شوق کی شدّت کو پھر سے آزمانا چا ہیے!

hareem-e-adab“مایوں، مہندی ہورہی ہے؟”
“میلاد کا مہینہ شروع ہوگیا ہے کیا؟”
“قرآن خوانی کی محفل منعقد کی جائے گی کیا؟”
“نکاح ہے کیا کسی کا؟”
یہ ہیں وہ جملے جو اجتماع عام کے دوران ادبی نشست کے انعقاد سے پہلے تیاریوں کے درمیان سننے کو ملے !اجتماع عام کے ہنگامہ پر ور ماحول میں ادبی نشست کا انعقاد ! جی کوئی مذاق نہیں !یہ تو سننے، سنانے اور تبصرہ کرنے کی محفل ہوتی ہے اور یہاں کی رونقیں ! معمول کی باتیں بھی سر گوشی کے انداز میں کان کے اندر گھس کر کرنی پڑتی ہیں۔ میگافون کے استعمال کا مشورہ آیامگر ایک تو یہ اس محفل کے شایان شان نہیں دوسرا اس کی دستیابی بھی ایک مسئلہ تھی لہذا اس رائے کو مسترد ہی کر نا پڑا اور یہ بہتر ہوا کہ بعد میں یہ تبصرہ سننے کو ملتا کہ ادبی نگارشات سنی جارہی ہیں یا چورن بیچا جا رہاہے۔۔۔

نگران بتول ثریّا اسماء مہمان خصوصی جبکہ حریم ادب، پنجاب کی نگران شاہدہ اکرا م صدر تھیں۔ ثریا اسماء صاحبہ کی عدم موجودگی میںان کی نمائندگی محتر مہ عافیہ سرورنے کی۔ اس نشست کی انتظامی امور کی نگران کراچی کی ثمرین احمد تھیں جبکہ ان کی معاونت توقیر عائشہ نے کی۔ان دونوں نے نہایت تندہی اور جانفشانی سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ تزئین و آ رائش اور تواضع کی ذمہ داری صائمہ افتخار کے سر تھی اور جس کے سب گواہ ہیں کہ خوبصورتی اور مہمان نوازی کا بہترین امتزاج تھا مگر خود صائمہ کہیں رش میں پھنسنے کے باعث شریک نہ ہوسکیں۔ اسی طرح سے افشاں نوید جو اس محفل کی روح رواں تھیں اور جن کو سب ان کی کتاب پر مبارکباد دینا چاہ رہے تھے عین اسی وقت صحافیات کو اسٹالز کا دورہ کروارہی تھیں لہذا ان کی دید سے بھی حاضرین محروم رہے۔ امّ ایمان اشتیاق کے باوجود اتنی دیر تک نہ رک پائیں کہ محفل کا

با قاعدہ آغاز ہوسکے۔ مدیرہ بتول، صائمہ اسماء خواتین کانفرنس کی ہمہ تن مصروفیت کی وجہ سے نہ مل سکیں۔ دید تو ہوگئی تھی مگر شنید نہ ہوسکی۔۔۔ اس کے علاوہ مدعوئین اور متوقع قلمکاروں کی ایک بڑی تعداد تھی جو شام تک ہمارے ساتھ تھے مگر بوجوہ اس تقریب تک نہ ٹھہر سکی۔ان میں آسیہ راشد، ربیعہ ندرت، نوشین جمیل شامل ہیں۔

عزیز قارئین! آ پ یہ سوچ رہے ہوں گے پھر اس محفل میں تھا کون جس کا ذکر ہو؟ جی نہیں! شائقین کی ایک بڑی تعداد منتظر تھی۔ ان میں باذوق قارئین بھی تھے اور پر اشتیاق قلم کار بھی! ماحول میں موجود پر تجّس خواتین بھی اور نوعمر بچیاں بھی! اب آپ کو دلچسپی کی اصل وجہ بتانی پڑے گی!جی ہاں دلکش سی سجاوٹ ہی نے سب کو اس طرف متوجہ کیا ہوا تھا۔ہلکے گلابی بروکیڈ پر روپہلی اور سنہری کرنیں لگے دائرہ میں چوکور پرنٹڈ، شیڈڈ گلابی تخت پوش اور اطراف میں لگے گائو تکیے اور درمیان میں رکھا گلدستہ! فرشی نشست مگر دائرے کی صورت میں کرسیاں بھی موجود تھیں۔ کیا خوبصورت محفل تھی جس کی تیاری کے دوران وہ جملے سننے کو ملے جو آغاز میں تحریر کیے ہیں۔ ادبی نشست کا بینربھی لوگوں کواپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور تقریب کا با قاعدہ آغازتلاوت سے ہوا۔ ایک نعت کے بعد میزبان ہونے کی حیثیت سے کچھ افتتاحی کلمات ہم نے کہنے کی جراء ت کی مگر حلق ساتھ نہ دے رہا تھا لہذا مختصر بات کو مزیدسمیٹ لیا۔ جب تحریریں پڑھنی شروع کی گئیں تو ہر طرف کے کھلے مائیک سماعت میں خلل بننے لگے چنانچہ شاہدہ اکرام نے تجویز دی کہ جو قریب بیٹھے ہیں وہ ہی تبصرہ کریں لہذا یہ فریضہ عابدہ فرحین اور روبینہ فرید نے سر انجام دیا۔ قانتہ رابعہ نے اپنا افسانہ سناکر اس پر تبصرے وصول کیے۔روبینہ فرید نے اپنی غزل جبکہ ثریا ملک نے اپنی نظم پیش کی۔اس کے بعد ہماری باری تھی۔ ہم نے پڑھنے کے لیے اپنی تحریر پیش کی مگر اسی وقت انٹر نیشنل سیشن کے لیے پر جوش مائیک کھل گیا اور پھر رہی سہی سماعت بھی جواب دینے لگی چنانچہ شرکاء کے تحریری تاثرات لے کر اس محفل کو سمیٹ دینے کا فیصلہ کیاجبکہ بہت سی خواتین جن میںبینا حسین خالدی، نگران حریم ادب رحیم یار خان، سر فہرست ہیں اس نشست کے اختتام پر تاسف کا اظہار کرتی نظر آئیں کہ بر وقت نہ پہنچ سکی!

لاہور اور کراچی کی رائٹرز فورم کی نگران عصمت اسامہ اور ثمرین احمد خصوصی طور پر موجود تھیں اور ہماری ہمت افزائی کر رہی تھیں مشہور مصنّفہ ام سمیہّ مسعود سے بھر پور ملاقات نہ ہو سکی جبکہ ان کی آ مدبے انتہا خوشی کاباعث تھی۔ کراچی کی شمیم فاطمہ خود تو نہ آسکیں مگر ان کی کاوشیںموجود تھیں۔ شاہدہ خاتون، حریم ادب کی ابتدائی ممبران میں سے ہیں ان کی بصد شوق شرکت ہماری حوصلہ افزائی کرہی تھی تو دوسری طرف ڈاکٹر رخسانہ جبین اور دردانہ صدیقی کی موجودگی حریم ادب کے روشن مستقبل کی نوید دے رہی تھی۔ سامعین میں کمیونٹی اسکولز کی انجم خالق، یاسمین رضی، شاہینہ اور دیگر تھے تو دوسری طرف نظم سے تعلق رکھنے والی نجیبہ نذیر بھی تھیں۔ ورکنگ ویمن ویلفئر کی صدر عابدہ فرحین تبصرہ نگار تھیں تو رائزنگ یوتھ کی نگران رقیّہ منذرمرقع شوق ! ویمن لاء فورم کی شگفتہ مشہود سمیت بہت سی خواتین جن کے نام یہاں آنے سے رہ گئے ان سے معذرت !کہنے کی بات صرف یہ ہے کہ مختلف دلچسپیاں اور مشاغل رکھنے کے باوجود ذوق کی اس تسکین کے لیے حریم ادب سے بہتر کوئی فورم نہیں! ایک گلدستہ جس میں ہر رنگ اور خوشبو کے پھول جمع ہوں !

تقریب کے اختتام پر شرکاء کی تواضع کے لیے رنگین چمک دار تھیلیوں میں شیرینی اور حریم ادب کے خوبصورت گلابی بیگز پیش کیے گئے۔ ان میں سووینئر کے طور پر قلم، کی چین اور بک مارک شامل تھے۔ حریم ادب کی نئی کاوش محترمہ افشاں نوید کی کتاب نوید فکر جس کا آج ہی افتتاح ہوا تھا شرکاء کو تحفتاً دی گئی۔

سماعت کی تمام تررکاوٹوں کے باوجود کچھ نہ کچھ باتیں ہوہی گئیں۔ ان میں دو بڑی اہم بحثیں ہیں۔ سب سے پہلے تویہ کہ نگارشات کی طوالت کیا ہو؟ تیز رفتار دور میں مختصر اصناف لکھی جا ئیں تاکہ ایک نشست میں پڑھی جا سکیں۔ دوسرا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ چینلز میں ڈرامہ کی صورت میں پیغام پہنچا نے کے لیے ناول نگاری کو فروغ دیا جائے! دونوں آراء کا ایک پس منظر ہے جن میں مخاطبین کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی متعیّن کر نے کی ضرورت ہے۔

دوسری بحث یہ تھی کہ قلم کی صلاحیت رکھنے والا فرد ذمہ داریوں میں گھراہونے کے باعث اپنی دلچسپیوں کو خاطر خواہ وقت دینے سے قاصر ہے۔ اہل قلم کے لیے غور وفکر کی بات ہے کہ وہ کس طرح توازن رکھتے ہوئے اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا اہتمام کرے۔دوسری طرف اس نازک اور حسّاس کام کے لیے خواتین کو مختص کر نا بہت ضروری ہے کیونکہ تخلیقی کام میں یکسوئی کا فقدان اس کے معیار کو متائثر کرتا ہے۔ دن بدن قلم کاروں کی گھٹتی تعداد اور کم ہوتی دلچسپی اس کا مظہر ہے۔ اس بات کی طرف توجہ قانتہ رابعہ نے دلوائی کہ پہلے کراچی سے بہت سے نام آتے تھے جن میں آ سیہ بنت عبداللہ صدیقی اور ڈاکٹر عزیزہ انجم۔۔۔۔۔اب کہیں گم ہو گئی ہیں۔ ( ہمارے رابطے میں ہیں )۔

بات تو سچ ہے! جس طرح بدلتے موسم کے اثرات ہر چیز میںنظر آ تے ہیں۔زندگی کی تبدیلیاں ایک قلمکار کی تخلیقات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماہ و سال کے اثرات سے درخت مرجھا یا ہوا بھی محسوس ہو تو بہر حال جڑیں موجود ہوتی ہیں اور مناسب توجہ سے دوبارہ شگوفے کھل اٹھتے ہیں ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ نہ صرف یہ دوبارہ شاداب ہوں گے بلکہ ثویبہ درانی اور مریم فاروق کی شکل میں تازہ اور نئے شجربھی اپنی جگہ بنائیں گے۔

اس محفل کو موئثر اور مفید بنانے کا سہرابجا طور پر قانتہ رابعہ کو جاتا ہے جو خود ماشاء اللہ ۲۲ کتابوں کی مصنفہ ہیں مگر ادب کی آبیاری اور نئے قلم کار کی تلاش اور تیاری کے لیے ہر وقت سر گرداں! دوسرا نام شاہدہ اکرام کاہے جنہوں نے اپنے مشوروں، تجاویز اور حوصلہ افزائی سے اس تقریب کے انعقاد کو ممکن بنایا۔۔۔

عزیز قارئین! یہ ہماری ادھوری ادبی نشست کی روداد ہے۔۔۔ مگر ٹھہریں! یہ مکمل اور اصل ادبی نشست نہیں تھی بلکہ یہ تو دراصل ایک علامتی نشست تھی! ایک ماڈل تھی کہ ذوق کی تسکین کیسے ہو؟ تفریح کا انداز کیا ہو؟ ثقافت کے رنگ کیوں کر اجاگر ہوں؟ تہذیب کی علامت کو کیسے زندہ کیا جا ئے؟۔۔۔ یقینا اپنے ان مقاصد میں کامیابی ہوئی جب انجم خالق نے اگلی نشست اپنے گھر میں اپنی مرحومہ والدہ، عذرا جمال ( حریم ادب کی روح رواں تھیں ) کی یاد میں منعقد کرنے کی آفر کی۔ تو کئی خواتین یہ کہتی سنائی دیں کہ آئندہ جب بھی نشست ہو ہمیں ضرور بلائیے گا۔۔۔ تو ہوسکتا ہے کہ اگلے اجتماع عام میں ہم ادبی کنونشن بھر پور اور مکمل طریقے سے منعقد کرسکیں گے ان شاء اللہ۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply