سنہری یا دیں، روداد اجتما ع عام

27،28اور29 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے قریب مدینۃالعلم قرطبہ میں جماعت اسلامی پاکستان کا سہ روزہ اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس اجتماع عام میں 5لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ پاکستان کی 53سالہ تاریخ میں اب تک کل 10اجتماع ہوئے اور یہ اجتماع گیارہواں تھا۔ اس کی تیاری میں 500کارکنان نے مہینوں سے شبانہ روز جدو جہد کی جس کا نتیجہ اس کی کامیابی کی صورت میں نکلا۔ اس اجتماع کا  مقصد قرآن و سنّت کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل اور شریعت کے نظام کے قیام کا لائحہ عمل تھا۔ اجتماع عام کی کامیابی اﷲ رب العزت کی مدد اورجماعت کے قائدین و کارکنان کی مخلصانہ جدوجہد کا شاخسانہ تھی ورنہ لاکھوں افراد کے قیام و طعام کو ایک اجاڑ، ویران جنگل پر بسانا اور خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا کسی عام فرد کے بس کی بات نہ تھی۔

حقیقت تو یہی ہے کہ اجتماعیت پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ ان تین دنوں میں دیکھنے میں آیا۔ نیپال، بنگلہ دیش، سوڈان، سعودی عرب، افغانستان، غرض مختلف ممالک سے تحریک سے وابستہ مجاہدین کے قافلے قرطبہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ چکری موٹروے ایکسچینج کے پاس گاڑیوں کی کئی کلو میٹر تک پھیلی ہوئی قطار تھی جو موٹروے ٹیکس جمع کرانے کے لئے وہاں کھڑی ہوئی تھیں۔ گاڑیوں کا اتنارش موٹروے کی تاریخ میں کبھی بھی نہ ہوا تھا۔ ڈھائی ہزار کنال پر پھیلی ہوئی اس اجتماع گاہ کو چہار جانب سے حزب المجاہدین کے ہزاروں جوان اپنے مخصوص یونیفارم میں ملبوس حفاظتی حصار میں لئے ہوئے تھے اور نہایت مستعدی کے ساتھ رہنمائی کا فرض ادا کر رہے تھے۔ چکری انٹر چینج سے قرطبہ سٹی تک 100چوڑی اور 37کلو میٹر دور یہ سڑک تعمیر کی گئی تھی اور اس کی مرکزی گزرگاہ کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ خواتین اور مردوں کی رہائش گا ہیں اگر چہ ایک ہی راستے پر تھیں اور مگر دائیں اور بائیں طرف چلتے ہوئے دونوں کے قافلے شام تک اجتماع گاہ تک پہنچتے رہے۔ چکری انٹر چینج سے داخل ہوتے ہی “اہلا وّسہلا مّرحبا” قرطبہ میں آمد پر خوش آمدید کے بورڈ آویزاں تھے۔اجتماع گاہ سے پہلے اس کے مرکزی گیٹ پر اوپر پہاڑی پر سفیدی سے لکھے ہوئے “خوش آمدید”کے الفاظ قافلے والوں عزم و استقلال کی داد دے رہے تھے۔ قرطبہ سٹی کے مرکزی چوک پر “سید ابو اللعلیٰ مودودیؒ چوک” اور مین شاہراہ پر حسن البناء شہید کے الفاظ کندہ تھے۔ شاہراہ حسن البناء شہید کے دائیں اور بائیں دونوں طرف ذیلی شاہراہیں تھیں جن میں خواتین کی مرکزی شاہراہ کو حضرت خدیجۃالکبریٰ اور اس سے متصل حضرت زینب، حضرت عائشہ اورحضرت فاطمۃالزہرا شاہراہیں تھیں جبکہ مردوں کے حصے کی ذیلی شاہراہیں امام ابو حنیفہ ، امام بخاری، امام مالک اورامام شافعی کے نام سے تھیں۔ اجتماع گاہ میں ملک کے کونے کونے سے آنے والوں کی سہولت کے لئے پی سی اوکی سہولت موجود تھی۔ مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی چاروں طرف بینرز اور اس پر لکھے ہوئے اقوال اور احادیث کے منتخب جلے اپنی رونق دکھا رہے تھی۔ انتظامیہ اور شعبہ جات کی رہائش گاہیں علیحدہ تھیں۔ اسی طرح استقبالیہ کیمپ تھا جس میں ہر فرد کو اپنی رجسٹریشن کروانی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ترتیب کے مطابق اپنے ڈویژن میں رہائش اختیار کرنا تھی۔ اجتماع گاہ میں سب یکساں تھے۔کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہ تھی۔ اجتماع عام میں پنڈالوں پر مشتمل ایک بڑی اجتماع گاہ علیحدہ سے بنائی گئی تھی جس کے آگے خوب لمبا چوڑا اسٹیج بنایا گیا تھا۔

اسٹیج کی پشت پر اجتماع عام کا پیغام “ظلم سے پاک منصفانہ معاشرے کا قیام اور پیغام سنت کانفرنس” خوبصورت انداز میں تحریر تھا۔ ہر پنڈال پر کلوزٹی وی اور سلائیڈ لگائی گئی تھی تا کہ لوگ اسٹیج سے دوری کے باوجود اپنی اپنی نشت گاہوں سے اجتماع عام کی کارروائی بحسن و خوبی دیکھ سکیں۔باوجود اس کے کہ قرطبہ میں لاکھوں مرد وزن مع بچوں کے شریک تھے، کہیں گندگی کے ڈھیر لگے، اور نہ کہیں سے تعفن اٹھا۔ صحت و صفائی کا عمدہ انتظام تھا۔ اسی طرح مثالی نظم و ضبط کا مظاہر ہ دیکھنے میں آرہا تھا۔ اپنے ساتھی سے ایثار، انکساری کے ساتھ گفتگو، کھانے کی تقسیم کے وقت دوسروں کا خیال ایک مثالی قیادت کے کارکنان میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔ مطبخ سے کھانا شرکاء اجتماع کے لئے ٹریکٹر ٹرالیوں کے ذریعے آتا تھا۔ بچوں کے لئے علیحدہ دودھ منتظمین کی جانب سے کیمپوں میں بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ علیحدہ کیمپ میں گیس کے چولہے بھی لگائے گئے تھے جو صرف شیر خوار بچوں کے لئے مخصوص تھے کہ مائیں ان میں دودھ ابالنے ، فیڈر ابالنے یا غذا بنانے کا کام لے سکیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں گاڑیوں کے ذریعے پانی کا چھڑکاؤ کر کے مٹی کو دبایا جارہا تھا۔ کچرے کے ڈرم بھرتے ہی گاڑیاں انہیں اٹھانے آجاتی تھیں۔ بیت الخلاء کا نظام عمدہ تھا۔ پانی کی تنگی نہ تھی۔ سینکڑوں فٹ نیچے بورنگ کروا کر اس پانی کو وضو وغیرہ کے لئے مختص کیاگیا۔ جبکہ پینے کا پانی علیحدہ تھا۔ اس کے علاوہ منرل واٹر بھی عام تھا ۔ اجتماع میں بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بے انتہاء قوت کے حامل جنریٹر لگائے گئے تھے۔ جگہ جگہ برقی قمقموں اور ٹیوب لائٹس سے اجتماع گاہ بقعہ نور بنی ہوئی تھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اپنے اپنے کیمپ میں بھی اجتماع کی کارروائیاں با آسانی سنائی دے رہی تھیں۔ قرطبہ کی عارضی خیمہ بستی میں ایک بڑا بازار بھی لگایا گیا تھا جہاں انواع و اقسام کی اشیاء کے علاوہ لذتِ کام و دہن کا بھی معقول انتظام تھا۔
افتتاحی روز نماز جمعہ قاضی حسین احمد کی معیت میں ادا کی گئی۔ جس کے بعد اجتماع کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن ونعت رسول مقبول ﷺ کے بعد افتتاحی خطاب ہوا اور بعد از مغرب امیر جماعت اسلامی کی صدارت اجتماع ارکان تھا۔ جبکہ دیگر شرکاء کے لئے علیحدہ پروگرام تھے۔

دوسرے روز جہاد فی سبیل اﷲ کے موضوع پر درسِ حدیث تھا جبکہ خواتین کیمپوں میں ڈاکٹر کوثر فردوس اور دوسری خواتین رہنماؤں کا درسِ حدیث تھا۔ ناشتہ، تیاری اور ملاقاتوں کے بعد 9بجے سے کارکنان کو خواتین کانفرنس کی تیاری کے لئے مستعد کر دیا گیا۔ اس کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین بھی شریک ہوئیں۔خواتین کی اس عالمی کانفرنس میں مختلف اسلامی ممالک مین کام کرنے والی تحریک اسلامی سے وابستہ خواتین نے بھی شرکت کی۔ محترمہ عابدہ نصراﷲ صاحبہ نے اپنے مخصوص دلنشین انداز سے کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا۔ پھر جامعات المحصنات کی طالبات نے “اسلام غالب آئے گا” کا ترانہ پیش کیا جبکہ ڈاکٹر کوثر فردوس نے بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے مضمرات سے آگاہ کیا۔

محترمہ عائشہ منور نے اس کانفرنس سے حطاب کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب ہمیشہ قوت کے زیر اثر آتا ہے اور قوت مڑ جانے کا نام نہین بلکہ موڑ  دینے کا نام ہے۔ جو لوگ اپنا کوئی نظریہء حیات نہ رکھتے ہوں اور زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے لئے تیار ہوں وہ کبھی انقلاب نہیں لا سکتے۔ انقلاب صرف وہی تحریکیں برپا کرسکتی ہیں جن کا ایک نظریہ ہو اور جن کی کوششیں بھی اجتماعی ہوں۔ خواتین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قاضی صاحب نے خواتین کونسل کے قیام کا اعلان کیا جن کے ارکان میں ڈاکٹر زیتون، ڈاکٹر عفت جان، ڈاکٹر امینہ ناز، ڈاکٹر سلمیٰ کفیل،ڈاکٹر فرزانہ اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت شامل ہیں۔ اس دوران روزنامہ جسارت کے اسلام آبادسے اجراء کی خوشی میں اجتماع عام پر ہوائی جہاز سے پھولوں کی ہزاروں من پیتاں نچھاور کی گئیں اور مبارکباد کی پرچیاں بھی پھینکی گئیں۔ ہوائی جہاز نے اجتماع گا ہ کے کئی چکر لگائے اور شرکاء کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔

اجتماع کے تیسرے روز اہم پروگرام”اتحاد امت کانفرنس” کا ہوا۔ اس میں تمام ملکوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور مشائخِِ عظام نے شرکت کی۔ ایک ایسے وقت جبکہ ہر طرف مسلمانوں کو ہدف بنا کر انہین صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بنائے جارہے ہوںتو ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ علماء کرام اپنی صفوں کو درست کرتے یوئے اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ پیش کریں۔ اس اتحاد امت کانفرنس میں3گھنٹے تک علماء کرام نے سخت تپش اور آندھی کی پرواکئے بغیر جماعت کے قائدین کے ساتھ اپنے جذبات پیش کئے اور آخر میں نمازِ ظہر ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنی امامت میں اد کی۔ آخر میں اجتماعی دعا امیر جماعت اسلامی نے نہایت رقت آمیز انداز میں کرائی۔ اس دعا میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شامل تھے۔ پاکستان کی سلامتی، اسلام کی بالادستیاور پاکستان میں اسلامی نظام کے نافذ ہونے کی دعا مانگتے وقت قاضی صاحب آبدیدہ ہوگئے اور لاکھوں لوگوں کو رلا گئے۔ اختتام کے بعد قافلے والوں کی واپسی شروع ہوگئی۔ آبدیدہ آنکھوں سے لوگوں نے الوداعی نگاہ اجتماع گاہ اور اس کے اطراف پر ڈالی۔ اس قرب کو محسوس کیا جو تین دنوں میں ساتھ رہنے سے بڑھ گیا تھا۔ اس سمے اپنے آپ کو اﷲ کے نزدیک جانا کہ یہ ہے زندگی کی  حقیقت۔ وہ بستی آنکھوں کے سامنے بسی اور پھر اجڑنے لگی۔ یہ دنیا بھی ایک دن اجڑ جائے گی۔ کون جانے کس کا کیا انجام ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دنیا کی زندگی کی دلفریبیوں میں اپنے آپ کو مت غم کر لیں۔ اپنا رشتہ قلبی تعلق صرف ذاتِ واحد سے لگالیں۔ اسی کی رحمت کے متلاشی ہوں اور ان لوگوں کا ساتھ نصیب ہو جو دین کے متوالے ہوں۔ اﷲ ہمارا اور آپ کا اس شاہراہ پر ساتھ چلنے میں مددگار ہو۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply