غزہ کی تنہائی

gaza-attackکیسی مبا رک ساعتیں تھیں، گلی محلوں، چوک ، چورا ہوں پر جشن کا سا سما ں، تکمیل قرآن کا جشن، منوں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، مساجد میں بڑے اجتماعات میں دعا ئیہ تقاریب منعقد ہوئیں۔ ہزاروں مساجد میں ستائسویں شب کو تراویح میں قران کا دور مکمل کیا گیا۔ لاکھو ں مسلمانوں نے انفرادی طور پر گھروں میں قران کا دور مکمل کیا۔ پچھلے برس کے رمضان سے اس رمضان تک ہزا روں کی تعداد میں حفا ظ میں اضافہ ہوا۔ لا کھوں نئے نسخے اس عظیم کتاب کے گردش میں آ ئے تحقیق اور تفسیر کے کئی باب روشن ہو ئے۔ ہزا روں معتکفین نے عالم اسلام کی ہزا روں مسا جد کو ذکر الہی سے منور کیا روز و شب تلا وت کے ساتھ ساتھ دعائے ختم قران بھی مانگی گئی۔ نزول قران کی سالگرہ کا جشن، آخری عشرے میں یہ جشن عروج پر، چہار سمت ہار پھول مٹھائیاں، تکمیل قران کی مبا رکبا دیں، ختم ترا ویح کے جشن، دعا ئیہ تقریبا ت۔ گھروں میں تکمیل قران کی محفلیں مساجد کی رونقیں عروج پر رہیں اور میں قران پورا نہ پڑھ سکی۔ جگہ جگہ روک لیا قران نے، آگے ہی نہ بڑھنے دیا روانی سے تلا وت ہی نہ کر سکی، زبا ن بھی ٹہر گئی اور قلب بھی گو یا ساکن ہو گیا۔ ۔۔کئی جگہ اور کئی بار ایسا ہوا، بارہا ایسا ہوا جب پہنچی سورہ بنی اسرا ئیل کی پہلی آیت پر کہ : پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی لے گیا جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ان کو اپنی نشا نیا ں دیکھا ئیں۔ بے شک وہ ہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل آیت ۱)۔

تب میرے قدم جکڑ گئے، مسجد اقصی سے آتی التجا ؤں نے ذہن کو ما ؤف کر دیا۔ زمین کا وہ پا کیزہ ٹکڑا جہا ں سے ہما رے آقا نبی کریم ﷺ آسمان کی بلندیوں کی طرف تشریف لے گئے تھے، آج مجھ سے، امت مسلمہ کے ہر فرد سے مخاطب ہے، سمندروں کے بیچ جزیروں پر موجود ہر اس دھڑکتے دل سے مخاطب ہے جس کی سماعتوں تک اللہ اکبر کی تکبیر کی صدائیں پہنچتی ہیں۔ اپنے گھر خانہ کعبہ کی حفاظت کا ذمہ خود رب ذوالجلال نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے لیکن بیت المقدس کی آزادی کو ہمارے اعمال سے، جذبہ جہا د سے مشروط کردیا ہے، جب ہما رے حکمران اغیار کے غلام بنے، ہمارے اعمال یہود و ہنود کو شرمانے لگے تو یہ مقدس شہر مقبوضہ بن گیا۔ آج مٹھی بھر اسرائیل ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو سرعام للکار رہے ہیں کہ ذرہ بھر بھی ایمان کا ثبوت پیش کریں اگر کوئی دل اقصی کی محبت سے سرشار ہے اور جبیں اس کے سجدے کی آرزو سے مچل رہی ہے اور سینہ اس مبارک سرزمین پر شہادت کا آرزو مند ہے تو مقام اسرا سے آتیں چیخیں اور نوحے اس کی سماعتوں تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ دو ہزار فلسطینیوں کے مقدس لہو کے چھینٹے اس کو شفق کی سرخیوں میں کیوں نظر نہیں آرہے۔۔۔

مقام اسراء کو یہودی اپنی نجاست سے روند رہے ہیں اور ہم تکمیل قرآن کے جشن منانے میں مصروف ہیں۔ اپنے والدین کی قبریں بھی ہم کو کتنی پیاری ہوتی ہیں، ہمارے دلوں میں کتنا اکرام ہوتا ہے۔۔۔ لیکن مسلم عزت و سرفرازی کی کتنی نشانیاں روندی جارہی ہیں، وہاں غیر اللہ کی تعظیم ہورہی ہے اور ہم یہ تماشہ دیکھ کر بھی عید کی مبارکبادیں وصول کرتے رہے۔۔۔ اس پاک سرزمین میں ایک ایک دن میں سینکڑوں زمینی اور فضائی حملے ہوتے رہے مگر افسوس ان ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے کوئی قاسم، کوئی بابر، کوئی ابدالی، کوئی غزنوی، کوئی ٹیپو، کوئی سید اسماعیل اقصی کی پکار سن نہ سکا۔۔۔ یقینا ایسے ہی کسی وقت کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمان سیلاب میں بہتے تنکوں کی طرح بے جان ہونگے اس پر اصحاب رسول نے استفسا ر فرمایا تھا کہ کیا وہ تعداد میں تھوڑے ہونگے تو آپ ﷺ نے جواباً عرض کیا تھا کہ نہیں بلکہ انہیں وھن لاہق ہوجائے گا اور وھن کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا حب الدنیا و کراھیت الموت۔

یہ دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت فی الواقع ہماری انفرادی و اجتماعی سب سے بڑی کمزوری ہے جو آج امت کو اس مقام تک لے آئی ہے کہ مٹھی بھر اسرائیل روزانہ اس پاک سرزمین سے مسلمان معصوم بچوں اور جوانوں کے لاشوں کے تحفے بھیج رہے ہیں۔ ہم روز غزہ کی بستیوں سے دھواں اٹھتا دیکھ رہے ہیں اور اپنا جشن آزادی ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔

جب دوران تلاوت سورہ توبہ کی اس آیت پر پہنچی کہ اے ایمان والوں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہ جب تم سے اللہ کی را ہ میں نکلنے کو کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے، کیا تم نے آخرت کے مقا بلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے، اگر ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیا کی زندگی کا یہ سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ اگر تم نہ اٹھو گے تو اللہ تم کو بہت دردنا ک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھا لائے گا اور تم اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکوگے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ( سورہ تو بہ 38، 39)۔

صرف ایک ارض فلسطین ہی کیا ساری مسلم دنیا کے حالات امت مسلمہ کو پکار رہے ہیں کہ عیش و طرب کا دور ختم ہوا، نکلنے کا اور اپنے ایما نوں کے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کا وقت ہے۔ قرآن نے پچھلی قوموں کی داستا نیں اور غزوات محمدی کا تفصیلی احوال محض ثواب و برکت کے لیے تو بیان نہیں کیا۔۔۔

ازل سے ابد تک کفر و اسلام کا معرکہ جاری و ساری رہے گا۔ جگہ جگہ قرآن نے تنبہہ کی کہ قلت و کثرت کے چکر میں مت پڑنا۔۔۔ اللہ کو فراموش کر کے ساری دنیا کی نیٹو فورسز بھی تمہا رے ساتھ ہوں تو تورا بورا بننے کا خوف تمہارا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی قوت ایمانی کی بدولت غالب رہے اور اس وقت آسمان سے فرشتے بھیج کر ان کی مدد کی جاتی ہے۔ کفار کے دلوں میں ان کا رعب بٹھادیا جاتا ہے۔۔۔ ان کو حوصلہ و عزم استقلال عطا کیے جاتے ہیں۔ فرشتے ان کی مدد کے لیے اترا کرتے ہیں۔۔۔ فوج کا کمانڈر وقت کا رسول 313 لوگوں کی صفوں کو نیزے کی نوک سے ترتیب دے کر پھر دربا ر خداوندی سے رجوع کرتا ہے کہ اب آسمان سے فرشتوں کو بھیج کر نصرت الہی سے مدد کر اور ان مسلمانوں کے لشکر کو غالب ہونے سے کوئی نہیں روک سکا ہے۔ لیکن جب طاؤس رباب اول اور شمشیر سناں آخر ہوگئے اور اللہ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنا لیا گیا تب۔۔۔ غزہ تنہا رہ گیا۔۔۔ مسلم امہ پستی و بدحالی کا شکار ہوگئی۔

تاریخ امم بتاتی ہے کہ قوموں کے لیے شکست سے زیا دہ مہلک یاسیت و قنوطیت ہے۔۔۔ ماہ صیام تقویٰ کی آبیاری اور اسی عزم و حوصلہ کی استواری کا پیغام تھا جو امت مسلمہ کا اثاثہ ہے اور سرفرازی کی علامت بھی۔۔۔ اسی لیے اسرائیل ہر سال ماہ صیام ہی میں مسلم امہ کو للکارتا ہے کہ دیکھے کہ امت سحر و افطاری اور ختم تراویح کے سحر سے تو حقیقتاً باہر نہیں آگئی اور افسوس مسلم دنیا کے حکمران اپنی شاہانہ عیش وعشرت کی زندگی سے با ہر آنے اور عوام کو بیدار کرنے اور مجاہدانہ رول ادا کرنے پر تیا ر نہیں نظر آتے لیکن اس صورت میں ہم کو اپنے اسلاف اور سنت رسول کو زندہ رکھنا ہوگا۔۔۔ نور اسلام کی شمع سے اپنے سینوں کو زندہ رکھتے ہوئے بیداری کی فضاء کو عام کرنا ہوگا اور ان کی معیشیت کو للکارنے کے لیے ان کی تیار کردہ مصنوعات اور اداروں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply