بنگلادیش میں جاری سیاسی قتل عام

پلازمہ اور سرخ و سفید ذرات سے مزین خون اپنی کثافت کے لحاظ سے دنیا کے تمام علاقوں میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن جب یہ بہتا ہے تو اتنی تفاوت اس دنیا کو کیسے نظر آنے لگ جاتی ہے کہ کبھی ایسی چیخ و پکار کہ یہ چلتا خون سسک کر رہ جاۓ اور کبھی اتنا سکوت کہ بے روک ٹوک بہتا ہی چلا جاۓ – بنگلہ دیش میں آج کل ایسے ہی ایک لہو کو بے قیمت اور باغی قرار دے کر، سڑکیں رنگین اور گلیوں کی نالیاں خوں آلود کی جا رہی ہے جس پر نا تو عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں سر آسمان پر اٹھا رہی ہے اور نہ عالمی طاقتیں آگے بڑھ کر اس معصوم خون کے بہاؤ کو روکنے کی زحمت گواراکر رہی ہیں انسانی اقدار کا دم گھٹنے لگتا ہے تو چند بے اختیار لوگ دنیا کو ضرور بتا رہے ہیں کہ یہ کرمنل کورٹس قتل عام کے آرڈر دینے کے لیے بنائی گئی ہیں۔

 

جماعت اسلامی بنگلہ دیش ، ایک بدترین ظلم سہہ رہی ہے جس ظلم کے لیے ایک جھوٹ پر مبنی الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کے حامی ہیں ، قبل71 کی محب وطنی کو بنیاد بنا کر دوسری نسل سے بدلہ لینے کی بات کی جا رہی ہے اور اس کے خلاف بولنے والوں کو سڑکوں پر خون سے نہلایا جا رہا ہے ،اب تک 17 سے زائد اسلام پسند اس ظلم و بربریت کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور 30 ہزار سے زائد افراد کو پکڑا جا چکا ہے جن میں بوڑھے ضعیف میں ہیں ، عورتیں اور بچے بھی ہیں اور جوان حیا صفت بچیاں بھی شامل ہیں۔

 

آج میں اس بربریت کی ظاہری وجوہات کا پردہ چاک کرکے ایک پروپیگنڈہ مہم کی حقیقت آشکار کرنا چاہتا ہوں 1991 کے بنگلہ جنرل الیکشن کے بعد حسینہ واجد کے قریبی ساتھی اور عوامی لیگ کے اہم رکن نے جماعت اسلامی سے اتحاد کر حکومت بنانے کا فارمولا پیش کیا جس میں تین وزراء اور سات خواتین کی مخصوص سیٹس دینے کی آفر کی گئی لیکن جماعت اسلامی نے سیکولر شدت پسند بھارت نوازعوامی لیگ سے اتحاد کی اس آفر کو ٹھکرا دیا، جسے عوامی لیگ کے حلقوں نے کھلم کھلا اپنی بے توقیری سمجھا اور حکومت کرنے سے محروم ہو گئی نتیجتا بی این پی نے جماعت اسلامی کی بجاۓ دوسری چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت کی تشکیل کی – 1996 کے بنگلہ جنرل الیکشن میں بھی جماعت اسلامی نے پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں ملک گیر ایک کامیاب مہم چلائی اور ایک تیسری طاقت کے طور پر سامنے آئی تب تک ان پر کسی قسم کے الزمات نہیں لگاۓ گئے تھے لیکن جماعت اسلامی کی کردار کشی کی بنا بھاری اکثریت حاصل کر کے عوامی لیگ ایوانوں میں پہنچ گئی اس بار جماعت اسلامی نے بی این پی سمیت چار جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک طاقت ور اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور عوامی لیگ کی غلطیوں اور غیر جمہوری رویوں پر کھل کر تنقید کی 2001 میں جماعت اسلامی اور بی این پی نے انتخابی الائنس کے نتیجے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی خالدہ ضیاء کی قیادت میں جماعت اسلامی حکومت کا حصہ بنی اور تاریخی وزراء کے طور نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ عالمی سطح پر مشہور ہوۓ ، عوامی لیگ اسی دوران اپنی جماعت اسلامی مخالف مہم کو تیز کر دیا ابتدا میں کرپشن اور دہشت گرد گروپ کے طور پیش کیا جانے لگا لیکن اس پر ناکامی کے بعد 71 کی جنگ میں البدر و الشمس کے کردار کو باغی کردار کہہ کر سر عام الزامات لگاۓ کہ جماعت اسلامی ، پاکستان کی حامی جماعت ہے بلکہ اس نے جنگ آزادی میں پاکستان کے ساتھ مل کر بنگالی عوام کا قتل عام کیا وار کرائم کے نام پر باقاعدہ ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا جس میں ملکی میڈیا نے بھی جذبہ حب الوطنی سمجھ کر اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اسی مہم میں وار کرائم عدالتوں کی بات کر کے ایسے غداروں کو سزا دینے کی بات کی گئی- عوامی لیگ ایک مرتبہ پھر 2009 کے الیکشنز میں کامیاب ہو گئی جو تین سالہ تعطل کے بعد ہوۓ حکومت میں آنے کے بعد اسلام پسند قوتوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے بدنام زمانہ وار کرائم عدالتیں بٹھا دی گئیں اور اندھا دھند مخالفین کو پکڑ پکڑ کر جیل میں پھینکا جا رہا ہے ، گھروں اور دفاتر سے خواتین اور طالبات تک کو اٹھایا جا رہا ہے اور اگر اس پر احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں تو نام نہاد محب وطن غنڈے چھوڑ دیے جاتے ہیں جن کے ظلم و ستم پر انسانیت ماتم کناں ہے۔

 

آغاز میں ان عدالتوں کو عالمی برادری نے قبول کیا اور بنگلہ دیش حکومت کا ملکی محبت کا عنصر کہا لیکن عدل و انصاف کے قتل عام کو دیکھتے ہوۓ اب اس کو بہتر بنانے پر زور دیا جا رہا ہے – ان عدالتوں کی تشکیل پر بنیادی سوال کھڑا ہوتا ہے جسے عالمی برادری کی حمایت کی ضرورت ہے کیوں کہ 16 دسمبر 1971 کے بعد 95000 پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار پھینک دیے اور آزادی بنگلہ دیش کے روح رواں شیخ مجیب الرحمٰن کے حکم پر وار کرائم کی تحقیقات کا آغاز ہوا جس میں پاکستانی فوج اور ان کا ساتھ دینے والوں کو شامل کیا گیا ان تحقیقات کے اختتام پر بنگلہ دیش کی حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں 195 افراد پر الزام ثابت ہوا اور سزا دینے کی سفارش کی گئی۔

 

The press release of the Government of Bangladesh (17 April 1973) on war crimes trial notified that:

Investigations into the crimes committed by the Pakistani occupation forces and their auxiliaries are almost complete. Upon the evidence, it has been decided to try 195 persons of serious crimes, which include genocide, war crimes, crimes against humanity, and breaches of Article 3 of the Geneva Convention, murder, rape and arson.

Trial shall be held in Dhaka before a special tribunal, consisting of judges having status of judges of the Supreme Court.

The trials will be held in accordance with universally recognised judicial norms, eminent international jurists will be invited to observe the trials. The accused will be afforded facilities to arrange for their defence and engage counsel of their choice including foreign counsel.

A comprehensive law providing for the constitution of the tribunal, the procedure to be adopted and other necessary materials is expected to be passed this month. The accused are expected to be produced before the tribunal by the end of May 1973.

اس لسٹ میں شامل تمام 195 افراد اعلی سطحی فوجی آفیسرز تھے جبکہ کوئی عام شہری یا بنگلہ دیشی شامل نہیں تھا 1972 میں بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے دوبارہ تحقیقات کے لیے ایک قانون پاس کیا ، ایک بار پھر ہزروں لوگوں کو پکڑ لیا گیا ، 37472 افراد پر الزامات لگاۓ گئے جن میں سے 30623 افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بے قصور قرار دے کر بری کر دیا گیا ، 2848 افراد کا حتمی ٹرائل کیا گیا اور 752 افراد پر جرم ثابت ہوا اور باقی ماندہ کو رہا کر دیا گیا جماعت اسلامی نے دونوں تحقیقاتی کوششوں میں ہاتھ بٹایا اور خود کو 71 جنگ میں لوٹ مار ، عصمت دری اور قتل عام سے خود کو بری کروایا حالیہ بدنام زمانہ عدالتوں میں بھی جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو بے قصور پیش کیا ہے لیکن مخصوص ذہن کے ساتھ تیار کی گئی ان عدالتوں کا مقصد عدل و انصاف کے بجاۓ حسینہ واجد کے سیاسی مخالفین کا قتل کرنا ہے۔

 

حالیہ ظلم و بربریت کی منہ بولتی تصویریں

فیس بک تبصرے

بنگلادیش میں جاری سیاسی قتل عام“ پر 2 تبصرے

  1. جناب ایوب صاحب،
    اگر آپ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غیر مشروط ایمان اور کذاب لعین مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا انکار کرتے ہیں تو اس بات کا جواب دیا جاسکتا ہے.

Leave a Reply