گستاخانہ خاکے: ملالہ یوسف زئی اور الطاف حسین

altaf-malala

فرانسیسی میگزین میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلمانوں میں ایک اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے، پاکستان کے ارکان ِ پارلیمنٹ نے بھی اس حوالے ایک ریلی نکالی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے بھی اس موقعے پر فرانسیسی جریدے کے اس عمل کی مذمت کی اور اقوام ِ متحدہ سے اس معاملے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ فرانس میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کی حمایت کسی نے نہیں کی ہے لیکن یہ سوال ضرور اٹھایا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا حل چھوڑ ا گیا ہے؟ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر مغرب کا دہرا معیار تو سب کے سامنے ہے کہ وہاں نام نہاد ہولو کاسٹ پر بات کرنا جرم لیکن انبیاء کی توہین پر کوئی تعزیر نہیں ہے۔ امریکی صدر اگر ایک خاتون کو کہے کہ وہ بہت اچھی لگ رہی ہیں ان پر بھی خاتون کی توہین کا الزام عائد کردیا جاتا ہے اور امریکی صدر کو بھی معافی مانگنی پڑتی ہے لیکن خاتم النیینؐ کی توہین اور اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کو اظہارِ رائے کی آزادی کا نام دیدیا جاتا ہے۔

اہل مغرب کے اس رویے کی ایک بہت بڑی وجہ ہمارا لبرل، آزاد خیال اور نام نہاد مسلمان طبقہ بھی ہے۔ یہ لبرل سیکولر عناصر مغرب کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے ان کے ہر ناجائز عمل کا جواز فراہم کرتے ہیں اور رد عمل ظاہر کرنیو الوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جس کی ایک مثال ملالہ یوسف زئی اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین ہیں۔ ملالہ یوسف زئی اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے داعش کی مذمت کرنے سوڈان پہنچ جاتی ہیں، دنیا بھر میں ہونے والے ہر قسم کے واقعات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہیں ، وقتا فوقتا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر مسلمانوںکو لتاڑتی رہتی ہیں لیکن ابھی تک اس معاملے پر اس کا کوئی بیان سامنے آیا ہے، ان کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہاں بات تو ٹھیک ہے بھئی ’’ منہ کھائے اور آنکھ لجائے ‘‘ یا ’’ جس کا کھائو اُ سی کا گائو‘‘ جب غیر مسلموں کا کھائیں گے تو انہی کے گُن گائیں گے نا۔بد قسمتی یہ ہے کہ ان کا تعلق بھی پاکستان سے ہے اور یہ بھی مسلمان ہیں۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

دوسری جانب متحدہ کے قائد الطاف حسین ہیں۔ ان کو بھی توہین رسالت کے معاملے پر احتجاج پر بہت تکلیف ہورہی ہے۔ جب بھی کسی مذہبی معاملے پر احتجاج کیا جاتا ہے تو ان کا یہی حال ہوتا ہے۔ پھر ان کو ملکی معیشت، روداری، اتحاد بین المذاہب جیسی باتیں یاد آتی ہیں۔ ہمیں الطاف بھائی کی باتوں سے انکار نہ ہوتا اور ہم بھی ان کی باتیں مان لیتے کہ الطاف بھائی آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن جب آپ کا طرزِ عمل دیکھتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ لندن میں الطاف حسین صاحب کی لندن میں گرفتاری پرکراچی بند کردیا جاتا ہے، یہاں دھرنے دیئے جاتے ہیں اورکاروبارِ زندگی معطل ہوجاتا ہے۔ اس وقت کوئی یہ نہیں سوچتا کہ لندن میں ہونے والے ایک معاملے پر کراچی کیوں بند کردیا گیاہے؟ اس وقت انہیں ملکی معیشت کیوںیاد نہیں آتی ہے؟ اس وقت الطاف حسین اور ایم کیوایم کے رہنما کارکنان کو صبر اور برداشت کا درس کیوں نہیں دیتے؟

خورشید شاہ اگر غلطی سے مہاجر لفظ کے بارے میں نازیبا بیان دیں تو اس پر ان کو منکر، کافر، دائرہ ایمان سے خارج اور گستاخ کہا جاتا ہے۔ ( شہر کی دیواریں ابھی تک ان نعروں سے سجی ہوئی ہیں) اس وقت درباری علما قرآنی آیات کی من مانی تفاسیر پیش کرتے ہیں ، پورے سندھ میں احتجاج کیا جاتا ہے ۔ اس وقت ان کی رواداری کہاں چلی جاتی ہے۔ یادش بخیر پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر ذوالفقار مرزانے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں ثبوت لیجانے پر پُر تشدد احتجاج کیا جاتا ہے، درجنوں گاڑیاں جلادی جاتی ہیں، پورے شہر کو جام کردیا جاتاہے، اس وقت ان لوگوں کو ملکی معیشت کا خیال نہیں آتا۔اس وقت صبر و تحمل، برداشت کی باتیں کہاں چلی گئیں تھیں؟ اس وقت ملکی معیشت کا خیال کیوں نہیں آیا؟

اصل بات یہ ہے کہ مغرب میں بسنے والے، مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے اور ان کے ایجنڈے پر چلنے والوں ہی کی وجہ سے مغرب کے شیطانوں کی ہمت بڑھتی ہے اور توہین رسالت کرنے والے گستاخوں کے اصل سرپرست یہی لوگ ہیں۔ اپنے مغربی آقائوں کی ہدایت کے مطابق کبھی مولانا عزیز کو کافر اور لال مسجد کو مسجد ضرار قراردیتے ہیں اور دینی جماعتوں پر پابندی کی بات کرتے ہیں۔عوام ان کے کردار کو سامنے رکھیں اور ان کی باتوں میں نہ آئیں اور توہینِ رسالت کے معاملے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں، اس کے خلاف مظاہروں میں ضرور شرکت کریں۔ اگر کوئی نام نہاد مسلمان ملکی معیشت ، مذہبی رواداری اور صبر و برداشت کا درس دیتے ہوئے ان مظاہروں کی مخالفت کرے تو ذرا ہمت کرکے اس سے مذکورہ بالا باتوں کے بارے میں پوچھ لیجیے گا۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply