حج

الَحجّ اَشًھرُ، مَعُلُومَات۔
حج کے مہینے مقرر ہیں ۔ اس لئے جو شخص ان میں حج کرے وہ اپنی بیوی سے میل ملاک کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے۔ تم جو نیکی کروگے اس سے اللہ تعالیٰ با خبر ہے اوراپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو سب سے بہتر توشہ اللہ کا ذکر ہے۔ اور اے عقلمندوں مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔  (سورۃ البقرۃ  آیات 199 )

’’حج‘‘ اللہ کے گھر اس کے دربار میں حاضری دینے، اسکی گلی میں چکر کاٹنے، اس درودیوار سے چمٹنے اور اسکی قربت کی لذت پانے کا نام ہے۔ وہ رب جو ہمیں سب سے بڑھ کر چاہنے والا ہے۔ جس کی محبت اور قربت ہی ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔

حج سر تاپا محبت سے عبارت ہے۔ یہ سفر حج محبت کا سفر، عبادت کا سفر ہے، وفا کے محبت کا سفر ہے. اگر ہم ارکان اسلام ہر غور کریں تو ہر ہر عمل میں اولیت ’’محبت‘‘ و قرب ہے۔
دوران نماز سجدہ کس لئے ……… رب سے قربت حاصل ہوجاتے۔
زکوٰۃ مال کس لئے ……… اللہ کی محبت میں اس کی رضا کے لئے سب کچھ خرچ کر دینا۔
روزہ کس لئے ……… روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکا بدلہ دونگا۔
غرض احکام حرام و حلال کے ہوں، اخلاق و معاملات کے ہوں، یا ہجرت و جہاد کے ہوں ان سب میں ’’عشق الہیٰ‘‘ لازمی امر ہے۔ قرآنی و اسلامی تعلیمات اور تصوّف کی رُو سے دنیا میں جس طرح انسانی روح بغیرانسانی جسم کے نہیں پائی جاتی اور اس کے روحانی افعال کا اعتبار بغیر جسمانی افعال کے نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح دنیا میں خاص خاص افعال یا جسمانی حرکات کے بغیر روح کا ارتقاء اور اسکی تکمیل نہیں ہوئی۔ جسم اور روح لازم و ملزوم ہیں۔
اسی طرح ظاہر اور باطن بھی لازم وملزوم ہیں۔ دونوں کی اصلاح و درستی ضروری ہے۔ نہ ظاہر باطن کے اور نہ باطن بغیر ظاہر کے درست ہوگا. ظاہری افعال کا اثر باطن پر پڑتا ہے اور یہ ظاہری عمل باطن کو متاثر کرتا ہے۔

ماہر نفسیات ولیم جیمس:
اگر تم باطن میں کوئی جذبہ یا کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کی ظاہری مورت پیدا کرلو، تمہارا باطن متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی کو نیت کی درستگی کہا گیا ہے۔  افعال + نیت    نظریہ
جسم+روح         عقیدہ اور عمل
دین کی حفاظت اور غلبہ کے لئے جس محبت، حرکت اور قربانی کی ضرورت ہے، حج اسکی جامع شکل ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں۔ حق تعالیٰ کی گھر کی زیارت کا شوق عاشق کے قلب میں بھڑک اٹھتا ہے۔ اگر تو اس سے لذت نہیں ہوتا تو افسوس ہے۔ جس قلب میں ’’شاہ خواہاں‘‘ کا عشق نہیں وہ مردہ ہے۔ جتنا حج کے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی محبت میں، اسکے رنگ میں رنگا جائے گا۔ اللہ سے اسکی محبت کی طلب کی جستجو ہوگی، اسکے قرب کی آرزو، شوق ہوگا، اتنا ہی حج کی آغوش سے اسطرح گناہوں سے پاک صاف ہو کر لوٹوگے جیسے ماں کے پیٹ کی آغوش سے نکلے ہو۔

حج کی فرضیت کا حکم آتے ہی آپ ؐ نے اس کا اعلان فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا:

اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے اسلئے حج کرو۔ اقرع بن خابس کھڑے ہوگئے اور پوچھا کیا ہر سال؟ آپ ؐ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے اپنا سول تین بار دہرایا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا اگرمیں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا، پھر تم اس پر عمل نہ کر پاتے۔

پھر آپ نے مزید فرمایا!

جب تک میں خود تم سے کچھ نہ کہوں اور کوئی حکم نہ دو، تم بھی مجھ سے نہ پوچھا کرو. تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سے سوال پوچھنے اور یہ ان کے ارشادات کے بارے میں اختلافات کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے۔ اس لئے جب میں تم کو کسی کام کا حکم دو تو جتنا بس میں ہو اتنا کرو اور جب کسی کام کو منع کردوں تو اسے چھوڑ دو۔

پھر فرمایا:

حج عمر میں صرف ایک بار فرض ہے جو اس سے زائد کرے وہ نقل ہے ایک اور جگہ آپؐ نے حج کی ترغیب دیتے ہوئے  ہدایت کی ۔۔۔حج  کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ مسلم احمد

اور فرمایا ۔۔۔

جو شخص صرف اللہ کے لئے حج کرے گا اور حج کے درمیان نہ شہوت میں پڑے گا، نہ اللہ ے احکام کی خلاف ورزیاں کرے گا۔ وہ اسطرح گناہوں سے پاک ہو کر لوٹے گا گویا ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہی۔ (سنائی)

جو حج کا ارادہ کرلے وہ جلدی کرلے (………ٹال مٹول میں دیر نہ لگائی) ابودائود
ایک آدمی نے پوچھا:  حج کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بال پریشان ہوں جو فوجیوں نہ لگی ہو۔
ایک اور شخص کھڑا ہوا: اللہ کے رسول کو نسا حج افضل ہے۔
فرمایا: زور زور سے لبیک پکارنا ار قربانی کا خون بہانا (ابن صاحبہ)
ایک شخص نے پوچھا۔
یا رسول اللہ حج کب واجب ہوتا ہے۔
فرمایا: جب زاد راہ اور راحلہ سیر ہوجائے یعنی سفر کا خرچ اور اپنے اہل و عیال کیلئے کھانے کا انتظام۔
ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا اللہ کے رسول ؐ آپ ہمیں کہاں سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا اہل مدینہ ذوالحکیفہ سے احرام باندھیں گے۔ (بخاری)
ابورزین عقیلی ؓ نے پوچھا ’’میرا باپ بوڑھا ہوچکا ہے، حج اور عمرے کی طاقت نہیں رکھتا۔ نہ سواری پر سوار ہوسکتا ہے؟
فرمایا: تو اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کر (ترمذی ابو دائود)
ایک آدمی نے کہا: میری بہن نے حج کی نذر مائی تھی مگر وہ مرچکی ہے۔
آپ ؐنے پوچھا: اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتا؟
اس نے کہا: ہاں
پھر آپؐ نے فرمایا: اللہ کے قرض کو ادا کرو، وہ ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے۔ غازی مسلم
ایک آدمی نے اپنی ماں کے بارے میں پوچھا: وہ بہت بوڑھی ہے۔ سوار کیا جائے تو برداشت نہ کرسکے گی۔ حج نہ کر پائے گی۔
فرمایا: اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اُس کو ادا کرتا۔ اس نے کہا۔ ہاں ضرور۔ فرمایا آپؐ نے پھر تو اپنی ماں کی طرف سے حج کر۔

ان تمام اھادیث سے حج کی فرصیت وااہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حج کا ہر ہر عمل، بیت اللہ کا پتھر، پتھر ور چپہ چپہ محبت کا مکتب ہے۔ حج کے سفر پر جانے والے ہر حاجی کے لئے ’’احرام‘‘ کا لباس لازم ہے۔ ’’احرام‘‘ کی سفید چادریں اس دن کی یاد دلاتی ہیں جب انسان کا تن بے جان کفن میں لپٹا جائے گا اور وہ بے حس و حرکت پڑا ہوگا۔ اب اس کا ساتھ دینے والے نہ دوست، احباب ہونگے اور نہ اہل و عیال صرف ایمان و عمل صالح ہی اس کے ساتھ جائیں گے۔ موت تو اچانک ہی آئے گی اور صبر انسانی اعمال کا صندوق ہوگا۔ پھر احرام کے لباس کے ساتھ ہی ’’لبیک‘‘ کی صدا۔ محبت کا مکتب اوّلین۔
محبت جتنی زیادہ ہوگی۔۔۔۔ خود سپردگی بھی اتنی ہی ہوگی۔
محبت جتنی خالص ہوگی۔۔ اتنی ہی سڑک سے پاک ہوگی لبیک کی صدا۔
حج کا آغاز ہی نہیں بلکہ اس میں محبت کی ساری لوح اور جوہر بھی کھینچ کر جمع ہوگیا ہے۔ مسلسل لبیک کی صدا۔ یہ پکار کر کہہ رہی ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے حضور حاضر کرو۔ اپنا سب کچھ اللہ کے سامنے کردو۔ کچھ بھی امن سے بچا کر نہ رکھو۔۔۔۔
چہرہ کا رخ بھی ہو۔ دل کا بھی اور زندگی جسم و جان کا بھی کوئی بھی اس میں شریک نہ ہو۔ مرکز نظر۔ مقصود سعی وفیہ ، قبلہ زندگی صرف اللہ کا ہوجائے۔ چہرہ کا رخ بھی اللہ کی جانب ، دل کا رخ بھی اور زندگی کا رخ بھی۔ لبیک کی تصویر و تفسیر دیکھنا ہو تو حضرت ابراہیم کی جانب دیکھیں ان کو اپنا رول ماڈل بناتے ہوئے ان کی طرح حنیف بننے کی آرزو، جستجو میں لگ جائیں۔ سیدنا ابراہیم ؑ اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالص اللہ ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔
بَل مکۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین:۔انھوں نے ہر ڈوبنے والی چیز فنا ہوجانے والی چیز چاند،ستاروں،سورج کی چمک وکشش سب کوچھوڑ کر صرف اُس رُخ کو اپنا لیاہے۔ اسی ذات کو اپنی طلب وسعی کا مرکز چن لیا اور بغیر کسی آمیزش کے بے ساختہ پکاراُٹھے تھے کہ ”  اتحاوقھت وجھی۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم نے پنا سب کچھ، اپنی جان، اپنامال، اپنے مراسم عبادات، قربانیاں غرض اللہ کی رضا جوئی اور خود سپرد گی اللہ کے علاوہ اور کسی کے دربارمیں نہیں لگایا۔ آگ میں کودپڑے۔ باپ سے ترک تعلق کیا۔ طن چھوڑا۔ دشت وصحراکی خاک چھانی۔ محبوب بیوی اور شیرخوار بچے کو یکہ وتنہا وادی غیر ذی ذرع میں اللہ کے گھر کے قریب لا بسایا۔ اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی دیواریں کھڑی کیں، مشرق ومغرب کو اسکی زیارت کے لئے پکارا۔ اس مرکز کو طواف واعتکاف اور رکوع وسجود کا مرکز بنایا اورجب رب کا حکم آیا تو فوری تعمیل کی اور اپنے اکلوتے۔ محبوب نورنظر کے گلے پر چھری رکھ کر قربانی کی اعلیٰ ترین مثال بھی قائم کی۔
اذ قال لہ ربہ اسلم۔۔۔۔۔۔
حج کا پورا سفر حضرت ابراھیم کی ان قربانیوں کی یاد دلاتاہے۔ اللہ کا قرب یاد دلاتاہے۔ جتنا اللہ سے جڑ جائیں گے، اللہ سے چمٹ جائیں گے، اسی طرح اللہ کی رسی کو تھام لیں گے، جیسا کہ تھامنے کا حق ہے تو صراط مستقیم پالیں گے۔
لبیک کی صدا کے ساتھ حمد وشکر کا نغمہ جڑا ہواہے اور حمد شکر ہی سے محبت وخود سپرد گی پیداہوتی ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف پیدا ہوتاہے۔ ہر قسم کے شیطانی وسوسوں سے نجات حاصل ہوتی ہے، دوران سفر اللہ رب العزت نگہبان ومددگار ہوتاہے۔ لبیک کی پکار اللہ کی اس پکارکے جواب میں ہے۔
واذن ہی الناس بالحج۔الحض۶۲۔۷۲  اورلوگوں میں حج کا اعلان کردو توبہ استغفار،تسبیح وتہسیل وندامت وشوق۔

رسول اکرم ؐ جب بلند آواز سے لبیک کی صدا لگاتے تو ہر طرف سے اس صدائےولولہ انگیز کی بازگشت کی آواز آتی اور تمام دشت وجبل گونچ اٹھتے۔
حضرت انس، حضرت ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھے تھے اور فرماتے ہیں کہ ہمارے چاروں طرف لوگ چلا چلا کر لبیک کہہ رہے تھے۔ کیونکہ آپ نے فرمان الٰہی کے مطابق صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ زور زور سے لبیک کہیں۔
آپ ؐ نے فرمایا:۔جبرئیل میرے پاس آتے اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے صحابہ کجو حکم دو کہ وہ احرام باندھتے ہوئے، یا لبیک کہتے ہوئے اپنی آوازیں بلند کریں (ترمذی۔ابودائود،نسائی ومالک)
نیز فرمایا: مسلمان جب لبیک کہتاہے، تو اس کے دائیں بائیں پتھر اور درخت مٹی کے ڈھیلے سب لبیک کہتے ہیں، یہاں تک کہ ادھر کی ساری اور ادھر کی ساری زمین(ترمذی ،ابن ماجہ)
وادی مکہ میں صرف وہ زم زم ہی رواں نہیں جو 4 ہزارسال سے پیاسوں کی پیاس بجھا رہاہے اور بجھاتا چلے جائے گا بلکہ اسی مرکز سے ہدایت وبرکت کا وہ زم زم بھی جاری ہے جس نے رہتی دنیا تک سارے جہانوں کی فکر وعمل، قلوب، ارواح کی سیرابی کا سامان کیا۔ حرم مامون ومن دخلہ کان امنا۔بلد امین۔
وہ گھر، جس کو حضرت ابراھیم نے تعمیرکیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو ایسا امن کا مسکن بنایا کہ جو اس میں داخل ہوجاتاہے محفوظ ومامون ہوجاتاہے۔ یہی گھر اس ہدایت کا مرکز بھی ہے جسمیں انسان اگر پورے کے پورے داخل ہوجائیں تو ان کے قلب وروح فکر وسوچ، اخلاق وکردار، شخصی زندگی اور حیات اجتماعی سب محفوظ ومامون ہوجاتے ہیں۔ انسان اگر کہیں خوف ویزن، ظلم وفساد اور دنیا وآخرت کے بگاڑ وتباہی سے امن حاصل کرسکتاہے تو اس بنائے ہدایت میں داخل ہوکر جو عالم مصنوی میں خانہ کعبہ ہے۔
حصل اللہ الکعبۃ اللہ الحرام قیام۔۔۔۔۔۔۔

اس گھر کے جتنے طواف کیئے جائیں کم ہیں۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت سب عبادات دنیا کے ہرکونے میں ہوسکتیں ہیں مگر طواف کی نعمت تو کہیں اور میسر نہیں۔ اگر طواف کی ہمت نہ ہوتو اس گھر کو جی بھر کر دیکھنا بھی عبادت ہے۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق ومحبت ہے، وہ کسی اور عبادت میں نہیں، جسم طواف میں مصرف ہواور روح میں تعظیم، خوف، عشق ومحبت کے جذبات ہوں۔

طواف رب کے گھر میں اسکے گرد چکر کاٹتے ہوئے اللہ کو دل کی سعی وجہد کا مرکز بنانا پورے دین میں 2 ہی باتیں اللہ کو مومن سے مطلوب ہیں اور سفر حج میں انہی دونوں باتوں اور نعمتوں کو پانے کا ذریعہ ہے، موقع ہے۔
ایک یہ کہ اللہ ہی مقصود ہو، مرکز قلب وزندگی ہو۔ زندگی کا ہرلمحہ، ہرکام صرف رب کی خوشنودی ومرضی کے مطابق ہو۔
ومن الناس من سری۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ مسابقت، سعی وجیہ، بھاگ دوڑ، خضر والی اللہ  سارعو الی مغفرہ۔۔۔

حج کا سفر پورے کا پورا حرکت اور سعی کا سفر ہے ۔گھر سے نکلنا، سفرکرنا، طواف کرنا صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا، مکہ سے نکل کر منیٰ میں ڈیرے ڈالدینا، اگلے ہی دن وہاں سے کوچ کرجانا، عرفات کے میدان میں جمع ہوجانا، پھرسورج غروب ہوتے ہی وہاں سے کوچ کرجانا، عرفات کے میدان میں جمع ہوجانا، پھر سورج غروب ہوتے ہی وہاں سے بھی چل دینا، پھر رات کو مزدلفہ میں قیام کرنا اور سورج طلوع ہوتے ہی منیٰ کی طرف روانہ ہوجانا، روز جاکر کنکریاں مارنا، پھر مکہ جاکر طواف کرنا۔ غرض سفر حج بندگی رب کی عملی تصویر ہے۔ بندگی رب کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ اخلاص کے ساتھ ارادہ ، اپنی تمام محبت واستطاعت کے ساتھ سعی وجہد۔ اللہ کے ہر حکم پر۔ ہر پکار پر لبیک کہتے ہوئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کھڑے ہوجانا۔ جوکچھ بھی میسر ہو جس حالت میں بھی ہوں تعمیل حکم کے لئے نکل پڑنا، اپنی طرف سے کوشش اورجدوجہد میں کوئی کسر نہ چھوڑنا وسائل زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا اور تدبیر بہتر سے بہتر اختیار کرنا، مگر بھروسہ اور نظر سب پر نہیں بلکہ رب پر کرنا۔ صرف اور صرف رب کی خاطر سب اعمال کرنا۔ حج کے سارے اعمال ومناسک سے انھی صفات کو راسخ کرنے کا کام لینا ہے۔ اس گھر کی آیات میں تفویض وتوکل کا ایک روشن پیغام اس سعی کے اندر بھی ہے جو صفا اور مروہ کے درمیان کی جاتی ہے۔

یہ یادگار ہے اس بھاگ دوڑکی جو حضرت اسماعیل کو پیاس سے جاں بلب دیکھ کر حضرت ہاجرہ نے صفا اور مروہ کے درمیان کی۔ کبھی صفا پرچڑھتیں، کبھی بھاگ کرجاتیں اور مروہ پر چڑھتیں، سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ کو ہم سے ارادہ کے ساتھ ساتھ سعی بھی مطلوب، عمل اور کوشش بھی مطلوب ہے اور اسی پر وہ نتائج مرتب فرماتاہے۔

سعی ہم کو یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان اپنی بندگی کو اللہ کے لیے خالص کرلے اور فی المقدر جذبے، تڑپ اور لگن کے ساتھ اپنی تمام تر کوششوں کو رب کی راہ میں لگادے تو اللہ اسکی ان کو ششوں کا قدردان ہے۔ وہ حضرت حاجرہ کو ان کی اس سعی میں پتھریلی وادی میں ایک شیر خوار بچے کی ایڑیوں کے کھجانہ ختم ہونے والا پانی بچہ جاری کرسکتاہے ۔وہ ذات باری تعالیٰ،وہ حیّ وقیوم آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا بلاشرک ،غیب مالک ہی،اسکی کرسی اقتدار سب کو سمیٹے ہوئے ہے وہ جب چاہے موت کو زندگی سی،زندگی کو موت سی،اندھیروں کو روشنی سے اور روشنی کو اندھیروں سی،عزت کو ذلت سے اور ذلت کو عزت سے بدل دینے ۔۔۔۔در ہی۔
جو رب کے ساتھ ایمان اوربندگی کا رشتہ قائم کرلے وہ اسے ہر اندیشہ اور خوف سے ہر حزن وغم سی،ہرحسرت ویاس سے پاک کردیتاہی۔
حضرت ابراھیم نے جب حضرت ہاجرہ اور کمسن حضرت اسماعیل کو مکہ میں بسایا تو وہاں نہ انسان کا نام ونشان تھا،نہ پانی کا ،نہ ذراعت کا،نہ خوردونوس کا کوئی انتظام۔ایک تھیلی(جراب)کھجوروں کی اور ایک مشکیزہ پانی کا،بس یہ کل کائنات تھی جو وہ ان کے پاس چھوڑ کر چلے تھی۔حضرت ہاجرہ نے بار بار پوچھا کہ ہمیں اسی وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں چلی،جہاں نہ آدم ،نہ آدم ذات،نہ کوئی اور چیز۔
کوئی جواب نہ پایا تو سوال کیا،کیا اس کا حکم اللہ نے دیا ہی؟فرمایا ۔ہاں یہ سن کر ان کے اندر اطمینان وسکون کا باغ لہلا کیکی اٹھا وہ بول اٹھیں۔
اذا لا یضیعنا۔۔۔۔پھر تو وہ ہم کو ضائع نہ کرے گا۔(بخاری)
ایک اور روایت کے مطابق جب حضرت ہاجرہ نے حضرت ابراھیم سے پوچھا کہ ہمیں کس پر چھوڑے جارہے ہیں؟تو انھوں نے کہااللہ پر۔یہ سن کر وہ پورے سکون اور اطمینان سے بولیں (رضیت باللہ)میں اللہ پر راضی ہوں۔
اللہ پر یقین ،اللہ پر توکل،اس پر بھروسہ اور یقین،اللہ پر صفلہ پر خوش بندگی رب کی یہ کیفیت بھی کہ ایک اکیلی تنہا عورت اپنے شیر خواربچے کے ساتھ پتھریلے علاقے میں ،جنگل بیابان میں،بھیانک اور ڈرائونی راتیں،تپتے ہوئے دن،موذی جانور،چوراور ڈاکو سب خطرات کے باوجود،اطمینان اور امن کی کیفیت سے مالا مال یقین۔
معاش کا بندوبست بھی کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کے ایک مشکیزے سے زائد کچھ نہ تھا۔
آج بہت اللہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کیوئی اسباب ووسائل نہ تھے ،کوئی سہارا نہ تھا۔صرف خطرات ہی خطرات تھی۔وہاں اللہ تعالیٰہزار سال سے سب کچھ بخش رہاہی۔جہاں جنگل تھا،صحرا بیاباں تھا،دور دور تک کوئی انسان نہ تھا،آج وہاں لاکھوں انسان دنیا بھر سے کھنچے چلے آرہے ہیں۔ہر قسم کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہا ں موجود ہی۔دنیا بھر سے عشقاق کا قافلہ بیت اللہ کے گرد دیوانہ وار چکر لگانے امڈ امڈ کر آرہے ہیں۔۔۔۔دھرنے کو جگہ نہیں،چلنے پھرنے کی گنجائش نہیں،سجدہ کرنے کا مقام نہیں لیکن عشاق ہیں کہ ہر چیز سے بے نیاز ،ایک ہی دھن میں،محبت کے نشے مٰں سر شار چلے آرہے ہیں۔ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں۔سب کو داخلے کا اذن عام ہے ۔سب  فیوف
الرحمن، سب پر فضل ورحمت کی بارش ہی۔
بیت العتیق قدیم ترین گھر ہی،اس وقت سے موجود جب پہلے انسان نے اپنے معبود واحد کی پرشتش کیلئے کرہ ارض کا پہلا ٹکڑا وقف لیا۔
اسکی تعمیر حضرت آدم ؑنے فرمائی اور حضرت ابراھیم ؑ نے اس کی جدید تعمیر کی ۔پھریقینا ۔۔۔۔۔بنیادیں وہی ہیں۔حجر اسود ۔اسی وقت سے موجودہی۔
تمام انبیاء نے خانہ کعبہ کا حج کیا۔یہ گھر سب کا مرکز محبت رہاہی۔اس مطاف میں ازل سے لوگوں کا قافلہ چلتا رہاہے اور حجر اسود حق تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے زمین پر جس سے اللہ اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح مصافحہ کرتاہے جیسے انسا اپنے بھائی سے
یصا ضع جھا خلقہ مما یصاضع الرجل اخاہ    مسلم۔عبد اللہ بن عمر
اس کو چومتے ہوئے انسان کے دل کی دنیا تہہ وبالا ہوجاتی ہی
آنکوں سے اشک رواں ہوجاتے ہیں۔عمر بھر کے گناہ جڑ معاف کرانے کی تڑپ پیداہوجاتی ہی۔
حجر اسود کا بوسہ اگر آرام سے مل جائے توٹھیک ہے ورنہ اس کے لیئے   دھلم پیل   مزاحمت   کرنا منع ہی۔آپ ؐ نے دور سے اشارہ کرکے طواف شروع کردیا کرتے تھی۔
حج کارکن اکبر عرفات کے میدان میں حاضری ہی۔کوئی بھی رکن فوت ہوجائے تو اس کی تلافی کی صورت ممکن ہے لیکن وقوف عرفات فوت ہوجائے تو اسکی تلافی کی کوئی صورت نہیں۔حج وقوف عرفات ہی سے مکمل ہوتاہی۔میدان عرفات میں نماز کی طرح کوئی بہت ووضع ضروری ہی۔
رکوع وسجود کی مانند کوئی ارکان بجالانا نہیں۔روزہ کی مانند اپنے نفس کو کسی بھی چیز سے نہیں رکنا نہیں سوائے احترام کی پابندیوں کی۔زکوٰۃ کی مانند کوئی متعین رقم اللہ کی راہ میں نکالنا ضروری ہی۔ضروری اور لازم صرف یہ کہ ہجوم عشاق میں شامل ہوکر رب کے دربار مٰں حاضر ہوجائو۔مدت کی بھی کوئی پابندی نہیں اگر محض عرفات کے میدان سے گزر بھی گئے تو وقوف عرفات کا رکن ادا ہوجائے گا۔
حضرت ابراھیم واسماعیلؑ کے زمانے سے عرب کا معروف طریقہ حج یہ تھا کہ ۹ذولحجہ کو منیٰ سے  عرفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مزدلفہ میں قیام کرتے تھے مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی بر ہمنیت قائم ہوگئی تو انہوں نے کہاں کہ ہم اہل حرم ہیں ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہل عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں چناچہ انہوں نے غرور کے ساتھ اپنے لیئے یہ شان امتیازی رکھی کہ مزدلفہ تک جاکر پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیئے چھوڑ دیتی۔پھر یہی امتیاز بنی خزاعہ، بنی کنانہ اور دوسرے قبائل کو بھی حاصل ہوگیا جن کے ساتھ قریش خاندان کے رشتے شادی وغیرہ کے ہوگئے تھی۔آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حریف تھے ان کی شان بھی عام عربوں سے اونچی ہوگئی اور انھوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔اسی فخروغرولہ کا بت یہاں توڑا گیاہے اور سنت ابراھیم کی خلاف ورزی پر تادیب کی گئی ہی۔جاہلیت کے زمانے میں حج کے لئے زاد راہ ساتھ لے جانے کو دنیا   دارانہ فعل سمجھا جاتا تھا ور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دنیا کا سامان لئے بغیر جائے گا۔
یہاں انکے اس غلط خیال کی بھی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ زاد راہ ساتھ نہ لانا کوئی خوبی نہیں اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہوناہی۔
جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا۔اللہ سے بے خوف ہوتا ہے ۔برے اعمال کرتاہے تو اس کا یہ سفر حج اللہ کے یہاں مقبول نہ ہوگا۔
دنیا میں عدل وانصاف اور جور وستم کا محور صرف 3چیزیں ہیں۔جان،مال،آبرو،۔
حضور اکرم ؐ عرفات کے خطبہ میں ان کے متعلق ارشادفرمایاتواہل عرب میں صدیوں کے اس رسم زنگ کو دورکرنے کے لئے آپ ؐ نے تبلیغی انداز میں لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا:    کچھ معلوم ہے آج کونسا دن ہی۔
لوگوں نے عرض کیا۔:        اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہی۔
آپؐ دیر تک چپ رہے لوگ سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گی۔
دیر تک سکونت کے بعد آپؐ نے فرمایا:  کیا آج قربانی کا دن نہیں ہی؟
لوگوں نے کہا۔            ہاں بے شک ہی۔
پھر ارشاد ہوا۔ یہ کونسا مہینہ ہی۔ لوگوں نے پھر اسی طریقے سے جو اب دیا ۔ آپؐ نے دیر تک سکونت کے بعد فرمایا کیا یہ ذوالجہ نہیں ہی؟
لوگوں نے کہا ۔            ہاں بے شک ہی۔
پھر پوچھا             یہ کون سا شہر ہی۔  لوگوں نے بدستور جواب دیا۔
آپ ؐ نے اسی طرح دیر تک سکونت کے بعد فرمایا۔ کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہی۔
لوگوں نے کہا بے شک ہی۔
جب تمام سامعین کے دل میں اچھی طرح یہ خیال بیٹھ گیا کہ آج کا دن، مہینہ اور  شہر بھی حرام (حرمت والی) ہیں اس دن۔ اس مقام پر جنگ اور باہمی خونریزی جائز نہیں
تب آپؐ نے فرمایا۔
تو تمہارا خون،  تمہارا مال،  تمہاری آبر و تاقیامت اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن،  یہ شہر اور یہ مہینہ۔
قوموں کی بربادی ہمیشہ آپس کے جنگ و جدل اور باغی خونریزی کا نتیجہ رہی ہی۔ آپؐ نے جو ایک لازوال قومیت کے بانی بن کر آئے تھے انہوں نے باآواز بلند اعلان کیا۔
،،ہاں میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا۔ کافر نہ ہوجانا۔ کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ تم کو خُدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا۔
غرضیکہ سفر حج سب کا مرکز محبت رہا ہے اور ذوالحجہ کا مہینہ اپنے تمام تر لازوال خزانوں کے ساتھ یہ تقاضا کر رہا ہے کہ امت مسلمہ میں حضرت ابراہیم کا کتنا رنگ موجود ہی۔ کوئی ایسا  رنگ جو غیر مسلموں اور مشرکین کے رنگ سے الگ ہو۔ کہیں ایساتو نہیں کہ بجائے ایک امت واحدہ ہونے کے غیر مسلمین کی طرح الگ الگ ٹکڑ وں میں بٹی ہوئی ہو اور ہر ایک کے دل میں فخر و غرور کی،  دولت کی اس کے ، جاہ و جلال کی رتبوں کی، دنیا کی محبت نے قبضہ جمایا ہوا ہو۔ ‘‘کثرت‘‘ نے یا دالہی سے  غافل کرکے ہر قسم کی تیمیل احکام میں، کہیں خواہش، پسند و نا پسند، کے ذریعے رکاوٹ ڈال دی ہو۔ ہر سال مسلمان حج  بھی کریں عمروں پر بھی جائیں منہ قبلے کی طرف کعبہ شریف کی طرف رخ کرکے نمازیں بھی پڑھیں مگر دل میں دنیا موجودہو۔
اس کا تسلط ، اسکی محبت، اسکی فکر مراسم عبودیت میں اتنی جاگزیں ہوجاتے کہ نہ تو قلوب بیدار ہو اور نہ  ہی نگاہوں میں پاکیزگی  ویکسوئی پیدا ہو اور نہ عمل صالحتِ جو زندگی کو صرف رب کی خاطر بدل دی۔ امت مسلمہ پر وہ رنگ نہ چڑھے جو ابراہیم کا رنگ تھا تو اس سے بڑھ کر حرمان  نصیبی کیا ہوئی۔
آج امت مسلمہ جس بھنور میں پھنسی ہوئی ہی، اسکی وجہ اسلام سے دوری ہے اور حج قرب الہیٰ اور اکملیت اسلام کا تقاضا کرتا ہی۔ ایک عورت کا یقین کہ اللہ ہم کو ضائع نہ کرے گا اور اسکی بھاگ دور صفا مروہ پر سحی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پتھروں سے   مزین گھر کو مقام عالی بنا سکتا ہی۔ سنگلاخ زمین سے لا زوال چشمہ جاری کرسکتا ہے تو پھر آج کی دنیا میں میں دین کو غلبہ  کیوں حاصل نہیں ہوسکتا۔
ظلم و فساد سے بھری ہوئی دنیا میں نیکی کا چشمہ کیوں نہیں پھوٹ سکتا آج انسانیت تڑپ رہی ہے سسک رہی ہی۔ انقلاب کا انتظار کررہی ہے آج کا دور اپنے ابراہیم کی منتظر ہی۔ اور سعی  و عمل اخلاص و وفا
کی دنیا  بنانے کیلئے ہم میں سے کون ابراہیم کے نقش پا اور آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کیلئے قدم اٹھائے گا ۔۔؟

فیس بک تبصرے

Leave a Reply