عالمی یوم حجاب، کیوں منائیں؟

world-hijab-day22004 ء میں جب فرانس میں حجاب پر پابندی کا قانون منظور ہوا تو عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میں امت مسلمہ کے جید عالم اور قابل احترام مفکر علامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں یہ فیصلہ ہوا کہ ہر سال 4 ستمبر کو یوم حجاب منایا جا ئے گا اور اسی سال سے اس کا آغازہوا۔

الحمد للہ جماعت اسلامی پاکستان جو اسلامی تحاریک کی صف میں نمایاں حیثیت و مقام رکھتی ہے۔ روز اوّل سے ہی اسے باقاعدہ طور پر منارہی ہے۔ دس سال کے دوران ابتدائی عرصے میں یہ دن چونکہ رمضان المبارک میں آتا رہا اس لیے اسے بھر پور طریقے سے شاید نہ منایا جاسکا۔ لیکن عوام میں پذیرائی کے بعد اسے بہت پرجوش طریقے سے پورے پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ اس میں نوجوانوں کی شرکت اور تعلق بہت امید افزا ہے کہ وہ دوسری خرافات میں الجھنے یا کسی خلاء کا شکار ہونے کے بجائے اپنے شعار کے تحفظ کے لیے متحرک ہوں! اپنی اقدارو روایات کا تحفظ اور اشاعت بحیثیت مسلمان یوں تو ہم سب فرض ہے مگر اس فرض کفایہ پر جماعت اسلامی کا کردار قابل تحسین ہے۔

اس سلسلے میں مختلف پروگرامز ہوتے ہیں جن میں پچھلے سال واک منعقد ہوئی جس میں خواتین و طالبات کی اکثریت نے شرکت کی۔ اس حوالے سے ایک ممتاز صحافی خاتون نے ایک بلاگ لکھا جس میں بہت سے نکات اٹھائے مثلاً:

آخر حجاب کے لیے صرف ایک دن کیوں مختص ہو؟ حجاب ایک فیشن انڈسٹری بن چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ آئندہ چند سالوں میں حجاب کی اصل روح کو بہا لے جائے گا۔ جماعت حجاب ڈے کے حوالے سے سیاست چمکا رہی ہے! حجاب کے حوالے سے سعودی عرب آئیڈیل معاشرہ ہے مگر وہاں ایسی کوئی مہم نہیں نظر آتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس بلاگ پر کافی تبصرے ہوئے جن کا محترمہ نے جواب دینے کی کوشش کی۔ ہم نے بھی ان کے اعتراضات کی روشنی میں ایک بلاگ لکھا مگر تیزی سے ایشو تبدیل ہونے کے با عث بر وقت آن لائن نہ ہوسکا اوروقت گزرنے کے بعد جواب دینا اس مکے کی مانندہے جو لڑائی کے بعد یاد آ ئے۔ یہ سوچ کر اپنی رائے محفوظ رکھی لیکن اب جب یہ موقع ایک بار پھر آیا تو ضروری محسوس ہوا کہ ان کے اٹھائے ہوئے نکات کی وضاحت کی جائے تاکہ ان کی نہ سہی کچھ اور لوگوں کی ذہن سازی ہوسکے!

حجاب کے لیے ایک دن مخصوص کرنا یہودیوں کا ایجنڈا ہے!اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں! حجاب کی اتنی تشہیر کیوں؟
عرض یہ ہے کہ اقوام متحدہ تو ابھی ساٹھ ستر سال پہلے بنی ہے اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ہی توجہ دلانے کے لیے دن اور عشرے مخصوص کیے تھے! جی ہاں! عشرہ رحمت، مغفرت، جہنم سے نجات۔۔۔ پھر عرفہ کا دن۔۔۔ یوم جائزہ۔۔۔ لیلۃالقدر۔۔۔ اللہ کی رحمت تو عام ہے! ہمیشہ ہے! پھر یہ دن اور عشرے کیوں ہمارے اسلامی کیلنڈر میں ہیں؟ جی ہاں!زیادہ سے زیادہ متوجہ کر نے کے لیے! یہ ہی بات حجاب کے لیے ہے۔ پردہ قرآن کا حکم ہے بالکل عبادات کی طرح! تو جس طرح نماز روزے کی فضا بنانی پڑتی ہے، اجتماعی طور پر اس کی اہمیت اور فضیلت بیان کی جاتی ہے اسی طرح حجاب اور حیا کا تذکرہ عام کیا جاتا ہے مسلمان اور غیر مسلمانوں کو متوجہ کرانے کے لیے! ہفتہ صفائی، ہفتہ اخلاق وغیرہ وغیرہ کے پیچھے بھی یہی نظریہ ہوتا ہے! اوراس مہم کے نتیجے میں کسی خاص ایشو کے حوالے سے بڑی معلومات عام افراد تک پہنچتی ہیں اور ان ایام کے منانے کا مقصد بھی یہ ہی ہوتا ہے۔ یہ UNO عیسائیوں، یہودیوں کی تقلید و تلقین نہیں بلکہ سنت کا طریقہ کار ہے!

جماعت اسلامی اس موقع کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔۔۔ اول تویہ صرف جماعت اسلامی کا انفرادی فیصلہ نہیں ہے بلکہ انٹرنیشنل اسلامک ایسوسی ایشن کا فعال رکن ہوتے ہوئے اس کے کیلنڈر کو followکر رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جماعت اسلامی پاکستان چونکہ ایک متحرک اور فعال جماعت ہے لہذا اس کی سر گرمیاں زیادہ سامنے آ تی ہیں۔ اس پاسبانی پر توجماعت کا مشکور ہونا چاہیے کجا کہ تنقید! ویسے جماعت اسلامی سے بغض کی وجہ کچھ ذاتی بھی ہے یعنی اپنی کسی برقعہ پوش جماعت سے تعلق رکھنے والی ساتھی کی کسی غیر مسلم ملک کو روانگی ہے۔۔۔ اور اس حوالے سے ان کے بارے میں فکر مندی کہ وہ وہاں کی اقدار اورقوانین کی پاسداری کا حلف اٹھانے کے بعد کس طرح وہاں اپنے پردے کو قائم رکھے ہوئے ہوں گی! ان کی پریشانی کی بڑی قدر ہے لیکن جہاں تک دوسرے غیراسلامی مملک کے قوانین کے احترام کا تعلق ہے تو وہاں آ کر بسنے والے تو جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق وہاں کے رنگ ڈھنگ میں ڈھل گئے ہیں، اور جو اپنے آبائی اقدار کو پکڑے ہوئے ہیں وہ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، وہاں کے قوانین کو چیلنج تو اصل میں مقامی نومسلم باشندے کر رہے ہیں! ان کے مطابق یہ ان کا ملک ہے اور انہیں اپنے دینی اقدار کے ساتھ جینے کا پوارا حق ہے! ملاحظہ ہو!

خود مذکورہ بلاگ میں بھی فرانسیسی خاتون کی ایک با پردہ تصویر اسی حوالے سے ہے۔ اس حوالے سے ایک تصیح بھی کرنی ہے کہ مروۃ الشربینی کا قتل جرمنی میں ہوا تھا فرانس میں نہیں اور دوسرے یہ کہ عالمی یوم حجاب منانے کے چار سال بعد یہ قتل ہوا۔ یہ بات درست نہیں کہ قتل کے رد عمل کے طور پر یہ دن منانا شروع کیا گیا۔( تفصیل بلاگ کے آ غاز میں ہے)۔

اس بلاگ میں کچھ ایسی تصویریں لگائی گئیں جو حجاب کے قدرے منافی نظر آئیں۔۔۔ جب کسی مہم میں عوام الناس کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے تو کچھ نہ کچھ بے قاعدگی بھی نظر آتی ہے۔ پورے مظاہرے کی روح کو نظر انداز کر کے صرف اس کو نمایاں کرنا صحافتی بد دیانتی کے زمرے میں آتی ہے۔ تصویروں کے انتخاب پر ضرور غور کرنا چاہئے!

جہاں تک معصوم بچوں کو حجاب پہنانے پر اعتراض ہے تو بچوں کو مانوس کرنے اور ترغیب دلانے کے لیے نماز بھی پڑھوائی جاتی ہے۔ ان پر نہ فرض ہے اور نہ سمجھ میں آ تی ہے مگر پھر بھی دینی اقدار رکھنے والے گھرانے فخریہ بچوں کی نماز پڑھنے کی سرگرمیوں کو نمایاں کرتے ہیں کہ حوصلہ افزائی ہو! اسی طرح سے مسلمان بچی کو اگر حیا کے مطابق رسماً ہی سہی اسکارف پہنانے میں کوئی حرج نہیں! یہاں پر ایک بات ضرور کہنی ہے ہالی وڈ اداکارائیں اپنی شیر خوار بچیوں کو مکمل برہنہ رکھتی ہیں کہ ان کے اندر سے فطری حیا ختم ہو! آخر ان کو مستقبل میں یہ ہی کرنا ہے تو پریکٹس کرہے۔۔۔ توتر بیت کا آغاز تو بچپن سے ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے ایک اور منظر کشی کی ہے کہ سٹی اور بیکن ہائوس قسم کے اداروں سے بے حجاب بچیاں کھلکھاتی ہوئی نکلتی ہیں جبکہ دینی مدارس سے باحجاب سہمی ہوئی بچیاں نکلتی ہیں۔ اس قسم کے تفاوت کی اور بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر چونکہ اسی ضمن میں بات کہی گئی ہے تواسے بھی موضوع کا حصہ بنانا ہے۔ ایک ایسی خاتون جس کی اپنی DP پر باحجاب تصویر ہو وہ اس اسلامی شعار کو باعث شرم سمجھے، ایک تضاد ہے جو نہ سمجھ میں آئے! ادھورا لباس اگر مزاج پر اثر ڈالتا ہے تو بے حجابی کی راہ اپنا ئی جائے؟ میں حیرت زدہ ہوں!

ایک اور بات! باحجاب خواتین کی علامت کے طور پر بے نظیر بھٹو اور ملالہ کی تصاویر بھی ناقابل فہم ہیں! ان دونوں کے حجاب کے حوالے سے کوئی قدر مشترک نہیں! دوپٹہ سر پر رکھنا بے نظیر کی سیاسی مجبوری کہی گئی لیکن یہاں ہم اس بات پر اصرار نہیں کرتے کہ وہ اپنا نا مہ اعمال لے کر دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ لیکن ملالہ کی حوالے یہ ضرور کہنا ہے کہ وہ نہ سیاسی رول ماڈل ہے نہ اسلامی، نہ نظریاتی نہ معاشرتی! اسے کسی بھی طرح اس بحث میں نہیں داخل کرنا چاہئیے!

آ خری بات۔۔۔ سعودی معاشرہ کسی بھی لحاظ سے ایک آئیڈیل معاشرہ نہیں! نہ سیاسی، نہ اخلاقی، نہ معاشرتی اور نہ ہی تہذیبی! ان کا رہن سہن کتنے تضادات کاشکار ہے۔۔۔ کون نہیں جانتا؟

ہمیں تو صرف اور صرف مدینہ کی بستی کو رول ماڈل بنانا ہے کہ جب پردے کا حکم آیا تو بیبیوں نے کیا کیا؟ اگر مگر کا کام نہیں! بس عمل!
یہ ہمیں نو مسلم خواتین میں نظر آ ئے تو وہی قابل رشک ہیں بجائے ان کے جو conventional حجاب پر اصرار کر رہی ہیں!

اگر کوئی مذکورہ بلاگ دیکھنا چاہے تو یہاں سے پڑھ سکتا ہے
Demands freedom of the right
آزادی رائے کا احترا م مگر جب بلاگ کی صورت میں کسی خاص واقعے اور جماعت پر تبصرہ کیا جا ئے تو اس کے مندرجات پر اختلاف، تبصرہ قاری کا حق ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مندرجہ بالا بلاگ پر تبصرہ کیا ہے!

فیس بک تبصرے

Leave a Reply