رمضان کے روزے

فرض:
روزہ اسلام کا چوتھا ستون ہے۔ اللہ نے مسلمانوں پر روزے فرض کیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں روزوں کے متعلق فرماتا ہے ’’ اے لوگوں جو ایمان لاے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروں پر فرض کیے گے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دِنوں کے روزے ہیں‘‘ ( البقرۃ  ۴۸ ۱)

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اس مہینے کے پورے روزے رکھے‘‘ ( البقرۃ ۵۸۱). روزے رکھنے واے مردوں و عورتوں کے لیے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔

سخت جا ن بننے کا ذریعہ:
ایک مسلمان کو جہاد کا فریضہ ادا کرنا ہے اس سے سخت جان بن جانے کا سبق ملتا ہے کہ عام لوگوں میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کا فریضہ ادا کرنے والے مومن کا کس طرح اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینے میں مشکل میں ڈال کر تیار کرتا ہے تاکہ وہ سخت جان ہو جائے. اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ’’الصیام‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو لفظ صوم سے نکلا ہے۔ عرب صائم اُس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کو دھوپ میں بھوکا پیاسا باندھ دیا جاتا ہے وہ کھونٹے کے ارد گرد رسًی میں باندھا ہوا چکر لگاتا رہتا ہے۔ بھوک و پیاس میں رکھ کر اُسے صائم کیا جاتا ہے۔یعنی سدھایا جاتاہے تاکہ لڑائی کے مشکل وقت میں کھانے پینے کو نہ ملے تب بھی وہ انسان کے کہنے پر چلتا رہے اور دشمن سے لڑتا رہے. صائم کیا ہوا گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ کیا روزے فرض ہونے کے بعد ہم سخت جان اور اپنے مالک کے وفادار ہیں؟ روزے کے لیے لفظ سیاحت بھی استعمال ہوتا ہے۔ وہ اس نسبت سے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی ذادِ راہ نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ان کو اُس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے۔ اس بنا پر روزہ دار ایک درویش ہے کہ جب تک افطار کا وقت نہ آے روزہ داربھی بھوکا رہتا ہے۔ حاشیہ تفسیر آیت ۵ سورۃ التحریم مولا نا مودودی ؒ  تفہیم القرآن ‘‘. حدیث میں حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں اس امت کی سیاحت(یعنی درویش روزہ ہے)  اس حدیث سے بھی مشکل برداشت کرنے کا سبق ملتا ہے۔

ایک ماہ کاتربّیتی کورس:
رسول ؐ  شوال کے مہینے سے ہی روزے کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے رویت ہے کہ رسول ؐ نے فر مایا جب مضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں ایک روایت میں یہ الفاظ آے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (متفق علیہ) باقی تمام عبادات تھوڑے وقت کے لیے ہوتیں ہیں لیکن روزہ مسلسل ایک ماہ کا تربیتی کورس ہوتا ہے نماز میں تھوڑا وقت صرف ہوتا ہے، حج بھی صرف زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ زکوۃ سال میں ایک وقت ادا کر دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس روزہ سال میں مسلسل 30 دن ساری عمر آتا رہتا ہے اس سے اللہ کا منشاء ہے کہ ہر سال انسان کی تربیت ہو تاکہ وہ خلافت کا بھاری کام سنبھال سکے۔

انسان بحیثیت خلیفہ:
انسان اس دنیا میں  اللہ تعا لیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہے یعنی اس دنیا میں اللہ کا نائب ہے اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ اللہ کے احکامات اللہ کی مخلوق سے عمل کروائے. قرآن کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرتے وقت ہی یہ بات اس کے دماغ میں ڈال دی تھی کہ رحمان کا رستہ کونسا ہے اور شیطان کا رستہ کو ن سا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ انسان اللہ کی منشاء کے مطابق زندگی بسر کرے۔

شیرازہ بندی:
اب غور کرتے ہیں کہ اللہ کی منشاء کیا ہے؟ اللہ کی مرضی ہے کہ انسان کی شیرازہ بندی ہو۔ انسانی فطرت بھی یہی کہتی ہے کہ اس کی شیرازہ بندی کی جائے، اس کو اکٹھا رکھنے کے لیے ٹھوس ادارے قائم کے جائیں۔ اگر ایسے ادارے نہ ہوں گے تو انسان ایک نقطے پر متفق نہیں ہوگا، ایک محور پر نہیں رہ سکے گا۔ لوگوں کی سوچ مختلف سمت میں ہوگی جس سے وہ نتائج حاصل نہ ہونگے جو اُمت کی شیرازہ بندی کرنے والے کو مطلوب ہونگے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اس کائنات کے زمینی حصًہ، جس میں انسان بستا ہے، اس کی شیرازہ بندی کے لیے ا س ہی میں سے ایک انسان تلاش کرتا ہے یعنی پیغمبر، جواس کی بات ٹھیک ٹھیک اُسی طرح اُس کے بندوں کے پاس پہنچائے جس سے اس کے تخلیق کرنے والے کی منشاء ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی منشا۔ شیرازہ بندی کا اِس سے بہتر انتظام سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں کر سکتا، یعنی توحید، رسالت، نماز، زکوہ، رمضان، حج اور جہاد فی سبیل اللہ۔ انسان ان عبادات کو ادا کرنے میں لگا ہے یہ انسان کی شیرازہ بندی ہے۔

مینول:
مثال کے طورپر انسان کے ہاتھ سے بنی ہوئی ایک مشین کی شیرازہ بندی اُس مشین کے بنانے والا ہی بہتر بنا سکتا ہے. شیرازہ بندی اِس معنی میں، کے اُس کے تمام پرزے باہم ایک دوسرے سے ملے رہیں، اور وہ مشین یکجا رہے۔ اِس لیے ہر مشین کے ساتھ ایک مینول بک ہوتی ہے کہ اس مشین کو اسطرح چلایا جائے تو یہ صیحح نتائج دے گی اوراس کو اس مینول کے مطابق نہ چلایا گیا تو مطلوبہ نتائج نہ دے گی، بلکہ جلد ہی خراب ہو جائے گی اور نہیں چلے گی۔ تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ مشین کو مینول کے مطابق چلانے والوں نے اس مشین سے بہترنتائج حاصل کیے اور جس نے اس مشین کو مینول کے مطابق نہیں چلایا وہ صحیح نتائج حاصل نہ کر سکے۔ بس اللہ کی شیرازہ بندی کے مطابق انسان چلے گا، تو مثل مشین صحیح رہے گا۔

انسان:
اسی مثال کے مطابق آپ انسان کو ایک مشین تصًور کریں اور پھر اس پر مزید غور کریں کہ اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے انسان کے بنانے والے یعنی اللہ تعالیٰ کے مینول کے مطابق کام کریں گے تو بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ہر سمجھدار انسان یہی کہے گا کہ بنانے والے کے مینول کے مطابق کام کریں گے تو صحیح نتائج حاصل ہونگے۔ سب سے پہلے تو ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کے معاملے میں وہ کیا چیزہے جو اس کی مزید شیرازہ بندی کرے؟ وہ یہ ہے کہ انسان ایک ہستی کو اپنا سب کچھ سمجھے یعنی اللہ، اور اقرار کرے کہ سوائے رب کے کچھ نہیں تویہ توحید ہے اور رسول ؐ  اللہ کے پیغمبر اور بندے ہیں۔ پیغمبر ؐ  کو اسطرح مانے کہ یہ مجھے اللہ سے ہدایت لا کردینے والا ہے  اور اس کے علاوہ کہیں سے بھی ہدایت نہیں مل سکتی تویہ رسالت ہے۔ وقت کی پا بندی کا سبق سیکھنا، صبر کی تربیت ہونا اور پانچ وقت اللہ کے بندہ ہونے کا احساس ہونا اور اُن کو ایک دوسرے کے معاملات کا بھی علم ہونا تو یہ نماز ہے۔ اِس کے بعد انسان کسی ایسے نظام پر عمل کرے کہ اُس کے کمزور ساتھیوں کو اگر زندگی گزارنے کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہو تو وہ مل سکیں تو یہ زکوۃ ہے۔ اسی انسان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے اللہ کے دین کوقائم کرنے میں بھوک پیاس برداشت کرنی پڑے اور یہ احساس تازہ رہے کہ تکلیف کے وقت انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے تو اِس کے لئے روزہ یعنی رمضان ہے۔ انسا ن بستی بستی، شہر شہر، ملک ملک، براعظم براعظم میں آباد ہوتا ہے اب ان سب انسانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے، ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کے لیے کوئی ایسی جگہ ضرور ہونی چاہئے کہ وہاں سب جمع ہوں اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کی تدبیر کریں تو وہ حج ہے. مندرجہ بالا احکام پر عمل کر کے ہی انسان اللہ کا پسندیدہ بندہ بن سکتا ہے۔

کامیاب زندگی:
اب ذرا دِل پرہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اس سے بہتر شیرازہ بندی کچھ اور ہو سکتی ہے، یا یہی بہتر ہے جو ہمارے رب نے بنائی ہے۔ اسی میں اللہ کے حکم کی ادائیگی ہے، اسی میں رضا الہی ہے، اسی میں فلاح آخرت ہے اور یہی اللہ کا منشاء ہے۔ اور یہی کامیاب زندگی گزارنے کا اللہ کی طرف سے دیا ہوا مینول ہے۔ ہم نے اُوپر مشین کی مثال سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صحیح نتائج کے لیے ضروری ہے کہ مشین بنانے والے کے مینول پر عمل کیا جائے تو صحیح نتائج ملیں گے۔ اسی نظم میں منضبط ہو کر اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جدوجہد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بالکل اس طرح اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے راستے پر چل کر ہی صحیح نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے اور انسان سے انتہائی محبت کا اظہار ہے کہ اُس نے وہ تمام عبادات جس پر عمل کر کے انسان اپنا ہی فائدہ کرتا ہے اللہ نے اس پر اپنی طرف سے انعام بھی رکھ دیاہے یعنی اللہ کی جنت ۔ اگرتوحید، نبوت، نماز، زکوۃ، رمضان، حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے احکامات پرصحیح اللہ کے بتائے ہوے اصولوں کے مطابق عمل کرو گے تو اس جہاں میں عزت وقار تو ملے گا ہی دوسری زندگی میں جو اصل اور ابدی زندگی ہے یعنی جنت کے بھی حق دار ہوجاوگے اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے۔

فلسفہ:
اب مزید سوچیں کہ اس کے پیچھے فلسفہ کیا ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ کررہ ارضی پر، یعنی جہاں انسان آباد ہے وہاںاللہ کا حکم چلے، شیطان مردود کا حکم نہ چلے، خود ساختہ نظریات نہ چلیں، باپ دادا نے جو قاعدے بنائے ہوئے ہیں، جو غلط ہیں وہ نہ چلیں، انسان اپنی خواہشات پر جو کہ اکثر غلط ہوتیں ہیں عمل نہ کرے۔ جس دور کا بھی انسان ہو وہ سمجھ لے کہ اُس سے قبل کے دور کے انسان نے جوغلطیاں کی ہیں اُن سے سبق حاصل کرے جو اس سے پہلے دور کے انسان نے شیطان کے کہنے پر غلط کام کیے ہیں اُن سے بچے اور اللہ سے توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے بتاے ہو ے اصولوں پر چلے یہ ہے فلسفہ۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی عبادات کے لیے ادارے قائم کیے ہیں وہ دراصل انسان کو اللہ کے دین کو اس دنیا میں قائم کرنے کے دوران مدد فراہم کرنے کے لیے بنائے ہیں اور اُن کو فرض کا درجہ بھی دے دیا ہے کہ یہ عبادات ہر حالت میں کرنی ہیں۔یہ عبادات کریں گے تو مسلمان ورنہ کافر۔

رکاوٹ:
بہت سے انسان جو اللہ کے اصل راستے سے ہٹ کر شیطان کے راستے پر چل پڑتے ہیں وہ اس کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں وہ یہ اصل کام نہیں ہونے دیتے ان لوگوں کی مزاحمت کرنے کے لیے اللہ نے اپنے  بندوں پر یہ عبادات فرض کی ہیں تا کہ جب مزاحمت کرنے والوں سے مقابلہ ہو تو سخت جان بن جائیں اور اُن بُرے لوگوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں وہ  برُے لوگ اِن کا راستہ روکیں گے، وہ ان کو ہرطرح سے نقصان پہچانے کی کوشش کریں گے، وہ قتل عام کریں گے اور شیطان کے کہنے پر ہر اس کام سے روکیں گے جو اللہ نے اپنے نیک لوگوں کو کرنے کے لیے کہا ہے۔ اب ذرا غور کریں ایسے غلط لوگ کمزور لوگ مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یقیناّنہیں کر سکتے۔

جہاد فی سبیل اللہ:
لہٰذ ان نیک لوگوں کی تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے عبادات کا نظا م قائم کیا ہے۔ اب مزید غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے جو لوگ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں وہ صرف نماز پڑھ کر، زکوۃ  دے کر، رمضان کے روزے رکھ کر، سال میں ایک حج کر کے اور دل میں اللہ کے نظام کو قائم کرنے کا ارادہ کر کے یعنی کلمہ توحید پڑھ کر اللہ کے دین کوقائم نہیں کر سکتے ہیں؟ تجر بہ یہ بتاتا ہے طاغوت یہ کا م نہیں کرنے دے گا. قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جگہ جگہ رکاوٹ ڈالی جائے گی. ابلیس نے شروع ہی سے کہا تھا کہ میں انسان کو آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے، ہر طرح سے گھیروں گا. شیطان اور اس کے چیلے نیک لوگوں کو نیک کام نہیں کرنے دیتے۔ شیطان  بُرے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر، اور بُرے انسان اپنی خواشہات کے پیچھے چل کر نیک لوگوں کے راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں. صرف عبادات کو ادا کرکے ان لوگوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا، اس کے لیے لوگوں کو جہاد کے لیے تیارہونا پڑتا ہے۔ اُن بُرے لوگوں کے مقابلے کے لیے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے اوراگر نیک لوگ صرف عبادات پر عمل کرکے چاہیں کہ اللہ کا نظام قائم ہو جائے اور اللہ کا منشاء پورا ہوجائے، خلیفہ ہونے کا حق ادا ہو جائے تو یہ ممکن نہیں۔ ہاں اللہ چاے تو صرف اس کے حکم سے سب کچھ ہو سکتا ہے مگریہ اس کی مشیت ہے کے وہ اپنے نیک بندوں سے یہ نظام قائم کرانا چاہتا ہے اس ساری تربیت یعنی نماز، زکوۃ، رمضان، حج اور زبان سے توحید کا اقرار کرنے سے اجر تو ضرورملے مگر یہ کام نہیں ہوگا. ان عبادات کے ساتھ ساتھ عملی جد وجہد کرنی پڑے گی۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ کرنا پڑے گا۔ اسی لیے انسان کو روزے کے ذریعے صائم کیا جاتا جیسے عرب کے لوگ گھوڑوں کو صائم کیا کرتے تھے تاکہ وہ ہر مشکل وقت کے لیے تیار رہیں۔ مسلمان کو بھی اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر قائم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply