دیر الیکشن، ایک سبق

dir-election

بونیر کے بعد دیر میں بھی متحدہ قوی محاذ ہے یا کوئی اور محاذ تقریبا ساری پارٹیوں نے جماعت اسلامی کے خلاف اتحاد بنا کر جماعت اسلامی (فرد کو نہیں) کو شکست دی (جماعت کا نام اس لیے استعمال کیا کہ ہمارے ہاں ایک زمانے سے یہ بات مشہور ہے کہ جماعت اسلامی نے جس کو بھی امیدوار بنایا وہ جیتے گا ان شاءاللہ)۔ لیکن مخالفین جماعت اسلامی کی قوت کا سامنا نہیں کرسکتے اس لیے وہ مختلف اتحادوں کے نام سے متحد ہوکر جماعت اسلامی کے خلاف ایکا کرتے ہیں۔ اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت وہاں سب سے آگے ہوتی ہیں چاہے ان کا کوئی کونسلر بھی نہ ہو۔
اس شکست سے چند باتیں واضح ہوئیں

اول:

بحیثیت کارکن جماعت اسلامی کا کارکن ہر وقت اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد لیے ہوئے میدان میں اترتا ہے کیونکہ وہ یہ سیاست ایک عبادت سمجھ کر کررہاہے جہاں کامیابی و شکست سے بڑھ کر سوچا جاتا ہے۔ لیکن جب کارکنان کی نیت میں کسی حد تک غرور و تکبر کا عنصر آجاتا ہے تو اللہ اپنے بندوں کی اصلاح کے لیے ایسا کچھ اشارہ (الارم) ضرور دیتا ہے جس سے ’’بندے‘‘ اپنے رب سے معافی کے طلب گار ہوں نیز اصلاح کا موقع میسر آتا ہے۔

دوم:

جاہ و جلال ہو یا عہدہ و طاقت۔۔۔ یہ وہ بیماریاں ہے کہ جب بھی انسان پر حملہ اور ہوتی ہیں تو انسانی نفس میں ایک ’’وائرس‘‘ کی طرح سیرائت کر جاتی ہیں اور اگر خدا خوفی نہ ہو ، حسد، ضد و عناد غالب ہو تو ’’فی قلوبہم مرض فزاد ھم اللہ مرضا‘‘ کی مانند یہ انسان کو کسی بھی حد تک لے جاسکتی ہے۔ صاحبزادہ ثناءاللہ ایک جماعتی خاندان کا چشم وچراغ ہیں اور خود بھی رکن جماعت رہے ہیں۔ لیکن دیر بالا کی سیاست میں اندروں خانہ اختلافات کی بنیاد پر اس فرد نے بھی اسے ’’انا‘‘ کا مسئلہ بنایا اور جماعت اسلامی سے منحرف ہوئے۔ جب ابھی یہ مسئلہ بڑھا نہیں تھا اور مسلم لیگ اور پی پی پی کی طرف سے ان کو کچھ پیغامات ملنے شروع ہوگئے تو اسی وقت مولانا اسد اللہ خان سے بات ہوئی تھی اس حوالے سے۔۔۔ وہاں کی نظم نے کوشش بھی تھی لیکن ’’شاید‘‘ دیر بالا میں ’’دوقوموں‘‘ کی وجہ سے معاملہ نہین بن سکا۔ اور یوں یہ صاحب جماعت کی مخالفت پر اتر آئے۔۔ ’’الدین المعاملۃ‘‘ کہ دین معاملات کا نام ہے یقینا نماز روزہ اور عبادات اپنی جگہ لیکن معاملات سےا نسان کی پہچان اچھی طرح ہوتی ہے۔ بے شک صاحبزادہ ثناء اللہ صوم وصلوٰۃ کے پابند ہونگے ، اچھے ہونگے لیکن معاملات سمیت تحریک اسلامی کو جو نقصان اس بندے نے پہنچادیا اس کے بارے میں یہی تبصرہ کافی ہوگا کہ ’’آستین کا سانپ‘‘

سوم:

دیر کے معاملات پر دیر کے ساتھی بہتر جانتے ہونگے لیکن اس وقت کسی بھی پارٹی کے پاس کوئی اس طرح مضبوط امیدوار نہیں تھا اگر ’’صاحبزادہ ثناء اللہ‘‘ کانام وہاں نہ ہو تب۔۔۔ ایک لحاظ سے وہاں صاحبزادہ فمیلی یا قوم سے ایک ایسا فرد مخالف پارٹیوں کو ملا جس نے ’’شاید‘‘ جماعت اسلامی کے ووٹ کو بھی متاثر کیا ہو۔

چہارم:

ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہمارا ووٹ کم نہین ہوا ہے بلکہ زیادہ ہوگیا ہے جبکہ مخالفین نے مشترکہ طور پر تقریبا 21 ہزار ووٹ لیا جبکہ جماعت اسلامی نے اکیلے تقریبا 15 ہزار ووٹ حاصل کیا۔ اگر ہم 2013 کے الیکشن کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں تو اس وقت ملک بہرام نے 13580 لیا تھا جبکہ ثناء اللہ نے 9799 ووٹ جبکہ مسلم لیگ اور پی ٹی ائی وغیرہ کا الگ ووٹ ہے۔ اگر ہم پی ٹی ائی کے 6165 ووٹ نکال کر باقی پارٹیون کے ووٹ جمع کریں تو تقریبا 21000 ہزار تک ووٹ بنتا ہے۔ اور تقریبا انہوں نے اپنا ووٹ تقریبا حاصل کرلیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے لوگوں نے اگر ووٹ دیا ہے تو بھی اور اگر نہیں دیا ہے تو بھی اس کی مثال ملانصیرالدین کی اس ’’بلی‘‘ جیسے ہے جس کے بارے میں اس کی بیوی نے کہا تھا کہ ’’دوسیر‘‘ گوشت تو بلی کھا گئی ہے اور ملا صاحب نے جب وزن کیا تھا تو ’’پوری بلی‘‘ دوسیر نکلی۔ اگر پی ٹی ائی نے جماعت کو ووٹ نہیں دیا ہے تو صاحبزادہ ثناءاللہ کا ووٹ تقریبا ان پارٹیوں کا وہی ووٹ ہے جو انہوں نے پہلے لیا تھا اور اگر دیا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ تقریبا 1500 ووٹ ان کی طرف سے ملا ہے۔۔۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس دفعہ تو چونکہ خواتین نکل آئی تھی تو جماعت کے کارکنان کے گھر وں سے اگر خواتین نکلی ہیں تو ’’وہ ووٹ‘‘ کہاں گیا ہے؟ یقینا یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جماعت اسلامی خیبر پختونخوا اور بالخصوص دیر بالا وپائین اس پر سوچے اور پوسٹ الیکشن اور نتائج کے ایک جائزہ لے لیں کہ کہاں غلطی ہوئی ہے اور کہاں کمی رہ گئی تھی جو دور کیا جائے۔

پنجم:

کچھ علاقوں میں جیت کے لئے مضبوط امیدوار کے لیے تگ ودو ہوتی ہے جبکہ بعض علاقوں میں یہ “مضبوط” امیدوار “مسئلہ” اور مشکل بن جاتے ہیں۔ اس کے لیے بھی جماعت کو سوچنا پڑے گا اور اس کے لیے لازم ہے کہ پارلیمانی کمیٹی امیدوران کی اخلاقی و تنظیمی تربیت کے لیے الگ اور خاص پروگرامات ترتیب دے تاکہ ان جیسے مسائل کا تدارک آغاز ہی سے کیا جائے۔ تاکہ جماعت کسی بھی فرد کو سیاستدان یا ایک مقام تک پہنچا دیتی ہے تو وہ ’’غرور وتکبر‘‘ کی وجہ سے ’’انا‘‘ کا شکار نہ ہو نیز ’’پارلیمانی سیاست وتربیت‘‘ انہیں روکے رہے۔

ششم:

دیر میں جس طرح بھی مخالفین جیت گئے لیکن جیت کو جیت ہی کہا جاتا ہے اور اس وقت انہوں نے اپنی بقا کی خاطر جمع ہوکر متحد ہوکر جماعت کو براہ راست شکست کا مزہ چکھا دیا۔ اب یہ دیر جماعت کے لیے کڑا امتحان ہے کہ وہ سیاسی طور پر اس مسئلہ سے مستقبل میں کیسے نمٹ سکتی ہے اور کس طرح ان کا مقابلہ کرتی ہے ۔ لیکن ماضی میں ہمارے ضلع بونیر میں ایک دفعہ مخالفین نے متحد ہوکر شکست دی تو ایم این اے ، ایم پی اے کے بعد اب بلدیاتی سسٹم میں یونین کونسل اور ویلج کونسل کی سطح تک انہوں نے جماعت کے خلاف تقریبا متحد ہو کر الیکش لڑا۔۔ کئی جگہوں پر بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا۔۔۔ اس لیے دیر بالا و پائین کی جماعت اب ٹھنڈے دل سے ان معاملات کو لیکر اس جماعت کے کارکنان کے درمیاں تعلق کو مضبوط بنانے اور اختلافات (اگر کہیں ہے) کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ہم دوسروں کو تو شامل کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جو اپنے تھے اور ناراض ہیں انہیں منانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے دوسروں پر توجہ کیساتھ اپنے پرانے کارکنان کو بھی متوجہ کرنے کیلیے کوئی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔۔۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply