بابا میری آواز سنو نا،سنو نا!

fatherz-

بابا میری آواز سنو نا، سنونا
بابا میرے یہ الفاظ سنونا، سنو نا !
کہاں گئے ہواب آبھی جائو!
بیٹھا کے کندھے پہ پھرگھمائو !
بابا میری آواز سنونا!
کھلونے لاکر دیے تھے جو بھی،
میں اب نہیں ان سے کھیلتا ہوں
کہ آپ کے بعد اپنے گھر میں،
کہا یہ ماں نے کہ میں بڑا ہوں !
بابا۔۔۔
ہے کوئی بھی جو مجھ سے پوچھتا،
بڑاجو ہوں گا تو کیا بنو ں گا
تو ان سے کہتا ہوں،سن لو بابا!
میں ہو بہو بابا سا بنوں گا،
بابا میرے یہ خواب سنونا!

عزیز قارئین !
یہ الفاظ اس نغمے کے ہیں جس کی ویڈیوشاید آ پ نے دیکھی ہو؟ آٹھ دس سال کا معصوم سا بچہ اپنی مدھر آ واز میں اپنے شہید باپ کو پکار رہا ہے۔ بیک گرائونڈ میں اس کی اپنے باپ کے ساتھ یادوں کی فلم سی چل رہی ہے۔ جذ باتی مناظر اور ان کے ساتھ سریلی سی موسیقی! بے حد متاثر کن لگتا ہے جبھی تو میرے قریب بیٹھا سات سالہ محمد یوسف اس ویڈیو کو صبح سے بار بار دیکھ رہاہے۔ چار پانچ منٹ کی اس ویڈیو کو دیکھ کر اور اس بچے کی بے چارگی پر دل پگھلنے سا لگتا ہے۔ میں یو سف سے پوچھتی ہوں کہ اسکے ابو کہیں دور گئے ہوئے ہیں تو وہ نہایت سنجیدگی سے کہتا ہے کہ نہیں وہ مرگئے ہیں۔ اور مجھ سے نظریں ملائے بغیرمیرے موبائیل پر ڈائون لوڈ کی ہوئی دوسری ویڈیو دیکھنے لگتا ہے۔ یہ ویڈیو بھی کم جذباتی نہیں! چند دن پہلے غرقاب ہونے والے نصر اللہ شجیع کے بارے میں ہے۔ اسی ویڈیو میں ان کے معصوم بیٹے کی تصویر بھی شامل ہے جو اپنے اوپر گزرنے والے سانحے سے بے خبر کھیل کود میں مصروف ہے! میرے ذہن میں کلک ہوا! نقصان تو دونوں کا ایک ہی ہے، یتیمی! آہ! میرے حبیب ﷺ تو یتیم پیدا ہوئے اسی لیے فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہوگا جیسے دو انگلیاں !

یتیم کا لفظ سنتے ہی ذہن میں باپ کی محرومی کا تصور آ تا ہے۔ باپ جو سائبان ہوتا ہے اپنے بچوں کے لئے! خود حوادث میں رہتا ہے مگر اولاد کوطوفان سے بچائے رکھتا ہے۔ ضروریات سے آگے بڑھ کر آسائشوں کا سامان کرتا ہے۔ باذن اللہ صرف دو بندے ایسے ہیں جو والد کے بغیر وجود میں آئے یعنی حضرت آدم ؑ اور حضرت عیسٰیؑ! باقی دنیا کا کوئی بشر ایسا نہیں جس کی زندگی باپ کی محتاج نہ ہو! بابا کہلائے یا ابو، ابا کہا جائے یا ڈیڈی! فادر ہو یا باپ! رشتہ اور تعلق ایک ہی ہے! قرآن میں حضرت یعقوبؑ ایک مثالی باپ کی شکل میں نظر آ تے ہیں توحضرت ابراہیم ؑ کے باپ کا کردار ایک دوسرے رنگ میں نظر آ تا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا اپنے مشرک باپ کے لیے دعا مانگنا اسی محبت کا مظہر ہے جو ایک بچے کو اپنے باپ سے ہوتی ہے۔

واپس ویڈیو کی طرف آ تے ہیں!موت تو آنی ہے مگر وہ مقصد اور ذریعہ اہم ہوتا ہے جس سے موت ہم آ ہنگ ہوتی ہے! باپ کی وفات سے گھر اور بچوں میں خلا پیدا ہوتا ہے خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین! اس بحث سے قطع نظر کہ کون شہید ہے اور کون محض ہلاک! لاش تابوت میں بند گھر پہنچے یا ایدھی سنٹر کے مردہ خانے سے وصول ہو! دونوں گھروں میں قیامت ٹوٹتی ہے کہ مگر کچھ فرق کے ساتھ! ایک فوجی شہید گردانا جاتا ہے تمغے اور مراعات، معاشرے میں افتخار و عزت! سلامی اور استحقاقی پروٹوکول! اس کا بچہ کھلونے چھوڑ دیتا ہے کہ اب میں بڑا ہوگیاہوں!عہدے جو سنبھالنے ہیں! جبکہ کسی عام فرد کا بچہ کھلونے کی جگہ ہاتھوں میں آلات سنبھال لیتا ہے۔ جی ہاں! روزگار کا جو بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ اس سے بھی محروم کردیا جائے تو اسلحہ تھام لیتا ہے۔

اس مضمون کو شروع کیا تھا کہ ایک اور ویڈیو سامنے آ گئی۔ دو معصوم بچے اپنے فوجی شہید باپ کی سالگرہ منا رہے ہیں کہ آپ کے مستقبل کے لیے ہماری خوشیاں قربان ہو گئیں۔ ان بچوں کی یتیمی ہر ایک کو رلارہی ہے مگر ان بچوں کا کیا قصور جن کے باپ اٹھالیے گئے! بر سوں سے غائب ہیں! گھروں سے لاپتہ ہیں ! missing persons کے نام سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کے گھروں میں معاش کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ کیا سٹیٹ کی ذمہ داری نہیں ہوتی! دو مختلف طرح کے یتیم بچے اتنے متضاد طرح کے حالات سے کیوں گزرتے ہیں!

حکومت جو عوام کی مائی باپ ہوتی ہے کس طرح ایک باپ کو ڈاکوئوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ جس بچے کے سامنے اس کے باپ کو محض ایک موبائل کی خاطر قتل کر دیا جاتا ہے کیا وہ کسی ذہنی، معاشی، روحانی، جذباتی مدد کا مستحق نہیں ہے؟ کیا اس کے باپ کی حفاظت حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں؟ بات کراچی کی لاقانونیت میں ہلاک ہونے والے باپ کی ہو یا حادثے میں ناگہانی طور پر مرنے والے کی! دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کا ہو یا اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کرIDP’کہلانے والے کی! دکھ یکساں ہے! ذمہ دار ایک ہی ہے! جی ہاں! سربراہ مملکت! اپنی سلطنت میں مرنے والے ایک کتے کا بھی حق دلانا اس کی ذمہ داری ہے!

ھنگامی اور حادثاتی طور پر مرنے والے کے ورثاء کیوں عدم تحفظ کاشکار! اپنے ملک و قوم پر جان دینے کا حلف باقاعدہ نہ اٹھانے والے کیا کسی توجہ کے مستحق نہیں! اس سوال کی سفاکیت روز بروز سامنے آ رہی ہے! آئی ڈی پیز کس جرم میں دھکے کھارہے ہیں! قوم کے بابا کی نا اہلی! جی ہاں سربراہ مملکت پوری قوم کے بابا ہی تو ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ نئے قانون کے تحت تو کبھی بھی کوئی بھی باپ کسی افسر کی گولی کا نشانہ بن سکتاہے، تشدد کا شکار ہوکر غائب یا زخمی ہوسکتاہے۔۔۔

ملک وقوم سے بڑا دائرہ امت کا ہے! اس کا حال بھی پانی پانی کر رہا ہے! معصوم بچے اپنے باپوں کو کھو رہے ہیں اور پکار رہے ہیں
بابا میری آ واز سنو نا!
درد بھری پکار! ہے کوئی اس پر لبیک کہنے والا! آنسو پونچھنے والا! کہاں ہیں امت کے بابا؟

فیس بک تبصرے

بابا میری آواز سنو نا،سنو نا!“ پر 3 تبصرے

  1. مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے ضرورت کا پہاڑ
    میرے بچّے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

    جس ہستی کو اپنے بچّوں کےلئے بوڑھا ہونا گوارا نہ ہو وہ مرنا کیسے گوارا کرسکتا ہے۔۔۔

    اللہ سبھی پر اُن کے والدین کا سایہ سلامت رکھے۔۔۔اٰمین

    • بہت اچھی تحریر ہے ماشاء اللہ۔۔۔ اللہ آپ کا احساس سلامت رکھے۔۔۔اٰمین

    • shukria! father’s love is just symbolic here. actually it is on state responsibilities.

Leave a Reply