اشتہارات کی دنیا

اشتہارات  کے معاشرے پر اثرات                   یا  اشتہارات میں معاشرہ  کی جھلک!

 

“بھائی  نیا ٹوتھ پیسٹ لایا ہے ! جس کا اشتہار ٹی وی پر آرہا ہے !’

 

یہ اس خط کا  ایک حصہ ہے جو ہم نے 1985 ء میں اپنے ابا جان کو لکھا تھا ۔ وہ ان دنوں نائیجیریا میں مقیم تھے ۔یادش بخیر ! ان دنوں خطوط ہی رابطے کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے جن میں جزئیات لکھی اور پڑھی جاتی تھیں ورنہ 3 منٹ کی کال تو محض سلام دعا میں ہی ختم ہوجاتی تھی ۔خط پہنچنے میں  کم ازکم  دو ہفتےلگتے تھے ۔ایک ماہ بعد اس خط کا جواب آیا تو اس میں بڑے ہلکے پھلکے انداز میں لکھا تھا

” کیا تم لوگ ہر وہ چیز گھر لاؤ گے جس کا اشتہار ٹی وی پر آئے گا ؟  ”   اس پر بڑی بحث و تکرا ر ہوئی اور بالآ خر یہ طے پا یا کہ ڈنٹونک ہی آئے گا !

Dentonic, With or Without Brush!       

ایک بھائی پر کیا منحصر ، اشتہارات تو ہر ایک کو متا ثر کرتے ہیں !  ہماری امی جان ماہانہ خریداری کو نکلیں تو دیرینہ دکاندار سے لیمن  والا صابن طلب کیا جو ضدی برتنوں کا علاج  تجویز کیا جا رہا تھا ۔وہ سنتے ہی چٹخ پڑے ۔

”    اشتہار پر مت بھروسہ کرو ۔ہاتھوں کا بیڑہ غرق کرنا ہے کیا ؟”                                                           ا        می بے چاری منہ کی کھا کر واپس آگئیں ۔

یہ بیس سال بعد کا منظر ہے ۔ بھائ اپنی فیملی کے ساتھ  خریداری کو نکلے ۔ ٹرالی پر نظر کی ۔پانچ  رکنی خاندان کے لیے اتنے ہی قسم کے ٹوتھ پیسٹ ! اور اس وقت تو ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا جب فئیر اینڈ لولی بھی سامان میں دیکھی ۔

” یہ کون لگائے گا  ؟  ” ہم نے اپنے بھائی کی دودھ جیسی رنگت والی فیملی کو دیکھتے ہوئے کہا ۔پتہ چلا ننھے بچے  نے رکھی ہے ۔ اب کیا ہوسکتا تھا ؟ بل بھی ادا ہوچکا ہے۔۔” چلو میں اپنے پاؤں میں لگا لوں گا ۔۔” بھائ نے واپسی کے جھنجھٹ سے بچتے ہوئے کہا ۔

چند ماہ پہلے ہم نے اپنے فیس بک پر  مندرجہ بالا کہانی لکھی جس کا مقصد اپنے بہت سارے بھائیوں کو متوجہ کرنا تھا جو شاپنگ لسٹ نہیں دیکھتے ۔ہوشیار باش !! محنت سے کمایا ہوا روپیہ عقلمندی سے خرچ کریں اور بہنیں دیانت داری سے ! ہمارے ان الفاظ پر کافی تاثرات آئے جن میں بہت سے مفید مشورے بھی شامل کیے گئے تھے مثلا

“سامان کی فہرست بنالیں اور جو موجود ہو اسے کاٹ دیں ۔”  اس فارمولے کو ہر موقع پر استعمال کرنے کا مشورہ کچھ نے وقت کا ضیاع کچھ کے خیال میں خواہ مخواہ  انک کا ضائع کرنا تھا ۔ پھر اس پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ۔سب نے اپنے اپنے دلچسپ واقعات بتائے ۔ بحث کا اختتام اس قرارداد پر ہوا کہ

” آسان حل یہ ہے کہ راشن کے لیے پوری فیملی کو جانے کی ضرورت ہی نہیں ! کوئی ایک معقول فرد ( مرد) جاکر خریداری کرلے اور پکنک یا تفریح کے لیے علیحدہ سے جایا جائے ۔خود بخود خرچ قابو میں آجائے گا ۔ ‘ ‘

مشورہ نہایت مناسب  اور حل بالکل درست تھا  ۔بہت سے لوگ اس پر پہلے سے ہی عمل پیرا ہو چکے ہیں ۔جن میں ہماری بہن کا خاندان  بھی شامل ہے ۔ مگر اس کے ساتھ بھی بہت سے لطیفے سرزد ہوتے ہیں ایک دفعہ ہم ان کے گھر پہنچے تو وہ سرپکڑے بیٹھی تھیں ۔ پریشانی یہ کہ میدہ گوندھ رہی ہوں مگر جڑ ہی نہیں رہا                                                                 ہم نے بعد از میعاد ( expiry)   ہونے کاشبہ ظاہر کیا ۔ اب جوتھیلی دیکھی  تو 1 کلو اراروٹ لکھا ہوا تھا ۔ یہ گھر کے سب سے معقول ، شاپنگ کے ماہر فرد کا کارنامہ اور گوندھنے والی فارمسسٹ جو عادتا بھی ہر شئے کے اجزا، میعاد اور ترکیب ضرور چیک کرتی ہیں ۔فورا گوگل سے رابطہ کیا کہ اراروٹ سے بننے والی ڈشز معلوم کریں  کہ اتنے زیادہ اراروٹ کو کھپایا جاسکےگر ہر ڈش میں ایک دو چمچ ہی استعمال ہورہا تھا ۔۔!

” اتنا زیادہ اراروٹ کون خریدتا ہے ؟ یہ حال ہے شہر کے سب سے بڑے نام والے اسٹور کا ؟ ”  بہن نے اپنی غلطی تسلیم نہ کرتے ہوئے اور مجازی خداکو بھی کچھ کہنا محال تھا لہذا سارا غصہ امتیاز سپر اسٹور پر نکال دیا ۔

” آخر لانڈری والے بھی تو وہیں سے خریدتے ہیں ۔ظاہر ہے اپنی ضرورت کے لحاظ سے لیتے ہیں ” ہم نےتھیلی کا بقایا کسی دھوبی کو تحفے میں دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔ بہن اس نقصان ، وقت کے ضیاع اور ضرورت کی عدم تکمیل پر برانگیختہ تھیں اور ہم نے دل ہی دل میں  اپنے آپ کو سراہا کہ ہم کسی بھی سپر اسٹور میں داخل ہوتے ہی اپنی  مطلوبہ  شئے کا پتہ وہاں موجود لڑکوں اور لڑکیوں سے دریافت کرتے ہیں بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ ان سے ہی منگوالیں اپنا وقت ضائع کرنے کا فائدہ اور پھر ان لوگوں کو بھی فضول گپوں سےروکا جاتا ہے ۔

عزیز قارئین !   آپ کی حیرانگی بجا ہے کہ اب تک کی تحریر کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں بن پا رہا !   اشتہارات کے حوالے سے 32 سال پرانے واقعات  بیان کرنے کا مقصد ؟                                                  واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ  اس زمانے میں نئے اشتہار سے متاثر ہوکر خریداری  کرنے میں کئی مزاحمتیں ہوتی تھیں ،گھر کے سر براہ سے لے کردکان دار تک !جبکہ محض بیس برس کے بعد ایسا کوئی چیک اینڈ بیلنس سسٹم نظر نہیں آرہا۔ اگر خرچ کرنے والے کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ کیا خریدنا ہے اور کیا نہیں تو دوسری طرف  شاپنگ سنٹر کو محض اپنی سیلز رپورٹ سے دلچسپی ہے  گاہک کے نقصان سے کوئی غرض نہیں اور نہ کمپنیوں کو اس بات سے کوئی سروکار کہ ان کی پراڈکٹ کہاں اور کیسے استعمال ہورہی ہے ! منہ کی چیز پاؤں میں یا حمام کی چیز کچن میں ! ہماری شاپنگ لسٹ میں کتنی اور کیسی تبدیلی آئی ہے ،یہ بات  محترم اوریا مقبول جان اور اشفاق احمد صاحب بڑے واضح انداز میں بتا چکے ہیں ۔     

پھر یہ بات بھی طے ہے کہ اشتہارات صرف مالیات کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ  اخلاقیات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں  اوریہ اثرات صرف ظاہری نہیں ہوتے بلکہ  دیرپا اور اندرونی طور پر معاشرے کا ڈھانچا تبدیل کردیتے ہیں ۔اقدار اور روایات سے لے کر حقوق اور فرائض تک !  لیکن دوسرا پہلو کہ اشتہارات بھی معاشرے سے متاثر ہوکر بنائے جاتے ہیں  جی ہاں ! ہم نے اکنامکس کبھی نہیں پڑ ھی مگر یہ اصول معلوم ہے کہ کمرشلز  کے لیے مقامی دلچسپی اور ضرورت کو مد نظر رکھا جا تا ہے ۔مثال کے طور پر  پاکستانی معاشرے میں جہاں 80٪ خواتین سر ڈھانکتی ہوں ،سروے کے بعدشمپو کا اشتہار پیش کیا جا تا ہے کہ آپ کے لیے ہے ! ۔ ہر سال  رمضان ، حج اور دیگر اہم مواقعوں پر نئے اور منفرد اشتہارات  آن ائیر ہوتے ہیں اور بے چارہ صارف یہ سوچے بغیر کہ یہ سب اس کے خرچے پر اہتمام ہورہا ہے اس شئے کی خریداری پر جت جاتا ہے ۔پچھلے سال  رمضان میں ایک   موبائیل کمپنی نے کرکٹر لڑکی سارہ پر کمرشل بنایا جس نے ہر طرف رونق لگا دی ۔بحث کے نئے موضوع نکل آئے ۔ ہم نے بھی ایک تحریر لکھی جو اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے                                                                                                http://farhatahir.blogspot.com/2016/07/

جو یہ نہ پڑھ سکیں وہ بس اتنا جان لیں کہ اس اشتہار کے ذریعے ہماری لڑ کیوں کو جیسے چاہو جیو کی بھرپور تلقین تھی ۔کامیابی کے بعد ناراض باپ ہو یا خاندان گلے سے لگالیتے ہیں ۔ بظاہر ایک معصوم جذباتی سااشتہار جو رمضان کی بابرکت سعادتیں بھی دکھا رہا  ہوکس قدر خوفناک نتائج کا حامل ہے اس کا اندازہ ہ لگانا ہمارے سیدھے سادے عوام کے لیے  ممکن ہی نہیں ہاں اگر یہ پیغمبرانہ دعا یاد رہے کہ چیزیں ویسی دکھا جیسی اصل میں ہیں تو منظر نامہ  صاف دیکھا جا سکتا ہے ۔جدید دور میں  open/hidden Theme                   کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی دکھایا کچھ جائے حاصل مقصد کچھ اور ہو ۔اور یہ بات یاد رہے کہ بغیر تھیم کے کوئی اشتہار نہیں بنتا ۔

اس پر بات کرنے سے پہلے یہ منظر دیکھیں :

”  آپ کو پتہ ہے ! شان مصالحے کا نیا ایڈ آیا ہے ! چینی لڑکی بریانی پکا کر پڑوسیوں کے ہاں لے جاتی ہے  ۔  دوپٹہ پہن کر !         اس اشتہار کو لاکھوں  افراد دیکھ چکے ہیں ایک دن میں ”                                           رات کے کھانے پر ہمیں یہ اطلاع فراہم کی گئی۔

ہم جیسے لوگ جن کے پاس نہ ٹی وی دیکھنے کی فر صت ہے نا سہولت ، خبرکے اس ذریعے سے بہت مستفید ہوتے ہیں ۔تو کھانے سے فارغ ہوکرتجسس کے ہاتھوں لیپ ٹاپ کھول لیا  ۔شان مصالحے کا 3 منٹ اور 20سیککنڈ کا یہ اشتہار جسے آن ایر ہوتے ہی ( 18 اپریل )  60   ہزار سے زیادہ افراد شئیر کر چکے ہیں ۔اور یوٹیوب پر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ملاحظہ کر چکے تھے ۔ اصل اشتہار دیکھنے سے پہلے ہی اس کی پیروڈی ہمارے اسکرین پر نمودار ہوگئی ۔جی ہاں ! دلچسپ بات یہ کہ اصل اشتہار کے مقابلے میں اس کی پیروڈی  جو 3 ایڈیٹس  نامی گروپ نے 24  گھنٹے کے اندر بناڈالی زیادہ مشہور ہوئی ۔

یہ اشتہار پاک چین دوستی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ بریانی کے شیدا خوش کہ ان کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے یہ سوچے بغیر کہ انڈین ماڈلز کے ذریعے ان کی جیب پر کتنی ضرب پڑے گی ؟ شان مصالحے برسوں سے ہمارے کھانوں میں استعمال ہورہے ہیں مگر اس اشتہارکے ذریعے یہ پیغام دیا جا رہا ہے ( بین السطور) کہ چین سے چاہے جتنی پینگیں بڑھا لو ہمارے بغیر کچھ نہیں کر سکتے پاکستانی !   اور پکڑو Kalbho shan  کو! جرمانہ میں     Shan    کو تو وصول کر ہی لیا ہے۔ اب جتنے مصالحے خریدیں جائیں اتنی انڈیا کو آمدنی!                                                                          بے چارے پاکستانی  اپنی مصنوعات کا منافع بھی انڈیا کو راضی خوشی دے رہے ہیں ۔

پھر اس اشتہار میں بظاہر لاہور دکھایا جارہا ہے جبکہ منظر کشی ایک انڈین گھرانے کی ہورہی ہے ۔ حالانکہ سب کے سروں پر ڈوپٹے ہیں مگر گھر کا رہن سہن چیخ چیخ کر اسے ہندوستانی دکھا رہا ہے ۔ مہمان نوازی اور پڑوسی کی مدارات کے بجائے کس قسم کی تہذیب دکھائی جارہی ہے ؟ کیا یہ سب ہماری معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی کا باعث نہیں بنے گا ؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فر حت طاہر

 

 

 

فیس بک تبصرے

Leave a Reply