جرم برابرکاہے

دودھ ایک اہم غذائی ضرورت ہے۔ اس بات کا احساس بالآخرحکومت کو ہوہی گیا لہٰذا قیمت بڑھانا تو مجبوری ٹھہری لیکن دودھ کی غذائی اہمیت پر تو بات چیت کی جاسکتی ہے۔ وزیر بلدیات سندھ آغاسراج درانی نے پریس کانفرنس بلائی تو تھی سمندری طوفان کے خطرات اور بارشوں سے نمٹنے کے انتظامات پر میڈیا کو بریفنگ دینے کے لیے لیکن اصل اہمیت دودھ کو حاصل رہی۔ دودھ کی اقسام ‘ افادیت پربات کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ دودھ کئی قسم کاہوتاہے ڈبے کا دودھ بھی ہوتاہے اور تازہ دودھ بھی لیکن پاکستان میں چونکہ چائے زیادہ پی جاتی ہے لہٰذا سب سے زیادہ دودھ چائے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ الیکشن کے زمانے میں تو اس کا استعمال اوربڑھ جاتاہے۔ جی ہاں الیکشن میں دم خم دکھانے کی بات آتی ہے تو سوال اٹھتاہے کہ آپ نے کون سا دودھ پیاہے ایسے نعرے بھی لگتے ہیں کہ ماں کا دودھ پیاہے تو سامنے آئو۔ ویسے آغاصاحب کو دیکھ کر تو لگتاہے کہ ان کے بڑوں نے انہیں ہرقسم کا دودھ خوب وافرمقدارمیں پلایاہے۔ دودھ پر سیرحاصل گفتگوکے بعد جب ان سے دریافت کیاگیا کہ ممکنہ طوفان اور مون سون کی بارشوں سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی پلان کیاہے تو انہوں نے بتایاکہ جوانتظامات پچھلے سال کیے گئے تھے وہی اس سال کیے جائیں گے۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ دودھ پینے کا عہدکرتے اورلیتے ہوئے پریس کانفرنس اختتام پذیرہوگئی۔ اصل معاملہ شیرمادر کی طرح ہضم ہوگیا۔

کہانیاں سناسناکر اہم معاملات قالین کے نیچے چھپادیے جاتے ہیں۔ وقت گزارنا ہے سو وہ گزررہاہے۔ کچھ کی دودھ مکھن اور گھی میں تربترگزررہی ہے تو کچھ کی اس کے انتظارمیں…. ڈرون حملے ہورہے ہیں جنازوں پر‘ باراتوں پر‘مدرسوں پر‘آگ وخون کی بارش ہورہی ہے۔ خبرآتی ہے اتنے دہشت گرد ہلاک اور اتنے زخمی ….نہ کوئی ثبوت نہ گواہ…. میڈیا کا راستہ بند…. کون ہے جو سچ بتائے۔ بس کہانیاں ہیں‘یک طرفہ دعوے ہورہے ہیں‘گونگلووں کی مٹی جھاڑ دی جاتی ہے۔ (گونگلوشلجم کو کہتے ہیں مگر اس محاورے کا مزہ شلجم میں نہیں آتا) ہرایک کی کمزوری کو نظرمیں رکھنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے ڈرون حملوں سے بھی فائدہ اٹھاجاتے ہیں۔ نہ کوئی اعتراض نہ تنقید لگے رہو…. چلو اسی بہانے آبادی کم ہونے کا تو کام ہورہاہے اور مزید امدادکے مواقع بھی۔ سچ کہا کسی نے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بچے کھلونوں کے بجائے ہڈیوں سے کھیلتے ہیں کہ وہ وافربھی ہیں اور ارزاں بھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمراں صدر وزیراعظم ہوں یا اپوزیشن میں بھی اقتدارکے مزے لوٹنے والے سب ہی اپنی اپنی کہانیوں کی اگلی قسط کی نوک‘ پلک سنوارنے میں مگن ہیں۔ واقعہ ایبٹ آباد ہو یاخروٹ آباد‘ نیول بیس مہران میں دہشت گردی ہو یا سلیم شہزاد اور سرفراز شاہ کا خون ناحق‘ انہیں کسی بھی معاملے میں کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں…. بادلوں میں اڑنے اور محلات میں بسنے والوں کو زمین کے مسائل سے کیا سروکار….انہیں عوام کے احساسات وجذبات کی فکرہے نہ مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ اورٹارگٹ کلنگ کی آگ میں جلنے والے کیڑے مکوڑوں کی پروا…. باہرجائیداد بھی ہیں اور بینک بیلنس بھی۔ جب حالات نامناسب ہوئے‘ چالیس نہ سہی دوسوٹ کیسوں کے ساتھ ہی باہرکی راہ لینا کیا مشکل؟

نیول بیس پرحملے کے بعد وزیراعظم نے دودھ کے فوائد تو نہیں بتائے لیکن اپنے دورہ مہران بیس کے فوائد کی اطلاع ضروردی کہ میں نے نیول بیس مہران کا خود دورہ کیاہے‘ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کاحکم دیاہے‘ عوام کا عزم ڈگمگایا نہیں مزیدمضبوط ہواہے۔ جی ایچ کیو پرحملے کو دوسال ہونے والے ہیں۔ تحقیقات اوراس کے نتائج منظرعام پر نہیں آئے نیول بیس پرحملے تک بلا مبالغہ ہمارے وزیراعظم صاحب ہزاروں دفعہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کاحکم صادر فرماچکے ہیں۔ نتیجہ ایک نئی کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے ہوتاہے۔ آج عوام اپنی حکومت کی کارکردگی سے کس قدر ناامید اور بیزارہیں۔ اس کا ادراک ہرطرح کے مزدور تاجرملازمت پیشہ بلکہ گھروں میں بیٹھنے والی خواتین کوبھی اچھی طرح ہے۔ اگرنہیں ہے تو اس فرینڈلی اپوزیشن کو نہیں ہے جس کے متفقہ ووٹوں سے سب کچھ جانتے بوجھتے ڈاکووں اور لٹیروں کو گدی نشین کیاگیاتھا۔ ملکی وسائل کو لوٹنے‘ خزانے کو خالی کرنے اور عوام کو تباہی تک پہنچانے کا الزام حکومت پرہے تو جرم میں برابر کے شریک وہ بھی نہیں جنہوں نے جانتے بوجھتے انہیں گدی نشین کیا۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply