یہ ناول خوبصور ت انسانی جذبات کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ جغرافیہ کی دلچسپی ، قدرتی مناظر کا شاہکار ، ثقافت کے تمام رنگ خواہ عید ہو یا رمضان ، شادی ہو یا جنم دن ، موسموں کے تہوار ہوں یا مادری زبان  کا دن ۔سب کی جھلک نظر آتی ہے۔مشرقی پاکستان کی زندگی کے ہر گوشے سے آگہی ملتی ہے ۔جذبات نگاری ، منظر نگاری ، کردار نگاری سے بھر پور یہ ناول بنگال کے چپے چپے سے روشناس کراتا ہے ۔

ناول کی ہیروئین سمعیہ علی عرف سومی ایک نڈر ، پر تجسس ، اور فعال لڑکی ہے جس کی پرورش والدین کی وفات کے بعد دادی ، چچا نے کی ہے۔ چچا فوج میں ہیں جن کے بنگال سے تعلق رکھنے والے دوست کاان کے  گھرآنا جا نا ہے  ۔ننھی سومی ان سے بہت مانوس ہے اور وہ بھی اسے بہت پیار کرتے ہیں ۔ بڑے ہوکر بنگال کی کشش اسےوہاں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی ضد کے آگے چچا ، دادی اور بھائی بھابی نے ہتھیار ڈال دیے  اور وہ    ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے وہاں پہنچتی ہے تو چچا کے دوست کے بھائی اس کے مقامی سر پرست مقرر ہوتے ہیں ۔اگرچہ وہ ہاسٹل میں مقیم ہے مگراس  گھرانے کی محبت اور اپنائیت اسے اپنی سحر میں جکڑے رہتی ہے ۔یہ  گھر جہاں چار بیٹے ہیں بیٹی کا شدت سے متمنی ہے لہذا اس کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے ماسوائے سب سے بڑے بیٹے اجتبٰی الرحمٰن ( شلپی ) کے !

شلپی اس ناول کا مرکزی کردار ہے جس نے ایک بچے کی حیثیت سےجوش و خروش سے قیام  پاکستان میں حصہ لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جذباتیت میں کمی آتی گئی خصوصا جب اس نے اپنے دادا جو ایک عالم دین تھے کو زبان کے مسئلے پر قائد کے فرمان پر آزردہ دیکھا ۔پھر سیلاب میں سامان زیست کے ساتھ ساتھ قیمتی خزانہ کتب کا دریا برد ہوجانے پردادا نے  زندگی کی بازی ہار دی۔ امداد کے لیے اداروں کے پاس ایک نوعمر لڑکے کی حیثیت سے گیا تو ان کےتحقیر آمیز رویے نے اس کے اندر آگ بھر دی جسے ہندونواز عصبیت ذہنیت اور افراد نے اچھی طرح اپنی طرف مائل کرلیا ۔اور یوں وہ ایک قوم پرست ہیرو بن گیا ۔

ہزاروں نوجوانوں کے دل کی دھڑ کن ہونے کے باوجود اس کے اپنی دل کی سلطنت  بالکل خالی ہے اور اتفاق سے سومی جس کو دیکھ کر اس نے پہلے ناگواری کا اظہار کیا تھا آہستہ سے اس کے دل پر قابض ہو جاتی ہے ۔یہاں سےجذبوں کی کشمکش شروع ہوتی ہے ۔ درمیان میں کچھ بھی رکاوٹ  نہیں ہے ماسوائے نظر یا تی اختلاف کے! :

اس موقع پرجب تعصب کی آندھیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں سومی کے سامنے بھی یہ لمحہ آیا کہ اسے کسی نہ کسی سیاسی پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہے تو باوجود اپنے رہن سہن اورمزاج کے برخلاف جمیعت طلبہ جیسی نظریا تی پارٹی کا حصہ بن جاتی ہے۔سومی بظاہر  ایک لاپرواہ ،اپنی دلچسپیوں میں مگن سی لڑ کی ہے مگر جب بنگال کے لوگوں کے بدلتے تیور اور دلشکن رویہ دیکھتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے لیے یکسو ہوجاتی ہے ۔ملک کے مغربی حصے اور ان کے افراد کے خلاف بغض، نفرت کے تیر ، طعنوں کی بوچھاڑ اس کے دل کو چھلنی کردیتے ہیں اس وقت وہ نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان میں بنگال کے کردار کو یاد کر کے خوب آزردہ ہوتی ہے

اسی کشمکش کے باعث سومی بیمار پڑ جاتی ہے ۔  اس دوران دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر شلپی اسے شادی کا پیغام دیتا ہے جس کو وہ فورا رد کردیتی ہے مگر بعد میں منفی سر گرمیوں چھوڑ دینے سے مشروط کردیتی ہے جس کے جواب میں شلپی اسے بذریعہ خط اپنے فیصلے سے آگاہ کرتا ہے جس میں اپنے عمل کو ردعمل کا شاخسانہ گردانتا ہے ۔یہ خط اسے مزیدمضمحل کرنے کاباعث بن جا تا ہے ۔

دوسری طرف سومی کی مثبت سیاسی اور ثقافتی  سر گر میاں ہندو اور علیحدگی پسندکے لیے ناقابل بر داشت ہوجاتی ہیں اور وہ اس کے اغوا کا منصوبہ بناتے ہیں ۔اس انکشاف کے بعد شلپی اپنے پارٹی ورکرز کو اس کی حفاظت پر لگا دیتا ہے اور اپنے والدین کے ذریعے سومی پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان چھوڑ دے پہلے تو وہ بپھر جاتی ہے مگر پھر یہ دیکھ کر کہ یہ بات اس کے اتنے چاہنے والوں کے لیے وجہ پریشانی بن رہی ہے بادل ناخواستہ واپسی کا رخت سفر باندھ لیتی ہے۔ سرپرست کے بلاوے پر  اس کا بھائی لاہور سے اسے لینے پہنچ جا تا ہے ۔ رخصت ہونے سے قبل شلپی اور سومی کے درمیان مکالمہ اس کرب کا اظہار ہے جو مشرقی بازو کی جدائی پر رگ و پے میں اتر گیا تھا اور ناول کے اختتام پر  اجتبٰی الرحمان (شلپی)  ماں کے شانوں پر سر رکھ کر بھرائی ہوئے آواز میں کہتا ہے

”     ۔ماں ! دیکھو تو ذرا باہر ۔ڈھاکہ تو اجڑا اجڑا لگتا ہے ۔”

اور یہ ہی جذباتی اختتام قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ یہ ناول آگ اور خون کی وہ کہانی ہے جو قوم پرستی کے ہاتھوں لگائی گئی اور نفرتوں کے شعلے سے بھڑکائی گئی ۔ناول ہو یا ڈرامہ اگرحقیقی واقعات سے کشید کیا جائے تودلچسپی کے ساتھ ساتھ تعلق بھی اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں اور شاید اسی لیے زیادہ موءثر ہوتے ہیں ۔                                         احساسات کا ایک طوفان ہے جو امڈتا ہے قاری کو ڈبونے کے لیے اور پھر آنکھوں سے ٹپک جا تا ہے !

اس کی ایک مثال ٹی وی ڈرامہ دھواں ہے !اس میں ڈاکٹر داؤدکا قتل ہو جاتا ہے !ڈرامہ کےمصنف نے اپنے  ٹی وی انٹر ویو میں  بتا یا کہ ایک لڑکی نے مجھے فون کیا اور بیس منٹ تک روتی رہی کہ کسی اور کو کیوں نہیں مروادیا ؟ اور یہ ہی بات اس ڈرامے کو دیکھنے والی تیسری نسل میں سے ایک بچی  نے کہی اور دشمن سے لڑنے کا عزم کیا !

اس ناول کا انجام خوشگوار کیوں نہ ہوسکا ؟ پاپولر فکشن میں ملن ضروری ہوتا ہے جبکہ تاریخی اور حقیقی واقعات کا انجام اپنی مرضی کا نہیں بنا یا جا سکتا ! اگر ایسا ہو تا تو جدائی اور علیحدگی کے دکھ نہ ہوتے !

آہ شلپی!تمہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو تو آئی مگر اپنے اسلاف کی کوئی جھلک تمہیں یاد نہ رہی ؟ تم  نے اپنےاندرموجودکردار کی  پختگی ، جذبات کا ٹھہراؤ، الفاظ کی نر می سب کچھ اس قومیت کے دھارے میں بہا ڈالا !

کاش تم اپنے عالم دین داد ا کے نام کی لاج رکھ لیتے !

اپنے محب وطن چچا کی وفاداری کو دھبہ نہ بنا تے!

اپنے والدین کو ایک بیٹی کی خوشی سے محروم نہ کرتے !

اپنے  چھو ٹےبھائیوں کی پیاری سومی آپا کو جدا نہ کرتے !

اپنی زندگی اور محبت کو عصبیت کے منہ زور گھوڑے پر قربان نہ کرتے !

آہ ! تمہاری نفرت کی سیاست کی وجہ سے ارسلان اور اقبال جیسے نوجون جو اس وقت بچ گئے تھے آج  پھانسیوں پر جھول رہے ہیں !یکجائی کے لیے لڑنے والی اس جدوجہد کی سزا آج تک وصول کرہے ہیں !آہ تم نے نہ جانے کس کس کو تنہا کردیا ؟

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سقوط ڈھاکہ پرانی بات ہو گئی ہے ! آگے بڑھنا چاہیے !یہ  کیسے ممکن ہے ؟ ماضی اور تاریخ تو وہ آئینہ ہے جس سے مستقبل کے خد و خال سنوارے جاتے ہیں ۔اور وہ کہانیاں جو آج بھی دہرائی جا رہی ہیں جب تک ان کا سرورق تبدیل نہیں ہوتا  تنہا  جیسے ناول ہمیں بے چین کرتے رہیں گے !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فر حت طاہر

 

 

 

 

 

فیس بک تبصرے

Leave a Reply