تیرے عشق کے یہ دعوے بھی ثبوت چاہتے ہیں

مغرب کو تو شاید مسلمانوں کےجذبات سے کھیلنے کا جنون سوار ہوگیا ہے۔آزادئ اظہار کے نام پہ سوچی سمجھی سازش اور شرانگیزی ۱۱/۹ کے بعد سے پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔یہودیوں کے زیرِاثر میڈیا اہلِ اسلام کو جنگلی،وحشی،جاہل اور دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے پیغمبرِاسلام کے ناموس پہ مسلسل ضرب لگا رہا ہے۔یہ نام نہاد آزادئ رائے کے علمبردار درحقیقت انتہائی متعصبانہ سوچ رکھتے ہیں۔ یہ کفار تو ازل سے سازشیں کرتے آئے ہیں،قرآن کے الفاظ ہیں کہ “یہ شدتِ غضب سے اپنی انگلیاں چبا جاتے ہیں” اسی لئےانہوں نے پتھر برسائے، کانٹے بچھائے،تلواریں اٹھائیں اور اب کبھی وہ “فرقانِ حق” جیسے جعلی نسخے تخلیق کرتے ہیں،کبھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کرتے ہیں،اور کبھی کسی فحش فلم کا سہارا لیتے ہیں۔ مغرب کے یہ ناپاک حملے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ میں کوئی کمی نہیں لاتے مگر ہمارے لئے لمحَہ فکریہ ہیں۔

 

اس موقع پہ ہمارے میڈیا کا کردار انتہائی جانبدارانہ و فرقہ وارانہ رہا۔ یہ پیٹ کے پجاری کسی راجیش کھنا کی موت پہ فوری خصوصی ٹرانسمیشن شروع کرسکتے ہیں، جہاں جہاں فرقہ وارانہ بحثیں نکال کر یہ اسلام کو زک پہنچا سکتے ہیں پہنچاتے ہیں،اور پوری طرح یہودیوں کے آلہ کار ہونے پہ دلالت کرتے ہیں۔

 

ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماوں کی جانب سے اب تک مذمتی بیانات تک جاری نہیں ہوئے، یہی توہین اگر ہمارے کسی لیڈر، رہنما، پیر یا قائدِتحریک کی ہوتی تو ہم اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کیلئے کبھی ٹاک شوز کو سیاسی اکھاڑا بنا کر اس میں گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں، توکبھی پورے شہرِقائد کی دیواروں کو اپنی وفاداری سے رنگ دیتے ہیں۔

 

وہ رسول جس نےہمیں جنتوں کی بشارتیں دیں، جنہوں نے زندگی گزارنےکا طریقہ سکھایا، جس نے رب سے جوڑا، وہ ہستی جس سے خود ربِ ذوالجلال محبت کرتا ہے، کیا وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی کے رہنما کسی کے قائد نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس میں کفار کیسی کیسی سازشیں کرجائیں مگر ہمارے جذبات میں وہ شدّت و حدت کیوں پیدا نہیں ہوتی؟

 

اب تک کوئی ایسی حکمتِ عملی تیار نہیں کی جاسکی کہ جو یورپ کے مفادات پہ ضرب لگائے اور ہمارے عقائد ،نظریات اور روایات پہ مغرب کی نشتر زنی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم و قرآن پہ ان کی ہرزہ سرائی کا راستہ بند کر سکے۔

پورے ملک میں اس وقت امریکہ مخالف مظاہرے جاری ہیں۔۔۔

اے محبت کی راہوں سے گزرنے والوں محبت کی راہیں تو اطاعت سے ہو کر گزرتی ہیں، محبتوں کے تقاضے کیسے پورے کرنے ہیں ہمیں سمجھ ہی نہ آیا!!؟

سمجھنا ہے تو ذرا کچھ لمحوں کیلئے ہی ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر تو دیکھیں۔۔۔۔۔

 

یہ کیسا منظرنامہ اس وقت نگاہوں کے سامنے ابھر رہا ہے؟ بدر کا میدان ہے اور 2 کمسن بچے معاذ اور معوذ رضی اللہ تعالی عنہ ابوجہل کی شناخت پوچھتے پھر رہے ہیں اور جیسے ہی انہیں اس ملعون کا پتہ معلوم ہوا وہ دونوں بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور لمحوں میں اس کو قتل کر دیا کہ وہ ان کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتا تھا۔

 

دوسری تصویر میدان احد کی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی ذرا سی کوتاہی کی وجہ سے جنگ کا منظر مسلمانوں کے خلاف ہوتا نظر آرہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہیں میدان میں گردش کرنے لگی ہیں، مگر یہ کیا؟ ایک عورت زخمیوں کو پانی پلاتے پلاتے عین میدان جہاد کی جانب دوڑتی چلی آرہی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ڈھال بن گئ ہیں۔عورت پہ جہاد فرض نہیں تھا۔۔۔۔گھر میں رہنے اور نسل کی تربیت و تیاری کیلئے بنایا گیا، عورت کا اصل مقام ایک صحابیہ رض سے زیادہ بہتر اور کون جان سکتا تھا؟ مگر جب آنچ نبیﷺ  کے مقصد و مشن پہ آئے تو ایمان کے تقاضے کسی کو بتانے یا کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔۔کسی دھکے کسی فتوے کا انتظار نہیں کیا، دیوانہ وار ذات اقدس کے دفاع کے لئے بھاگتی ہوئی آئیں اور مردوں پہ سبقت لے گئیں۔

 

پھر ایک جانب غازی علم دین کھڑے ہیں،سوچنا، سمجھنا، منطقیں، دلیلیں کسی کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پہ اپنی جان نچھاور کردی۔

 

پھر ڈنمارک نے گستاخانہ خاکے بنا کر مسلمانوں کی جرات کو للکارا اور ایک لمحہ محسوس ہوا کہ یہ امت 58 قبروں میں پڑے ڈیڑھ ارب مُردوں پہ مشتمل ہے مگر اچانک ہی اس بے جان لاشے میں کچھ جان محسوس ہوئی اورایک نوجوان عامر چیمہ شہید جو اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا اور عمر بھر کی کمائی تھا، اس  نے اپنی جوانی اپنا مستقبل سب قربان کردیا۔

 

وہ جو موت سے خوف زدہ ،بدن کے اسیر اور زندگی کے حریص ہیں وہ تو کبھی اس جذبے کو نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔جو اس طرح غیرت،عزت اور حرمت پہ کٹ مرتے ہیں وہ یقیناَ ان کو مجنوں اور دیوانہ ہی جانتے ہیں اور ان کی نظر میں وہ ہوشمندوں کی دنیا سے بہت دور ہیں کہ جن کے جذبات ِایمانی کو ابھی تک روشن خیالی کی دیمک نے نہیں چاٹا۔

 

وہ بندشیں کونسی ہیں جو آج ہم نے محبتوں سے لاد لی ہیں؟ ہم آج منکرِرسالت نہیں مگر کیا ہمارا طرزِعمل توہینِ رسالت پہ مبنی نہیں؟ وہ نبی جو رات رات بھر امت کیئلے زاروقطار روتا تھا، ہمیں وہ اپنی مصروف زندگیوں میں کس وقت یاد آیا؟ ہماری راتوں کی نیند کسی ایک رات بھی ان کی فکرومحبت میں حرام ہوئی؟ ہم نے امربالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ چھوڑ دیا جو امت کا بنیادی و خصوصی وصف تھا۔ ہمارے پاس آج تمام فقہ حرام (سود،انشورنس،بےپردگی اور رشوت) کوحلال کرنے کیلئے ہے۔ بچوں کا ایک دن پڑھائی سے ضائع ہوجائے تو “مومنہ ماں”کو اس کے مستقبل کی فکر شروع ہوجاتی ہے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں بچوں کو بتانا بوجھ محسوس ہوتا ہے۔

 

ہمارے سامنے قرآن کو جلا دیا گیا، پھاڑا گیا، ہم میں سے کتنے روئے؟ کتنے تڑپے؟ کتنوں نے اس قرآن سے محبت جتانے کیلئے اسے حفظ کرنایا اس پہ عمل کرنا شروع کردیا؟

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیتِ امت متحد ہوجائیں اور ہر طرح کی مذہبی فرقہ واریت اور نسلی امتیاز سے بالاتر ہوکر اپنا ظاہر و باطن، کردار سب کچھ محسنِ انسانیت کے اسوہ میں ڈھال دیں۔اور یہودیوں کی تمام مصنوعات کا بھرپور بائکاٹ کرنے کی کوشش کریں۔

کیا پیپسی کے بغیر ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوگا؟

سنسلک اور پینٹین کے بغیر بال اگنے بند ہو جائیں گے؟

ہمیں اپنے باطن میں چھپے داغ نظر نہیں آتے،مگر کپڑوں سے داغ نکالنے کیلئے ہم ایریل اور سرف ایکسل سے کم سمجھوتا کرنے پہ تیار نہیں؟
کیا والز کے بغیر ہمارے کلیجوں میں ٹھنڈک نہیں پہنچےگی؟

کیا ان کے استعمال کے بغیر ہماری سانسوں یا زندگیوں میں کوئی کمی آجائے گی؟ ہم اپنا جائزہ خود لینے والے بنیں کہ کہاں ہےہمارا وہ ایمان اور عشق کے دعوے کہ  جس کے بل پہ ہم قیامت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے امیدوار ہیں۔

 

اگر ہم واقعی عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور گستاخی کا بھرپور جواب بھی دینا چاہتے ہیں تویہ محض باتوں کا تو وقت نہیں اورعمل کےلئے زندگی میں کچھ لذتوں کی قربانی تو دینی ہی پڑےگی کیونکہ... “تیرے عشق کے یہ دعوے بھی ثبوت چاہتے ہیں!!”

فیس بک تبصرے

تیرے عشق کے یہ دعوے بھی ثبوت چاہتے ہیں“ پر 4 تبصرے

  1. ماشاء اللہ بہت ہی اعلیٰ آرٹیکل ہے ، کاش ہمارے ملک کے لیڈرز کو بھی شرم آ جائے ، جو ملک میرے محمد (ص) کے صدقے ملا ہے ۔

  2. اچھا لکھا ہے آپ نے ۔ آجکل ذرائع ابلاغ کا کام انسانیت کی خدمت کی بجائے مال بنانا ہے اور اس کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ ہندوستان میں صرف 2 اخبار تھے مسلمانوں کے ۔ پیسہ اخبار دہلی اور زمیندار اخبار گجرات (پنجاب) ۔ ان کا کردار پاکستان بنانے میں بہت اہم ثابت ہوا ۔ ان کے مالکان دولتمند نہ تھے

  3. Very nice article, but I suggest that with the famous incidents if you also give some references that will be nice and make it more better.

  4. جزاک اللہ آپ سب کی آراء اور حوصلہ افزائی کا

Leave a Reply