اسوہ رسولﷺ اور ہماری زندگی

ربیع الاول کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں فخر کائنات ، رحمت اللعالمینﷺ اس دنیا میں تشریف لائے، ربیع الاول کی بارہ تاریخ ( بعض مورخین کے نزدیک نو تاریخ ) کو آپﷺ اس دنیا میں تشریف لائے، ولادت باسعادت کے دن ایران کے آتشکدے میں مسلسل ہزار سال سے روشن آگ خودبخود بجھ گئی، قیصر روم کے محل کے کنگرے اچانک گر گئے، اور خانہ کعبہ میں موجود بت منہ کے بل زمین پر آگرے۔ یہ ساری اس بات کی نشانیاں تھیں کہ اب اس دنیا میں باطل کی فرمانروائی اور حاکمیت کا دور ختم ، جھوٹے خداؤں کی خدائی اب نہیں چلے گی۔ اب صرف اور صرف اللہ کا قانون چلے گا یعنی رب کی دھرتی پر رب کا نظام

 

اس بابرکت مہینے کے آتے ہیں لوگوں کے دل کھل جاتے ہیں اور وہ عقیدت و احترام اور جو ش و جذبے کے ساتھ اس دن کو منانے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں ۔ پہلی ربیع الاول سے ہی گھروں اور مساجد پر چراغاں شروع ہوجاتا ہے، سبز جھنڈوں کی بہار آجاتی ہے ، ہر طرف نعتوں کی آوازیں گونجنا شروع ہوجاتی ہیں، مساجد میں آئمہ کرام سیرت النبیؐپر تقاریر کرتے ہیں لیکن حق تو یہ ہے کہ ان سب کے باوجو د آپ ؐ کی سیرت کا حق ادا نہیں ہوتا۔

 

سوچئے کہ کیا گھروں اور مساجد کو سجانے، چراغاں کرنے اور تقاریر کرنے سے حق ادا ہوجائے گا؟؟ سوچیے کہ ہم یہ سب چیزیں کریں لیکن اگر نبی مہربان ؐ کے اخلاق حسنہ پر عمل نہ کریں، آپ ؐ کی احادیث مبارکہ کے پیغامات کو عام نہ کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری باتیں بیکار ہوجائیں گی۔یاد کیجیے وہ موقع کہ جب ابو جہل نے نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپؐ پر مٹی پھینکی اور پھر آپ ؐ کا سر مبارک زخمی کردیا، اس وقت ایک لونڈی یہ سارا ماجرا دیکھ رہی تھی، اسی شام جب آپ کے عزیز چچاحضرت حمزہؓ جو کہ ایک انتہائی بہادر ، جری اور طاقتور انسان تھے شکا رسے واپس آئے تو اس لونڈی یہ سارا ماجرا ان کو بتایا، نبی پاک ؐ کے سرِ مبارک کے زخمی ہونے کی خبر نے آپؓ کو چراغ پا کردیا اور آپ ابو جہل کو ڈھونڈنے نکلے ، وہ اس وقت خانہ کعبہ میں موجود تھا، حضرت ہمزہؓ نے اپنی کمان اس ذور سے اس کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ لہولہان ہوگیا، اس کے بعد حضرت حمزہؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا ’’ بھتیجے میں نے ابو جہل سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ یہ بات سن کر نبی اکرم ؐ نے فرمایا چچا جان مجھے زیادہ خوشی اس وقت ہوگی جب آپ ایمان لے آئیں گے، یہ بات سن کر حضرت ہمزہؓ کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئے۔غور کیجیے کہ حضرت ہمزہؓ آپ ﷺ کی محبت سے سرشار تھے، آپؐ کو تکلیف پہنچنے پر وہ بے چین ہوگئے اور ابو جہل سے بدلہ بھی لیا لیکن نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ مجھے زیادہ خوشی اس وقت ہوگی جب آپ ایمان لے آئیں گے۔ ایمان یعنی عمل !
ایمان کیا ہے؟

 

ایمان دراصل یہ ہے کہ اللہ کی واحدانیت اور نبی اکرم ؐ کی رسالت کا زبان سے اقرار کیا جائے، اس کو دل میں بسایا جائے اور عمل سے اس کا اظہار کیا جائے، اگر ہم زبان سے محبت کے دعوے کریں لیکن ہمارا عمل صرف گھر اور مسجد کو سجانے تک محدود رہے تو کیا یہ ایمان کامل ہوگا؟؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا  صرف شہر کے در و دیوار کو سجانے تک محدود نہ رہے بلکہ ہم ا سوہ رسول ؐ پر عمل پیرا ہوں اور آپؐ کی تعلیمات کو عام کریں۔
کسی غم گسار ؐ کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا، اسے دل سے میں نے بھلا دیا
جو جمال روح حیات تھا جو دلیل راہِ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوشِ پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایتؔ کم نظر تیرے دل میں یہ کسک ہوئی
جو تبسمِ رخ زیست تھا، اسے تیرے غم نے رلا دیا

فیس بک تبصرے

Leave a Reply