گللک

گللک *
ہمارے بچپن کی ایک خوبصورت روایت !جس کے ذریعے بچت کی عادت پروان چڑھتی ! بہن بھائیوں میں مقابلہ کہ کس نے زیادہ جمع کیے ؟
چھوٹے بھائیوں تک  آتے آتے اس کی جگہ خوبصورت money box نے لے لی ۔ٹیلی فون کی شکل کا یہ بکس جر منی سے ابا جان لائے تھے !اتنا پائیدار کہ بچے بڑے ہوگئے اور وہ جوں کا توں  موجود ..پھر  وہ دوسرےچھوٹے کزنز کو مل گیا جن کے لیے وہ اس وقت کسی قیمتی تحفےسے کم نہ تھا !                                     یہ بچے ایک دفعہ ہمارے گھر آئے ہوئے تھے تو ان کے کچھ سکے ہمارے گھر کے مٹکے میں گر گئے ! انہوں نے جدو جہد کر کے  سکے تو نکال لیے مگر اس  چکر میں مٹکا ٹوٹ گیا۔وہ ہمارے گھر کا آخری مٹکا تھا !

کہتے ہیں کہ ہر دس سال بعد جو نسل اٹھتی ہے وہ اپنے رہن سہن میں پچھلی نسل سے قطعا مختلف ہوتی ہے! رواج، رحجان ، فیشن ، انداز بیان سب کچھ مکمل بدل جاتا ہے  .چنانچہ فرج   کے بعد ڈیپ فریزر کے عام ہونے کے باعث مٹی کے گھڑے، صراحیاں اور دیگر متعلقہ چیزیں متروک ہوتی چلی گئیں اور گللک  کا رواج اور نام بھی ذہن سے محو ہوتا چلا گیا یعنی کسی چیز کے معدوم ہونے کی وجہ اس کا غیر مستعمل ہونا ہی ہے۔

.ان ہی دنوں کا دلچسپ واقعہ ہے کہ پڑوس کا بچہ ہمارے گهر آیا اور اطلاع دی.
”                     باجی !آپ کو پتہ ہے ہمارے ہاں سوزوکی میں کلر ٹی وی آیا ہے ….”

لیکن وہ کلر ٹی وی سے زیادہ کسی اور چیز کے بارے میں پر جوش تھا.جو سوزوکی میں ٹی وی کے ساتھ آئی تهی …” گول سی ہے ، لال رنگ کی !  .امی نے کچن میں رکھی ہے اور ہمیں اسے چهونے کو منع کیا ہے ..”
آپ اس کی خوشی اور ہمارے تجسس کا اندازہ کر سکتے ہیں اور پھر وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر اپنے گهر اس چیز کے دیدار کو لے گیا تو ہمارے قہقہے چوٹ گئے ! جی ہاں وہ مٹکا تھا جس کی حفاظت کی ہدایات کی وجہ سے  ہم نہ جانے کتنی قیمتی چیز سمجھے تھے!
برسوں بعد یہ واقعہ جب ٹیچر ٹریننگ کورس میں بیان کیا تو سب نے لطف اٹھایا اور اس بات کی تائید  کی  بلکہ گفتگو کا حصہ بن گئی کہ جب ایک چیز مشاہدے میں نہ آئے ( نہ دکھائی دے ، نہ ذکر سنائی دے، نہ استعمال ہوتی نظر آئے ) تو اس کے بارے میں تصور کرنا  مشکل ہوتا ہے .یہ ہی وجہ ہے کہ ویڈیو فلم کے آنے سے پہلے لندن کے بچوں کو یہ علم نہیں تھا کہ دودھ گائے سے حاصل کیا جاتا ہے ان کی دانست میں  فیکٹری میں تیار ہوکر بوتلوں میں پیک  ہوتاہے۔

آئیے! گللک پر واپس آتے ہیں  جو اب  money box بن چکا ہے !ہر گھر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے ،خصوصا خواتین کچن یا کسی الماری میں یا فرج کے اوپر کوئی نہ کوئی ڈبہ ضرور رکھتی ہیں جو ریزگاری رکھنے میں کام آتا ہے ۔

انسان مٹی سے وجود میں آیا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس کے لیے مٹی میں بڑی کشش ہے ۔ہر دور کے بچے مٹی میں کھیلنا پسند کرتے ہیں مگر کچھ زمانہ ایسا گزرا جب اس بات پر زور رہا کہ بچوں کو مٹی میں کھیلنے سے روکا جائے کہ جراثیم ہوتے ہیں ۔چنانچہ اس دور کے بچےمٹی کے کھلونے بنا کر ان پر رنگ کرنے کی دلچسپ اور خوش کن سر گر می سے محروم رہے ۔ چیزیں  اپنی اصل کی طرف ضرور لوٹتی ہیں !  نئی نئی تحقیق در اصل پچھلی  ریسرچ یا قدرتی بات کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔ توجناب مٹی کے برتن کا دور پھر واپس آگیا!

کمرشل ازم  کے دور میں اس حوالے سے نئی نئی ڈشز ہانڈی گوشت ، مٹکا گوشت وغیرہ وغیرہ  وجود میں آگئیں ۔ان میں پکے کھانوں کو ایک نئی لذت اور جدت کے ساتھ متعارف کروایا گیا ۔یہ اسٹیٹس سمبل کے طور پر ہمارے طعام گاہوں کا حصہ بن گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر بچوں کا مٹی سے کھیلنا ان کی صحت کے لیے بہترین سر گر می قرار پایا۔ اس کو گوندھ کر کھلونے بنا نا جو پچھلے دور کے بچوں کی ایک عام سر گر می تھی  اب  Earthen Pottery

کے دلکش نام سے متعارف کراوئی گئی۔بچوں کے  fine motor skills developmentکے لیے بہترین  سرگرمی قرار پائی ۔اکثر اسکولوں میں مٹی کے ڈھیر کھڑے کر دیے گئے ۔بڑے بڑے کلب قائم کیے گئے ۔اس پر خصو صی کورسز ، ورکشاپ تر تیب دی گئیں۔ایک قدیم رحجان اور روایت ایک نئے انداز  میں سامنے لائی گئی ۔ یہ کوئی انوکھی تحقیق  نہیں تھی مگر ٹیکنالوجی دور کے ڈیجیٹل بچوں کے لیے واقعی بہترین سر گر می  قرار پائی  اور پھر بہت سے اداروں نے گللک کو   بھی ٹارگٹ کیا۔ اس کے ذریعے  سوشل ورک کو فروغ دیا ۔

آپ سب کی نظر سے وہ پوسٹ  ضرور گزری ہوگی  جس میں ملائیشیا / انڈونیشیا   کے معاشروں کی ایک روایت کا ذکر تھا کہ رمضان کے آغاز میں ہر ماں اپنے بچوں کو مٹی کے گللک دیتی ہے کہ  وہ  اس میں پیسے جمع کر کے  آخیر رمضان میں غریبو ں پر خرچ کریں   اس طرح  بچوں کو فلاح انسانیت کی  ترغیب دی جائے !

اس پوسٹ کو پڑھ کر ہمیں بھی خیال ہوا کہ صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں اچھے رحجان اور روایات کی بھی تو تقلید کی جا سکتی ہے آخر یہ ہماری بھی تو گم گشتہ روایت ہے کیوں نہ اس کو بیدار کیا جائے ! چنانچہ  استقبال رمضان کے پروگرام    گللک پر رنگ کروا کر بچوں کو تحفے میں دینے کی سر گر می رکھی۔دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب درجنوں  کچے مٹی کے گللک شربت کی بوتلوں کے ساتھ  اس جگہ پہنچے جہاں یہ پروگرام منعقد ہونا تھا تو اس کو دیکھ کر منتظمین نے مختلف مفروضے قائم کیے گئے جن  میں سے ایک یہ تھا کہ شاید ان میں شربت پلوایا جائے گا ! ۔۔۔ہا ہا ہا ! لیکن شومئی قسمت کہ اس سر گر می کی گنجائش نہ بچی  ۔۔۔چنانچہ آخر میں موجود بچوں کو یہ گللک  بریفنگ  کے ساتھ دے دیے گئے ! اور باقی بچ جانے والے گللکوں کو رنگ کروا کر محلے ، رشتہ داروں اور اور اقرباء  کے بچوں میں  رمضان کی آمد پر تقسیم کر وادیے ۔ بچوں کے لیے ہی نہیں ان کے سر پرستوں کے لیے بھی ایک اڈونچر رہا اور ایک حسین روایت کو نئی زندگی دینا ہمارے لیے بھی روحانی خوشی کا باعث بنا ۔

دیکھیں اور غور کریں  ! ہمارے اور آپ کے گھروں میں نہ جانے کتنی متروک روایات ہیں جو ہم دوبارہ زندہ کر کے  نوجوان نسل کو مایوسی کی  اس دلدل سے نکال سکتے ہیں جن کا خیال ہے کہ ہم کھوکھلی قوم ہیں !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فر حت طاہر

Courtesy by Muhammad Yousuf Malik

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فیس بک تبصرے

Leave a Reply