عشق نبی ﷺ

نماز فجر کیلئے گھر سے نکلا تو گلی معمول کے برعکس روشن پائی، مختلف گھروں میں جگ  مگ کرتی  خوبصورت لائیٹنگ جشن آمد رسول ﷺ  کا  پتہ دے رہیں تھی۔ ایک عجیب احساس سے دل میں کیف و سرور پیدا ہونے لگا اور ایک سرشاری کی کیفیت دفتر جانے تک طاری رہی، ڈرائیونگ کے دوران  مختلف نعتیہ اشعار زباں سے ادا ہونے لگے، دفعتا دل میں ایک کسک اٹھی کہ عشق محمد ﷺ کی چنگاری آج کچھ ایسی سلگے کہ روح  تازہ ہو جائے، میں  حیات طیبہ  کے مختلف مناظر آنکھوں میں بسانے کی کوشش کرنے لگا۔
گاڑی  اشارے پر رکی تو سامنے سے جشن عید میلاد النبی کا جلوس بڑے طمطراق سے گزر رہا تھا، شرکاء  سبز جھنڈے لہراتے نعرہ رسالت بلند کرتے جوش و خروش سے آگے بڑھ رہے تھے،  میری نظر  پاس ہی فٹ  پاتھ پر بیٹھی ایک بزرگ  خاتون پر پڑی  جس کا چہرہ بڑھاپے اور تفکرات کی جھریوں سے بھر چکاتھا گو کہ اس نے ہاتھ نہیں پھیلایا ہوا تھا مگر میرے نبی کی اس امتی کی بےچارگی دیکھتے ہی اس کے گھر کا منظر ذہن میں گھومنے لگا، اور نعیم صدیقی کے اشعار سلیم ناز کی آواز میں گونجنے لگے،
بن باپ کے عاجز بچے جب، افلاس کے گھر میں پلتے ہیں
اور ان کے افسردہ چہرے جب، پیٹ کی آگ میں جلتے ہیں
کچھ جھوٹی امیدوں سے ان کو، جب بیوہ ماں بہلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تری  یاد آتی ہے

 
میرے نبی  کے نہ جانے کتنے ہی امتی آج بھوکے سو ئے ہونگے، اور ان کے ہمسائے آمد رسول کا جشن منانے کیلئے گھروں کی منڈیروں پر رات بھر چراغ روشن کرتے رہے ہونگے۔ حضور  آپ نے تو کہا تھا کہ وہ مسلمان نہیں جو خود  تو پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ مگر  میرے پیارے نبی۔۔۔آج لوگ آپ کا جشن منانے میں مصروف ہیں، آپ کا یہ فرمان  ان کی نظر سے اوجھل ہے۔۔۔حضور آپ انہیں معاف فرما دیں۔۔۔ میں آگے بڑھا تو ایک جگہ   جلسے میں مقررین لہک لہک کر حضور کے قصیدے سنا رہے تھے۔۔۔  مجھے  طائف کا منظر یاد آنے لگا،  اوباش پتھر برسا رہے تھے اور رحمت اللعالمین ﷺ خون سے تر جوتوں  کے باوجود اہل طائف کی ہدایت کیلئے دعا فرما رہے تھے۔   دین حق کی سر بلندی  کیلئے  دی جانے والی ایک ایک قربانیاں یاد آنے لگیں، میرے بنی نے  کس  کیفیت  کے ساتھ  خوش پوشاک مصعب بن عمیر کے کفن کو سر ڈھانپنے اور پاؤں پر گھاس ڈالنے کا کہا ہوگا، اور  اپنے محبوب چچا حمزہ کا بسمل لاشہ کس اذیت کے ساتھ دیکھا ہوگا،  وہ ساری جدوجہد  جو  حضور نے  اپنے امتیوں کی  خاطر کی، اس کا کہیں ذکر نہ تھا۔  مجھے ان مقررین کی گفتگوؤں میں  احد اور  حنین و تبوک،  کا  کوئی عنوان نہ ملا، سب ہی  آپ کی حکایتوں کی روایتوں کا مزا لیتے ہوئے  ثور بدر کے باب کے ورق الٹتے چلے گئے۔  اور مجھے  کشمیر تا فلسطین، کراچی تا خیبر خون مسلم کی ارزانی کا نوحہ یاد آنے لگا۔۔۔
بستی  بستی  وادی ،وادی وادی، صحرا صحرا خون  ۔۔۔۔ امت والے  امت  کا ہے  کتنا سستا  خون

 

میں بوجھل دل کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ، شہر کے گی کوچوں کی سجاوٹ، پہاڑیوں کے ماڈلز، اور زرق برق قمقموں کی روشیاں دیکھتا رہا، کہیں پہ ڈھول بج رہے تھے، کہیں دھمالیں ڈالی جا رہیں تھی، گھوڑوں کو گھنگرو پہنا کر ڈانس  بھی کر وایا جا رہا تھا۔۔۔
مجھے شاعر کا اعتراف ندامت یاد آنے لگا۔۔۔
تیرے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے درو بام کو تو سجا دیا

 

سوچتا ہوں ہم بھی کیسے امتی ہیں، حضور کا مشن بھول جاتے ہیں، مگر آپ سے محبت کا دعویٰ  نہیں بھولتے،  نہ نماز، نہ قرآن، نہ معرفت نہ نگاہ، ہمسایوں کے حقوق  نہ حسن معاشرت  کے کوئی اسلوب، سودی کاروبار کریں گے، کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے،  بسنت، نیوائیر نائٹ اور ولنٹائین ڈے بھی منائیں گے ا ور جشن میلاد کا اہتمام بھی کریں گے۔ صدق و صفا کے پیکر نبی کے امتی  حرس و ہوس کے  کتنے پجاری  بن گئے، جس کا ظاہر باطن ایک تھا اس کے امتی  کتنی دو رنگیوں کا شکار ہو گئے ہیں۔  کاش کہ آج  عید میلاد کا جشن منانے والوں کے دلوں میں عشق نبی کہ وہ چنگاری بھڑکے جو انہیں تمام جھوٹی خدائیوں کے انکار کی جرات عطا کردے، ایسا عشق عطا ہو کہ  انہیں  ہادی برحق کے  نظام کو دنیا میں نافذ کرنے کا علمبردار بنا دے،  وہ نظام۔۔۔ جو دنیا کو محبت اور امن کا گہوارا بنا دے۔
حضور اسی عشق کی تلاش ہے۔۔۔ آج یہ اشعار کتنے موزوں لگے۔۔۔!
حضور  ﷺ آپ کی دہلیز پر گھڑا ہوں  میں
جو آپ سے نہ کہوں حال دل تو کس سے کہوں
حضور کب سے ہوں نا آشانائے لذت عشق
نہ  میری آنگھ میں آنسو، نہ میرا دل  پرُخوں
حضور  بارگہ  فیض سے  عطا  ہو  مجھے
وہ کیف ودرد کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
وہ آگ دیں کہ پگھل جاؤں موم کی صورت
حریم دل  کو اجالوں  ،مثال  شمع  جلوں
مرے وجود  کی قاشیں  ،  بکھر بکھر جائیں
میں تیرے شہر کی گلیوں کی دھول بن جاؤں
عطا ہو  دولت عرفاں  کی  آگہی  مجھ  کو
ہزار  کوس پہ جا کر بھی  تیرے پاس رہوں

فیس بک تبصرے

عشق نبی ﷺ“ ایک تبصرہ

  1. بھئی ۔۔۔ ہمیں جلسے جلوس سے چھٹی ملے تب نا ۔ ۔ ۔

Leave a Reply