نائن الیون … اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے؟

2001 میں 11/9 کو جب امریکہ کے تجارتی مرکز ٹوئن ٹاور پر نیویارک میں حملہ ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ تاریخ دانوں کی سیاسی لغت میں ایک “اصطلاح ” کا روپ دھار لیگی اور یہ اصطلاح دنیا میں ایک نئی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوگی جسکا حدف اسلامی ممالک ہوں گے۔ دنیا میں آج تک جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں ان میں کسی بھی جنگ کو دن اور تاریخ کا عنوان نہیں دیا گیا لیکن یہ کتنی منظم صیہونی سازش تھی کہ یہ اصطلاح  11/9 وار آن ٹیرر کا عنوان قرار پائی حالانکہ آج 10 برس گزرنے کے باوجود یہ معمہ آج تک اسی طرح معمہ ہے جسطرح ورز اول تھا کہ یہ جو کچھ ہوا کس نے کیا؟؟؟ اور کن مقاصد کے حصول کے لئے کیا؟؟؟؟ وقت ثابت کر رہا ہے کہ اس ہولناک اقدام سے امریکا اور عالمی طاقتوں نے بھرپور سیاسی مقاصد حاصل کئے اور امریکہ کی قیادت میں ایک عالمی جنگ چھڑ گئی جو اسوقت بھی افغانستان اور عراق میں جاری ہے اور کئی ممالک ویٹنگ لسٹ پر ہیں۔

11/9 کے واقعہ کو بغیر کسی تحقیق کے چشم زدن میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے سر تھوپ دیا گیا اور ایک پروپیگنڈے کی قوت تھی جس نے حقیقت کو نہ کل آشکار ہونے دیا نہ آج۔ اب تک اس عنوان پر درجنوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ سینکڑوں فکری مذاکرے و مجالس بپا کی گئیں لیکن سمندر کی تہہ سے کچھ بھی نہ اچھلا، انکی حیثیت ساحل پر محض چہل قدمی ہی کی رہی۔

اس سانحہ کے بعد امریکا نے میڈیا کے ذریعے جو فکری یلغار کی اس کے آگے کوئی بند نہ باندھا جاسکا اور ایک خاص نفسیاتی اور جذباتی کیفیت پیدا کر کے دنیا کو ایک نئی جنگ میں جھونک دیا گیا جسکا ایندھن مسلمان ممالک اور انکے وسائل بن رہے ہیں حالانکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے امریکہ کی تمام خفیہ ایجنسیاں جانتی ہیں کہ امریکی سی آئی اے اور موساد نے صیہونی اشتراک سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تاکہ مغربی طاقتوں کو مسلمان ممالک پر حملے کا جواز مل سکے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی پالیسیاں بناتا رہا ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا عراق پر حملے کےلئےتباہی  پھیلانے والے ہتھیاروں کا جو ڈھونگ رچایا گیا، ساری دنیا  کے سامنے کولن پاور کو معذرت کرنی پڑیکہ انکی معلومات ناقص تھیں اور عراق میں القاعدہ کی موجودگی کے سلسلے میں سینکڑوں بار انھوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔

کذب بیانی مغربی اقوام کا وطیرہ ہے اور قرآن نے بنی اسرائیل کی جو چارج شیٹ پیش کی اسمیں انکی اس صفت کا بار بار ذکر کیا ہے لیکن افسوس صد افسوس تو یہ ہے کہ ہم وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر اس جھوٹ کے گواہ بن گئے جس جنگ کا حدف اسلام تھا مسلم دنیا کے نام نہاد حکمران اس جنگ میں امت مسلمہ کے محافظ بننے کے بجائے دشمن کے آلہ کار بن گئے۔ اس حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس واقعہ کی آڑ  میں دنیا کی دھشتگردی کے خلاف ایک نام نہاد اور خطرناک عالمی جنگ میں جھونک دیا گیا اور عالمی نظام پر تسلط کے نشہ میں اسے تہہ و بالا کر ڈالا گیا اور اس خطرناک اقدام کی سزا نہ صرف پوری دنیا بلکہ خود امریکہ اور امریکی عوام بھی بھگت رہے ہیں۔ دنیا کو جس انداز سے بربریت سے آشنا کیا گیا اس نے صرف عراق، افغانستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو انتہائی غیر محفوظ بنادیا اور دنیا یک طرفہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔ تمام ضابطے، اصول و ضوابط اور قوانین اس جنگ میں بری طرح پامال کئے جا رہے ہیں اور یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ دھشتگردی کو فوجی قوت کے ذریعے ختم  کیا جا سکتا ہے اور جس پر چاہیں جہاں چاہیں دھشتگردی کا الزام چسپاں کر کے اسے تہہ تیغ کیا جاسکتا ہے اور القاعدہ کے نام پر اس جنگ کا واضح حدف مسلمان اور اسلام کی طرف پھیردیا گیا ہے –اور Reformationیعنی اسلام کی ا صطلاح  کے نام پر یہ جنگ جسمیں ہر حوالے سے مسلمانوں  اور اسلام کو مطعون کرنے کی ناپاک چالیں چلی جا رہی ہیں اور  جہاد اور اسلامی تحریکات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اور” اسلامی دہشتگردی” کی نئی اصطلاح متعارف کرا کے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ معاذ اللہ دہشتگرد اسلام ہے اور جہاں دہشتگردی ہے اسکے سرغنہ مسلمانوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں اور پوری دنیا کی واحد دشمن القاعدہ ہے۔ اور دہشتگردی کو اسکے حقیقی خدوخال سے بڑھا کر ایک نظریہ، ایک فلسفہ اور ایک تحریک کی شکل دیدی گئی اور اپنے مفادات کے لئے دنیا کو واضح طور پر دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔

دیکھنا یہ ہے کہ ان ناانصافیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے انسانیت کب نجات پاتی ہے۔ پوری دنیا کو تباہی کی اس آگ میں دھکیلنے میں پاکستانی حکمران دامے، درمے، سخنے پیش پیش رہے ہیں۔ ان دس برسوں میں ملک دہشتگردی کی جس دلدل دھنس چکا ہے یہ وقت اس حکمت عملی کا جائزہ لینے کا ہے اور ضرورت اس دہشتگردی کے خلاف جنگ کی پوری حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ہے اور وقت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ” قوت ” کے استعمال نے کبھی مسئلے حل نہیں کئے بلکہ نفرتوں کے الاؤ روشن کئے ہیں۔ اب وقت ہے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی مسائل کو سیاسی شعور کی روشنی میں دیکھا جائے۔اسوقت ساری دنیا بشمول امریکہ میں اس جنگ کے نقصانات کے  خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں اور امریکی تھنک ٹینک اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اب انتظار ہے تو اسوقت کا کہ کونسی مزید ٹھوکر ہمارے ارباب اقتدار کو جگانے کا سبب بنتی ہے؟؟؟

فیس بک تبصرے

نائن الیون … اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے؟“ پر 2 تبصرے

  1. ایک اہم بات اخباروں میں یہ چھپی ہے کہ جارج بش اور نایب صدر دونوں نے ۱۱ ستمبر کی کمیٹی کے سامنے حلف نہ اٹھانے کا اختیار استعمال کرتے ہوے بیان ریکارڈ کروایا تھا

  2. Dear Afshan ,it is no more a secret that 9/11 was ploted to attack muslim countries. Its been ten years and result is USA is passing through worst economy. On the other hand they got nothing from war on terror .
    faraz
    hyderabad

Leave a Reply