لبیک اللھم لبیک

میں بھی دیوانہ وار کہہ رہی ہوں “لبیک اللھم لبیک” حاضری کا شعور نہ ہوتے ہوئے بھی زباں پر ایک ہی ورد ہے حاضری کا ورد، جو نہ میرے شعو ر کا حصہ ہے نہ لاشعور کا. برسہا برس سے یہ لبیک کی آوازیں ہیں اس موسم میں اندر سے بھی اور باہر سے بھی. آج بھی عادتا ً میری زبان اسی تلبیہ میں مصروف تھی لبیک اللھم لبیک کہ معاً یکدم میرے اندر کچھ ٹوٹا اور مجھے محسوس ہوا کہ میری اس صدا کے جواب میں آسمان سے ندا آئی ہے! کیسی ندا ہے یہ اور کیسا جواب ہے؟ جس نے مجھے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا کہیں کا بھی نہ چھوڑا!

لا  لبیک۔۔۔۔۔ ولا سعدیک ۔۔۔۔۔ نہیں تم حا ضر نہیں  ۔۔۔۔ نہیں تم مستعد نہیں ۔۔۔۔ یہ حاضری مطلوب نہیں ۔۔۔یہ وظیفہ مطلوب نہیں

زبان کی مشق کس کھاتے میں جائے گی جب حضورئی قلب ہی نہیں  جب لفظ قلب سے نہیں محض‌ زبان سے ادا ہو رہے ہیں، جب قلب و زبان کے وظیفے جدا جدا ہو جائیں اور لفظ دل کے تاروں کو جھنجھوڑے بغیر محض مٹھی میں دبی ریت کی طرح ہتھیلی سے پھسل جائیں تب۔۔۔۔ تم ہی جانو کہ “مبرور” کیا ہے اور “مشکور” کیا؟ قدر کی جائے تو کس چیز کی؟ لبیک کہتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی خیال نہ آیا مجھے کہ صور پھونکا جائے گا جب حقیقی حاضری ہوگی. محض‌زبان کا ورد نہ ہو گا جبکہ روح جسم سے جدا کر کے سچ مچ حاضر کر دی جائے گی. حقیقی حاضری کے ان لمحوں میں میرا شمار مقربیں میں ہوگا؟ اسکے قرب کی خاطر کیا قربان کر سکی میں آج تک؟

آج تو مقرب وہ ہونگے جنہوں نے اپنے نفس کے مرغوبات کی قربانی دی ہوگی،
جنہوں نے اپنی جزوقتی لذتوں اور مسرتوں کی قربانی دی ہوگی، جنہوں نے حریت خیال اور آزادی عمل کی قربانی دی ہوگی، جو جانتے تھے “بر” کا مفہوم کہ کسی “بر” تک نہیں پہنچ سکتے حتی تنفقون مما تحبون کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔ مماتحبون کے سلسلے بڑے دراز تھے میرے! دل کیا تھا خواہشوں کا قبرستان تھا. ہر محبت اسکی محبت پر غالب آجاتی، ہر خواہش کمزوری بن کر اعصاب پر سوار ہو جاتی، جتنا جتنا پورا کیا ان خواہشوں کو انکا سلسلہ اتنا ہی دراز ہوتا چلا گیا. کہا گیا تھا، بڑا واضح کہا گیا تھا بغیر کسی ابہام کے واشگاف لفظوں میں کہا گیا تھا” اشد حبا للہ…. شدت درکار ہے محبت میں…. بس تعلق میں سے ایک تعلق نہ ہو…. محبتوں میں سے ایک محبت نہ ہو…. چاہتوں میں سے ایک چاہت نہ ہو…. کبھی کبھی کی توجہ نہ ہو ‘مسلسل دھیان ‘ مطلوب تھا… آہ کتنے بت تھے کتنے صنم! جو سنگ راہ بنے رہے. ان بتوں پر ضرب لگانے کا حوصلہ ہی نہ ہوا، یہ قربانی پیش ہی نہ کر سکی، کیسی کیسی قربانیوں کی داستانیں مجھے انداز بدل بدل کر سنائی گئیں، میں لفظوں سے بڑھ کر مفہوم کی کھڑکی کھول ہی نہ سکی، لفظوں کے مقفل دروازوں کے پار ہی کھڑی رہی، ذرا سی بھی کوشش نہ کی کہ  مفہوم کے ان دروازوں کو کھٹکھٹاؤں، معنی کے اس جہان دراز میں داخل ہونے کی  سعی کروں. وہ دروازے تو میری توجہ کے ایک لمس سے چوپٹ کھل جاتے لیکن کار جہاں اتنا دراز تھا کہ “کہتی ہی رہی میعا انتظار کر”.

کتنی بار پڑھا میں نے کہ حضرت نوح کی جدوجہد اور ایثار و وفا کے اس پیکر کی قربانی کو… بیوی بیٹا قربان کر دئے مگر پائے ایمان میں لغزش نہ آئی، داستان یوسف بھی چہار سو بکھری ہوئی تھی ان صفحات میں. آزادی کے بدلے مانگ کر غلامی لی اس مرد مومن مرد صالح نے. پاکیزگی کردار کی گواہی اس ناپاک معاشرے میں الگ ہو کر عملی طور پر پیش کی. حقیقتاًً یہ تھی حضوری قلب۔۔۔۔ یہ تھا لبیک کا حقیقی تصور۔۔۔۔ اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔ وہ تو نہ نبی تھے نہ پیغمبر. سب جھوٹے ساحر تھے جو فرعون کا اقبال بلند کرنے کے آرزومند تھے. لمحہ بھر میں انکا قلب نور سے بھر کر “حضوری” کی لذت پا گیا. سلام اس زندہ اور بیدار ایمان پر جو لمحہ بھر میں قلب میں یوں جا گزیں ہوا کہ ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹنا گوارا… سولی پہ چڑھنا گوارا… لیکن لبیک کی حقیقت کو پاگئے. سرسبز و شاداب ایمان کے ساتھ رب کے حضور حاضر ہو گئے… ہاں وہ بھی جو عمر کی پختگی کو نہ پہنچے تھے، چند نوجوان ہی تھے. کتنا زندہ ایمان نصیب ہوا تھا انکو جنکی خود قرآن نے تعریف کی کہ تعفن زدہ معاشرے کا حصہ بننے کے بجائے غار میں پناہ لی کہ اک طرف لذت دنیا ہے اور اک طرف ایمان کی بقا… ان کمسن نوجوانوں کو ایمان کی لذت یہاں سے میسر آگئی کہ سب کچھ قربان کردیا! کون بھلا اس عمر کی رنگینیاں یوں قربان کر سکتا ہے؟ تھپک تھپک کر سلا دیئے گئے پیار سے کروٹیں دلائی گئیں  سورج کو بھی حکم کردیا گیا کہ دیکھ خیال رکھنا ہے، براہ راست کرنیں نقصان نہ پہنچا دیں… کبھی دائیں سے گزرجانا کبھی بائیں سے…. اور پھر یہ نوجوان رہتی دنیا تک مثال بنا دیئے  گئے کہ اسکی جناب میں “سعی” یونہی “مشکور” ہوا کرتی ہے…
اور اس قربانی کے موسم میں کون بھول سکتا ہے ابراہیم کی قربانیاں اور فداکاریاں. صنم کدے میں آنکھ کھولی، باپ کو صنم تراشتے دیکھا اور ببانگ دہل کہہ دیا اننی براءُ مما تعبدون… اور اس براءت کا صلہ کیا ملا؟ انی جاعلک للناس اماماً (البقرۃ)
کتنا عظیم ہے یہ مرتبہ جسکو مل گیا کہ ”  قَدۡ كَانَتۡ لَـكُمۡ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ فِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ “(المُمتَحنَة)
رہتی دنیا تک وفاداری امر کر دی گئی نمونہ بنا دیا گیا اس وفا کے پیکر کو جس نے قربانی کی وہ مثال قائم کی جب تک دنیا قائم ہے تب تک اسکی یاد تازہ کی جاتی رہے گی….
اور مدینے کی وہ گلیاں جس پاک خوشبو میں رچی بسی ہیں وہاں کی خاک کے ذرے ذرے پر فدائیت کی لازوال داستانیں رقم ہیں… بدر و آحد و حنین تو استعارے ہیں لبیک اللھم لبیک کے.

رب البیت کے حضور حاضری دیتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی نہ ٹھٹکی کہ گناہوں سے بوجھل اس وجود پر اگر اس نے نظر نہ ڈالی تو کیا ہوگا اور واپس کر دیا بلا کر بھی تو کیا ہوگا؟ زیارت کی قبولیت تو اسمیں تھی کہ خالص توبہ کر کے ہر گناہ  سے تعلق توڑ لیا جاتا… حقوق کی گٹھڑی خالی کر دی جاتی، حق داروں کو انکے حق دیکر اور دل کا علاقہ منقطع کر دیا جاتا ماسوائے اللہ سے. دل کا رخ بھی اسی طرف کر لیا ہوتا جسطرف سواری کا رخ ہوتا. اللہ کے گھر کی زیارت تو روزمرہ کا لباس اتار کر دو بے سلی چادروں میں لپٹے بغیر نہیں ہوتی۔ اگر اللہ کے دیدار کی آرزو ہے تو یہ مادہ پرستانہ لباس اتار کر، دیان کا لباس اتار کر سفر آخرت کا لباس زیب تن کرنا ہو گا…
آہ میقات قیامت تک کے سفر کا احوال، قبر کی ویرانی، سوال جواب، اندیشے خطرات… مگر… مگر… رحمٰں کے گھر پہنچ جانے کے بعد اسکے ضیوف میں داخل ہونے کے بعد اسکےجوار میں بسیرا کرلینے کے بعد رجا کو خوف پر غالب رہنا چاہیئے… اپنے اعمال نہیں اسکے کرم کی امید، اسکے مقدس گھر کا شرف و عظمت، آنے والے کا اکرام اور مانگنے والے کی حرمت، لبیک کہتے ہوئے “البیت” کا دیدار کرتے ہوئے اگر “رب البیت ” مل جائے تب حقیقی حاضری ہے اورسلام اور”اور رب کے انعامات”…

فیس بک تبصرے

لبیک اللھم لبیک“ ایک تبصرہ

  1. Jazakillah o khair sis. You made us realize that to visit Kaaba or to perform haj or umrah should not be our aim. We should enhance our objective and shall be prepared to meet our Khaliq, Allah SWT. Who sent us in this world with some responsibilities and gave us power of action within defined limits. It’s now upto us how we use the power and do we really remain in limit? May Allah SWT gives us courage to be on straight path and make our lingual and inner tasbih same. Ameen.

Leave a Reply