دم کٹا مغرب

دم کٹا مغرب 
رسالت مآب ﷺ کے توہین آمیز خاکے!
قرآن نذر آتش کر نے کا قبیح عمل!
اسلامی تہذیب کی علامات پردہ، داڑھی،تعدد ازواج کا تمسخر!
حیات طیبہ ﷺپر اشتعال انگیز فلم کی گستاخی!
ان تمام گھناؤنی حرکتوں میں قرون وسطیٰ کی گھاٹیوں، افریقہ کے تاریک جنگلوں، دور دراز سنسان وبیابان صحراؤ ں میں آباد وحشی،آدم خور قبائل ملوث نہیں بلکہ یہ وہ دل آزار سرخیاں ہیں جو مغربی نے اظہار رائے کی آزادی کے عنوان سے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے خلاف مسلسل روا رکھی ہوئی ہیں۔ آخر مغرب اس مثالی رواداری کا مظاہرہ کیوں نہیں کر تا جس کا مطالبہ وہ مسلمانوں سے کرتا ہے؟؟ان قابلِ اعتراض کاروائیوں پر مسلمانوں کا اپنے ملکوں کی سڑکوں پر احتجاج مغرب کو اتنا گراں کیوں گذرتا ہے؟؟کیا مغرب ذہنی طور پر اس قدر پسماندہ ہے کہ اربوں انسانوں کے محبوب کو نشانہ ستم بنا کر کسی متوقع رد عمل کوجانچ نہ سکے؟؟ ہرگز نہیں، اس کے بر عکس غیر اسلام انتہائی عیار،منصوبہ ساز ہے۔اس کا سرا ماضی سے منسلک ہے۔
1059میں کلیسا کے منبر سے اسقف اعظم اربن دوم نے اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیا۔ مسیحی عوام کومسلمانوں کے قتل عام کا اذن بخشا، بلکہ آگے بڑھ کر عیسائی ریاستوں کو ایک تمام اختلافات مٹاکر اسلام کے خلاف صلیبی جنگوں کی ابتدا ء کی ترغیب دی۔ تعصب اورحسد کی بنیاد پر تین سال کے عرصے میں پورا یورپ ایک جھنڈے تلے جمع ہوکر اگلے دوسو سال تک مسلمانوں سے پنجہ آزما رہا تا آن کہ صلاح الدین ایوبی نے حطّین کے مقام پر شکست فاش دے کر عیسائی عسکری اور سیاسی طاقت کو پارہ پارہ کر دیا۔ صریح پسپائی کے باوجود اسی کلیسائی خطبہ کی باز گشت وقتاََ فوقتاََ دنیا میں بلند کی جاتی ہے۔مسلمانوں کے خلاف جدید فنون و آلات حرب سے لیس صف آرا ہو نے پر اکسایا جاتا ہے۔ شاید اس شکست کی کسک چین نہیں لینے دیتی۔ صلیبی جنگوں کی اصطلاح مسلمانوں نے اختراع کی نہ اس کی تکرارمگر مغرب عالم اسلام کے ساتھ آج تک حالت جنگ سے باہر نہیں آیا۔
ایک طویل مدت تک مذہبی پیشواؤں کے خبث باطن بھگت کر مسیحی عوام میں مذہب بیزاری کی لہر اٹھی۔ خدا اور آخرت کے بارے میں تشکیک نے معاشروں کی قلب ماہیت یکسر بدل دی۔ مزید کلیسا کی جانب سے اپنے انبیاء کی توہین پر خاموشی نے مہر تصدیق ثبت کردی۔ مگر شاطر مغرب نے کمال ہوشیاری سے عوامی جذبات کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا۔ فلسفی برٹ رینڈ رسل علی ا لاعلان گستاخی مسیح ؑکا ارتکاب کرتا ہے مگر کوئی صدائے احتجاج اس وقت بلند ہوئی نہ بعد میں……..
یوں اپنے دین میں (تحریفات کے باعث) پیدا شدہ نقائص پر پردہ ڈالنے کی غرض سے مغرب نے لا دینیت کا لبادہ اوڑھا۔ مغرب اپنی اصل میں وہی متعصب اربن دوم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ گیارہ ستمبرکی سازش کے بعد صلیبی جنگوں کا دوبارہ شروع کرنے کااعلان ببانگ دہل کیا گیاجب کہ اس سے پہلے یہ کام غیر اعلانیہ ہورہا تھا۔ا کیسویں صدی میں جنگوں کا میدان اور طریقہ کار بدل گیا۔برقی ذرائع ابلاغ کی لہروں کے ذریعے دینی حمیت کو یکسر مٹانے کا ہدف طے کیاہے۔ اسلامی تہذیب کے مظاہر کو یکے بعد دیگرے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بنیادی عقائد متنازعہ دکھائے جاتے ہیں۔
حقوق انسان کا علمبردار یورپ عصمت پیغمبر کوتسلیم نہیں کرتانہ کرے لیکن حرمت رسول ﷺجن کے ایمان کا حصہ ہے ان سے محض خیر سگالی کے لیے اس حساس معاملے پر خاموشی اختیار کرلے۔ شاید آزادی اظہار رائے کا حسن یہی ہے۔برداشت، رواداری کے معنی یہی ہیں۔ فرد واحد ہو یا اقوام باہمی تعلقات کے باب میں کوئی بھی معاملہ یک طرفہ نہیں،محبت، نفرت، پسندیدگی،احترام سراسر دو طرفہ کاروائی ہے۔ مگر جب بات ہو اسلام کی توتہمت، بہتان تراشی، مذاق، تضحیک عین جائزقرار پاتی ہے۔ اس کے جواب میں ابھرنے والے احتجاج کو غیر مہذب ہونے کی سندعطا کی جاتی ہے۔
کارٹون،گستاخی رسول فلم اور اس سے قبل خاکوں کی اشتعال انگیز مہم دراصل دم کٹی لومڑی کی جدید تفہیم ہے۔ان کی تمنا ہے جس طرح لادین عیسائی، یہودی عناصر نے اپنی انبیاء کی قابل احترام شخصیات کو مسخ کر دیا تومسلمان بھی اس سر چشمہ ہدایت سے محروم ہوجائیں۔ اگر ان بد بختوں کے دل پیغمبر وں کی محبت سے خالی ہیں تو رحمت اللعالمین کےﷺ جاں نثار در بار رسالت کی چوکھٹ چھوڑ کر ابلیس کے پیروی اختیار کر لیں۔ایک مربوط منصوبہ کے تحت آزادی اظہارکی مالا جپتے ہر تھوڑے دنوں بعدغلیظ ڈرامہ کھیلا جاتا ہے اور حب رسول ﷺ کا تناسب بغور مطالعہ کیا جاتا ہے۔
حب رسولﷺکے خلاف ان حملوں کاجواب معاشی بائیکاٹ بھی ہے جو مال کی محبت میں گرفتاراقوام کو بلبلانے پر مجبور کردے۔مگر اس سے بھی زیاد ہ موثر اسوہ رسول کی پیروی ہے۔ ملک کے گوشے گوشے میں رحمت اللعالمین ﷺکی سیرت کا چلن ہو۔ سرکاری عہدہ دار ہو یا زردار، امام ِسیاست ہو یا کپتان احتساب سے بالا تر کسی کو نہ سمجھا جائے۔اور یہ اس کلمہ کی بہترین تشریح ہوگی جسے مٹانے کے درپے اس ملک کے غدارمسلسل کوششوں میں لگے ہیں مگر ہمارے پارلیمان پر کندہ کلمہ کل بھی ہماری شناخت اور آج بھی ہے ۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply