اپنا گریباں چاک

سی این جی کی بندش اب کراچی جیسے بڑے شہر میں معمولاتِ زندگی کا حصہ بن چکی ہے، ان ایام میں مجھ ایسے وہ لوگ سخت پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں جو گھر اور دفتر کے درمیان “ملّا دوڑ” کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں یعنی کہ یہ وہ کیلے کا چھلکا ہے جس پر بہرحال پھسلنا پڑتا ہے۔

 

انہی دنوں میں ایک مرتبہ بس کی چھت پر بیٹھ کر جانا پڑا۔ برابر میں ایک شخص جو وضع قطع سے تو مزدور پیشہ لگتا تھا، پہلے مالے پر بیٹھا صدر کی رواں دواں زندگی کے نظارے بھی لوٹ رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں موجود سگریٹ کے کش لے کر دھوئیں کے مرغولے بھی چھوڑ رہا تھا۔ میں برابر میں بیٹھااور سگریٹ کی جانب اشارہ کیا، جس پراس نے ایک لمبا کش بھرتے ہوئے اسے نیچے پھینک دیا۔ اب دھوئیں کی جگہ محض ہوا خوری سے کام چل رہا تھا۔

 

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولنا شروع ہوا، “یہ حال ہے اس ملک کا صاحب، ہر نیا دن پچھلے دن سے برا ہے۔ آج چھت پر بیٹھ کر جا رہے ہو، کل یہاں بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں ملے گی ۔ دیکھو، کنڈیکٹر ایسےمزے سے سواریوں کو اوپر بھیج رہا ہے جیسے اس نے اوپر سیٹیں لگائیں ہوئی ہیں۔” میں بسوں میں ہونے والی روزمرہ کی سیاسی بحثوں میں حصہ نہیں لیتا لیکن اس کی بات نے مجبور کیا کہ صرف ہاں ہوں سے کام نہ چلاؤں بلکہ اس کو باقاعدہ جواب دوں ۔ کہا “بھائی ہمارا ہی قصور ہے، جیسے ذلیل ترین افراد کو ہم نے حکمران بنا کر اپنے اوپر بٹھایا ہوا ہے، اُن سے تو یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام کا جینا حرام کر دیں، ان سے کسی بھلائی کی امید ہے؟”۔ اس نے فوراً وضاحت کی کہ اس نے آج تک ووٹ نہیں دیا اور یہ بھی کہا کہ آخر ووٹ دیں تو کس کو دیں؟ ہے کوئی ایسا جوعوام کا خیر خواہ ہو؟ ایماندار ہو؟ کوئی بھی نہیں، سب چور ہیں۔ میں نے اسے کریدنے کے لیے کہا کہ کوئی تو ہوگا؟ چاہے اندھوں میں کوئی کانا راجا ہی ہو؟ لوگ اسی کو کیوں نہیں ووٹ دیتے؟ اس جواب پر وہ کچھ جلال میں آ گیا اور سیدھے طریقے سےبات کرتے ہوئے کہا “دیکھو بھائی سنو، جماعت اسلامی والے بڑےایماندار ہیں، سب جانتے ہیں، لیکن کون انہیں ووٹ دے گا؟ لوگ خود دو نمبر ہیں، اپنے دو نمبر کاموں کے لیے نہیں چاہتے کہ کام سیدھے طریقے سے ہو۔ یہ بس والا، اس نے صبح پہلی بار سواری چھت پر چڑھوا کر اپنا 200 روپے کا چالان کروایا ہوگا اور اب پورا دن اس چالان کو ‘پرمٹ’ کے طور پر استعمال کرتا رہے گا اور اوپر نیچے سواریاں بٹھائے گا۔ کیا یہ چاہے گا کہ کوئی ایماندارشخص آئے جو ایسی حرکتوں سے اس کو روکے؟ بھائی ان کا تو فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ تک ضبط ہو جائے گا اگر کوئی ایماندار بندہ آیا تو۔ گاڑی کا حال دیکھو، اس کو فٹنس سرٹیفکیٹ کیسے ملا؟ پھر اس کا روٹ پرمٹ دیکھیں، گاڑی کا آخری اسٹاپ بھینس کالونی ہے لیکن اس نے قائد آباد تک کی سواری اٹھائی ہے اور آگے جانے والوں کو اتار دیا۔ اب یہ قائد آباد میں گاڑی خالی کرنے کے بعد دوبارہ بھرے گا بھینس کالونی کے لیے۔ جب ہم خود ایماندار نہیں تو ہم کسی ایسے بندے کو ووٹ بھی نہیں دے سکتے بھائی۔ اس لیے یہ کبھی جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دے گا اور ہو سکتا ہے میں بھی نہ دوں۔

 

میں اس کو دیکھتا رہ گیا۔ اس معمولی پڑھے لکھے فرد نے اتنی بڑی بات کہہ دی کہ اس کے بعد میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

فیس بک تبصرے

اپنا گریباں چاک“ پر 3 تبصرے

  1. بہت عمدہ تحریر ہے اور معاشرے کی ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے.
    جب ہم خود ہی کرپٹ اور رزق حرام کے خوگر ہونگے تو کیسے کسی ایماندار کو برداشت کرسکیں گے .

  2. السلام علیکم
    اچھی تحریر ہے ابو شامل بھائ، بلکہ اچھا مختصر سفر نامہ ہے 🙂 جو ہم سب کو سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ جب ایک معمولی پڑھے لکھے بندے کو بھی اپنی بیماری کی تشخیص اور اسکے علاج کا پتہ ہے تو پھر کیا رکاوٹ ہے اس بیماری کو دور کرنے میں؟

  3. بالکل درست تجزیہ ہے ایک ناخواندہ شخص کا! اپنی ضرورت کے لحاظ سے اچھی ٹیلرنگ،کیٹرنگ جو چاہیں ڈھونڈ لیتے ہیں مگر اچھے لوگ اس لیے نہیں منتخب کر تے کہ خود سدھر نا نہیں چاہتے۔

Leave a Reply