پچاسی سال؟

پچھلے سال ان ہی دنوں اامریکی عدالت نے ایک ایسا فیصلہ سنایا کہ کتابوں میں درج قوانین اور سزائیں بھی سسک کر رہ گئی۔ انصاف ہکا بکارہ گیا جب ایک نحیف خاتون کو6  برس کی سزا دی گئی۔
اجنبی شہر میں
خاک برسر ہوئی زندگی
کیسی بے گھر ہوئی زندگی!
اس کا جرم ؟؟ اسکے حکمرا نوں کی بے حسی اور بے غیرتی، عوام کی بے بسی اور بزدلی کے ساتھ ساتھ میڈیا کی مجرمانہ چشم پوشی کہی جا سکتی ہے! دراصل یہ ہی وجوہات ہیں کیونکہ اس پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے وہ اتنی مضحکہ خیز ہے کہ اس کا موجب سزا بننا محال ہے۔ مگر جب مندرجہ بالا وجو ہات امریکہ کی اسلام دشمنی اور خوف سے ٹکرا ئیں تو وہ احمقانہ فیصلہ سرزد ہوا جس پر انصاف کو نہ جانے کب تک شرمندہ ہونا پڑے گا۔ کیا ایسے ظالمانہ اور جابرانہ فیصلوں کی کوئی نظیر ملتی ہے؟

جی ہاں! تا ریخ میں قصہ فرعون اور موسٰی اس کی بنیاد نظر آتے ہیں۔ جب وقت کا فرعون خوف کی نفسیات کے تحت یہ حکم صادر کرتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کر دیا جائے مبادا وہ اسکی حکومت کے لیے چیلنج نہ بن جائے اور تاریخ یہ عبرتناک منظر دکھاتی ہے کہ اس کی حکومت تہہ وبالا کرنے والا بچہ خود اس کے محل میں پر ورش پاتا ہے۔ تاریخ سے سبق آج تک نہ سیکھا گیا ہے! لہذا آج کا فرعون  دیگر تہذیبو ں کو نیست ونابود کرنے کے لیے تعلیم کا ڈول ڈالتا ہے، ترقی کے جھانسے دیتا ہے اور معیار زندگی کا لالی پاپ دے کر دنیا بھر کے ذہین دماغ کو اپنے پاس جمع کرلیتا ہے اور پھر جب برین واش کے ساتھ وہ اپنے ملکوں میں واپس جاتے بھی ہیں تو ان کے لیے کوئی کارآمد پرزہ بننے کے بجائے فرعون کے ہی گماشتے بن جاتے ہیں۔

ایسے میں پھر اﷲ کی تدبیر کام کرتی ہے اور انہی میں سے کوئی ایسا نکلتاہے جو طاقت اور توانائی لے کر اپنا معیار زندگی بڑھانے کے بجائے اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور یہ روشن نام ہے ڈاکٹر عافیہ! جو اپنی تعلیم اور قابلیت کو اپنی امت کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ہر امریکی آفر کو ٹھکرا کراپنے ملک جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پھر اس کے پائوں میں زنجیر ڈالی گئی جو اس کاشوہر بنا۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اسکی تباہی میں اسکے شوہر کا کیا کر دار تھا؟ وہ تو پلانٹڈ تھا اور اس نے اپنے دیے گئے ٹارگٹ کے مطابق کارروائی کی۔

مشرق کی بیٹی اپنی معصومیت کے ہاتھوں پھنسادی گئی اور 9/11 کے ڈرامے کے ذریعے حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسکو بھی گھیرلیا گیا۔ وقت کا پر دہ سرکا تو سارے بھید کھلے۔ بہروپیوں کا پر دہ چاک ہوا۔
ہم اہل جبر کے نام  و  نسب سے  واقف ہیں
سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں
اسی طرح کامنظر ہمیں قرآن دکھاتاہے جب تیس ہزار جادوگر شعبدہ بازی دکھانے جمع ہوئے توسچائی اور حق کے عصا نے سارے سانپ نگل لیے۔ آج پھر وہی سماں ہے۔ فرعون اپنے بنائے ہوئے جال میں خود ہی پھڑ پھڑ ا رہا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید اسکی تباہی کچھ دیر ٹل جاتی۔ مگر یہ معاملہ تو اس کی بربادی کاسامان بن کر رہے گا۔ ایک بے خانماں، کمزور عورت کو قید کرکے اور 86 برس کی سزاسنا کر دراصل وہ اپنا کر تب دکھانے کی کو شش میں ہے اور جس کا انجام اب کچھ زیادہ دیراور دور نہیں رہا۔ ڈراپ سین سے پہلے کچھ ایسے ہی مناطر اور فیصلے سامنے
آتے ہیں۔ جادوگروں کو بہیمانہ قتل کرنے کا حکم اگر اسوقت کے فرعون کا فیصلہ تھا تو 86 برس قید کا فیصلہ آج کی فرعونیت کے تابوت کے لیے آخری کیل بن جائے گا ان شاء اﷲ۔

اس ظالمانہ فیصلے کو ایک سال گزر گیا۔ گویا زوال اور قریب ہوگیا۔ اس ہمت کے پہاڑ کو تو نہ ہلایا جا سکا ہاں فیصلہ کر نے والے کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے۔ جیسے فرعون ڈوب گیا ہاں اس کی داستان عبرت ضرور باقی رکھی گئی۔ چھیاسی سال کی سزا سناکر سکھ کا سانس لینے وا  لے اطمینان سے تھے کہ اس مسئلے سے نجات ہوئی۔ انکے لیے عرض ہے کہ پچاسی سال تو ایک طرف، ہو سکتا ہے کہ پچاسی دن اور پچاسی گھنٹے بھی نہ مل سکیں اس بت کو پاش پاش ہونے میں!

کتنی خوش قسمت ہے وہ قوم جسے عافیہ صدیقی جیسا ہیرا نصیب ہوا اور کتنی بدنصیب ہے عافیہ صدیقی کہ اسے یہ قوم ملی ہے ! اور اس ناشکری اور ناقدری کا ہی نتیجہ ہے کہ عذابوں میں گرفتار ہے۔ یہ عذاب نا اہل اور کر پٹ حکمران کی صورت میں بھی ہے اور آپس کے کشت و خون سے بھی، سیلاب اور زلزلے بھی ہیں اور ننھے سے کیڑے کا عذاب بھی! لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ ہر قوم میں تین طرح کے گروہ ہو تے ہیں اور ان میں وہی کامیاب ہیں جو برائی کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔

پچھلے آٹھ سال سے کرب و بلا میں مبتلا کسی محمد بن قاسم کی منتظرعافیہ کو معلوم ہو کہ اسکی قوم میں کچھ لوگ ہیں جو اس دن سے سکون سے نہیں بیٹھے جب سے اسکو گرفتار دیکھا ہے اور ہر وہ کوشش کر رہے ہیں جو کر سکتے ہیں۔دعائوں کا خزانہ ہے جو عافیہ پر نچھاور ہے۔ اور آج بھی اس فیصلے کے خلاف عافیہ ڈے منارہے ہیں۔

کیا آج کے دن آپ ان کا ساتھ دے کر اپنا تعلق کامیاب گروہ میں کروا ئیں گے؟؟

فیس بک تبصرے

پچاسی سال؟“ پر 2 تبصرے

  1. ham aap key sath hen

  2. every living self is with dr. aafia.

Leave a Reply