احتجاج امریکہ اور ناٹو سے، اور گلہ اپنوں سے بھی

مہمند ایجنسی میں پاکستانی چوکیوں پر ناٹو ( کچھ لوگوں کے مطابق امریکی ) ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے 25 جوان شہید ہوگئے جبکہ دونوں چوکیاں مکمل تباہ ہوگئیں۔ اس وقعے کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی ایک شدید لہر دوڑ گئی اور پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔کیا بچے کیا بوڑھے،کیا وکیل کیا تاجر،کیا علماءکیا طلبائ،کیا عوام اور کیا سیاستدان، کیا سول سوسائٹی اور کیا مسلح افواج، سارے ہی سراپا احتجاج ہیں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ ملکی خود مختاری کو اس طرح چیلنج کیا گیا۔

اس وقعے کے بعد فوری طور پر ناٹو سے احتجاج کیا گیا، ناٹو کی سپلائی لائن بلاک کردی گئی جو کہ تادم تحریر معطل ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے بھی پاکستان نے احتجاجاً انکار کردیا۔ جبکہ آرمی چیف جنرل اشفاق پریز کیانی نے کور کمانڈرز کی ایک ہنگامی کانفرنس بلائی اور اس کانفرنس کے بعد مراسلہ جاری کیا گیا کہ اب کسی بھی غیر ملکی جارحیت کی صورت میں کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ موقع پر موجود افسر فوری طور پر فیصلہ کرکے جوابی کارروائی کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق اس فیصلے کے بعد سرحدی چوکیوں پر جدید اور بھاری اسلحہ بھی پہنچا دیا گیا تاکہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔جبکہ ایک اہم فیصلہ شمسی ائر بیس کو بھی امریکہ سے خالی کرانے کا تھا ، جس کے لئے حکومت نے امریکہ کو ڈیڈ لائن دیدی تھی اور امریکہ نے اس ڈیڈ لائن کے خاتمے سے پہلے ہی 4 دسمبر کویہ فضائی اڈاہ خالی کردیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں حملے کرنے والے ڈرون افغانستان کے بجائے مبینہ طور پر شمسی ائر بیس سے ہی کنٹرول کئے جاتے ہیں۔

عزیزو یہ ساری باتیں بہت ہی دل خوش کن ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ بحیثیت قوم ایک طویل عرصے بعد ہماری حکومت اور مسلح افواج نے ایک درست اور عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ معاملہ یہیں نہ روک دیا جائے بلکہ اس کو برقرار رکھا جائے اور یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم حالات کی اس گرما گرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کی خود ساختہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “ سے باہر آجائیں۔ناٹو سپلائی عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر بند کردی جائے۔

قارئین کرام یہ تو ناٹو اور امریکہ سے ہمارا احتجاج ہے لیکن کچھ گلہ ہم اپنوں سے بھی تو کرلیں۔ کہ گلہ بھی تو اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے،کہ اس نے اس موقع پر بالکل درست فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی پارٹیوں (ماسوائے دو پارٹیوں کے) پر بھی فخر ہے کہ انہوں نے اس موقع پر عوامی جذبات اور احساست کو مد نطر رکھتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا،حتیٰ کہ مغرب اور امریکہ نواز ماضی رکھنے والی ایم کیو ایم نے بھی اس موقع پر ناٹو اور امریکی جارحیت کے خلاف پر زور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ افسوس ہمیں پیپلز پارٹی،ن لیگ پر ہے کہ اس اہم ترین معاملے پر بھی یہ لوگ سیاست کرتے رہے،ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے۔ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی،عدالتی کارروائی اور پریس کانفرسنز کرتے رہے۔

پاک فوج سیاسی پارٹیوں کا ناٹو اور امریکہ کے خلاف احتجاج اور کارروائی خوش آئندہ ہے لیکن کیا ناٹو یا امریکہ نے پہلی بار ملکی حدود کی خلاف ورزی کی ہے؟کیا غیر ملکی حملوں میں پہلی بار ہمارے لوگ شہید ہوئے ہیں؟کیا ارضِ وطن کے خلاف پہلی بار جارحیت کی گئی ہے؟ چلیں میں یاد دلاتا ہوں:
ڈرون حملوں کی اگر بات کی جائے تو پاکستان میں پہلا ڈرون حملہ طالبان کمانڈر مولوی نیک محمد کے خلاف 18جون2004کو کیا گیا تھایہ اس برس کا واحد ڈرون حملہ تھا۔ 2004 سے 2007 کے دوران صرف9حملے ریکارڈ کئے گئے۔جن میں شمالی وزیرستان میں ہی6کئے گئے تھے۔بہرحال سابق امریکی صدر اپنے دور اقتدار کے آخری برس میں پاکستان کے اندر ڈرون میں تیزی لائے۔نتیجتاً 2008ءمیں 34حملے ہوئے اور 296جانیں ضائع ہوئیں(روزنامہ جنگ کراچی 27نومبر 2011انصار عباسی )

بہرحال ایسی خلاف ورزیاں اورپاکستانی خودمختاری کی پامالی کے کبھی بھی نہیں رکی۔تفصیلات کے مطابق جون 2008ءکے دوسرے ہفتے کے امریکی قیادت میں غیر ملکی فورسز نے ایک فضائی حملے میں 11ایف سی کے جوان اور 10شہری مہمند ایجنسی میں نشانہ بنایا جوکہ اتفاقیہ طور پر نیٹو فورسز کی جانب سے جمعے کو ہی کیا گیا تھا۔جون2008ء کو ہونیو الا حملہ مہمند ایجنسی کے شیخ بابا میں ایف سی کی ایک سیکورٹی چیک پوسٹ پر کیا گیا تھا۔جس میں ایک میجر بھی شہید ہوا تھا۔ستمبر 2010ء میں نیٹو فورسز نے افغانستان میں اعلان کیا کہ انہوں نے 2ہیلی کاپٹر حملوں میں پاکستانی سرزمین پر 30شہریوں کو ہلا ک کیا۔ کہا گیا تھا کہ نیٹو کی قیادت میں انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف)کے 2اپاچی ہیلی کاپٹروں نے مشرقی افغانستان کی سرحد پار کی اور ’شدت پسندوں ‘کو نشانہ بنایا۔ 30ستمر2010ء کو پاکستان نے پاکستانی سرحد کی جارحانہ خلاف ورزی پرنیٹو کی سپلائی لائن معطل کر دی تھی ، نیٹو ہیلی کاپٹر گن شپس نے کرم ایجنسی میں ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیاجس میں 3جوان شہید اور 3ہی زخمی ہوئے تھے۔ہیلی کاپٹروں نے2بار پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور کرم کے قبائلی خطے کے مختلف علاقوں میں شیلنگ کی۔نیٹو کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے افغانستان کے صوبہ پکتیا سے ملحقہ پہاڑی پر موجود سیکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر 2میزائل داغے۔فروری 2010ءکے پہلے ہفتے میں شمالی وزیرستان ایجنسی میں بنگئی در چیک پوسٹ پر نیٹو اور افغان فورسزنے مارٹرفائرکئے جس میں ایک فوجی شہید اوردیگر11زخمی ہو گئے۔

اپریل 2011ءکے آخری ہفتے میں جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ کے سرحدی گاو¿ں میں سرحد پار سے ہونے والے شیلنگ کے تبادلے میں 3پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور ایک درجن سے زائد بشمول سیکیورٹی اہلکار و قبائلی زخمی ہو گئے تھے۔رواں برس مئی میں نیٹو فورسز نے ایک بار پھر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کیونکہ 2ہیلی کاپٹروں نے شمالی وزیرستان ایجنسی میں گھس کر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔نیٹو ہیلی کاپٹر پاکستانی علاقے میں گھس آئے اور انہوں نے یہاں ایک سرچ آپریشن کیا۔ اگست 2011ءکے آخری ہفتے میں افغان سرزمین سے آنے والے تقریباً 300 بندوں نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی اور ڈیورنڈ لائن کے ساتھ7سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ہلہ بول دیاجس سے درجنوں پاکستانی سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔ یہ ہلاکتیں تقریباً25سے 60کے درمیان تھیں۔ (روزنامہ جنگ کراچی 27 نومبر 2011ء انصار عباسی )

2004ءمیں مقامی طالبان کمانڈر نیک محمد پر امریکی گائیڈڈ میزائل حملہ،ڈمہ ڈولا کے دینی مدرسے پر امریکی میزائل حملہ جس میں معصوم طلبا جن کی عمریں 10سے 17سال کے درمیان تھیں،شہید کیا گیا، انگو ر اڈہ میں امریکی کمانڈوز کا زمینی حملہ جس میں امریکی کمانڈوز نے وزیرستان کے علاقے انگور اڈہ میں زمینی کارروائی کرتے ہوئے بے گناہ افراد کو گھروں میں گھس کر شہید کیا،دو مئی 2011کو ایبٹ آباد ٓپریشن، اور اس سے قبل سی آئی اے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانی کی ہلاکت اور امریکی سفارت خانے کی گاڑی کی ٹکر سے ایک اور شہری کی ہلاکت کا واقعہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔

اگر 2004میں ہی نیک محمد کی شہادت کے بعد امریکہ کو سخت پیغام دیا جاتا تو شائد نوبت یہاں تک نہ پہنچتی لیکن ہماری حکومت اور مسلح افواج کے پس پیش کے باعث ہی یہ نوبت آئی کہ اب ہماری فورسز اور چوکیوں پر حملے ہورہے ہیں۔آج ہم مسلح افواج کے جوانوں کی شہادتوں پر احتجاج کررہے ہیں اور امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی بھی کررہے ہیں لیکن کیا ڈمہ ڈولا کے شہید ہونے والے بچے اس لائق نہ تھے کہ ان کی شہادتوں پر بھی امریکہ سے کوئی احتجاج کیا جاتا؟ کیا انگور اڈاہ میں امریکی کمانڈوز کے زمینی آپریشن سے شہید ہونے والے پاکستانی شہری نہ تھے کہ ان کی شہادتوں پر ناٹو کی سپلائی لائن روکی جاتی؟ کیا وزیرستان میں شہید ہونے والے تبلیغی جماعت کے ارکان کی شہادتوں پر امریکہ سے شمسی ائر بیس خالی نہیں کرایا جاسکتا تھا؟یا ان سب کا خون ”خون ِ خاک نشیناں تھا جو رزقِ خاک ہوا“بہت اچھی بات ہے کہ آج ہم متحد ہیں اور امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی ہورہی ہے لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پشاور کے بہادر صحافی حیات اللہ کا کیا قصور تھا کہ اس کو پہلے اغواءاور پھر شہید کیا گیا؟ کیا اس کا قصور یہی تھا کہ اس نے نیک محمد کو ہلاک کرنے والے امریکی میزائل کے ٹکڑے میڈیا کے سامنے پیش کرکے دنیا کو یہ بتایا تھا کہ نیک محمد کو پاکستانی ایجنسیوں نے نہیں بلکہ امریکہ نے ہلاک کیا ہے؟ گذشتہ دنوں اخبارات میں ایک تصویر چھپی کہ امریکی سفارت خانے کے سامنے طلبا پاکستان کا طویلپرچل لیکر احتجاج کررہے ہیں،بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے قبل تو کبھی امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ امریکہ سفارتخانے کی جانب جانے والوں پر لاٹھی چارج کیا جاتا تھا،شیلنگ کی جاتی تھی،کیوں؟اور آخری سوال کہ اگر یہ حملہ پاکستانی چوکیوں کے بجائے کسی عام گاﺅں پر کیا جاتا اور مرنے والے افراد فورسز کے اہلکاروں کے بجائے اگر عام افراد ہوتے تو اس وقت بھی کیا حکومت اور فوجی قیادت کا رد عمل یہی ہوتا؟

بہر حال در آید درست آید ۔دیر سے ہی سہی لیکن بالآخر ایک اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم اپنی مسلح افواج اور پارلیمنٹ کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت اور استقامت عطا فرمائے اور ان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔صبح کا بھولا جب شام کو گھر واپس آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہا جاتا

فیس بک تبصرے

Leave a Reply