11، ستمبر کا ہم سے تقاضا۔۔۔

jinnahپاکستان کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اا ؍ ستمبر ۱۹۴۸ء پر پہنچ کر ہر پاکستانی کی آ نکھ اشک بار ہوجاتی ہے ! یہ وہ دن ہے جب دنیائے اسلام کا ایک عظیم لیڈر اور مخلص رہنما، بانی ء پاکستان ’’ قائد اعظم محمد علی جناح ‘‘ ہم سے جدا ہوگئے۔ آہ !! اس عظیم رہنما کاسایہ اس نئی مملکت کے سر پر زیادہ دیر نہ رہا اور پاکستان بننے کے صرف بارہ ماہ اور ۲۷ دن بعد ہی اس عظیم ہستی نے سب کو الوداع کہہ دیا۔

ہمیں اپنی قسمت پر فخر کر نا چا ہیے کہ ہمیں ایک ایسے رہنما ملے جن کی قیادت میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی مملکت بن کر ابھرا ،مگر ہماری یہ بد نصیبی کہ اس نوزائیدہ مملکت نے ابھی آ نکھ کھولی ہی تھی کہ اللہ ربّ العزت نے انہیںواپس بلا لیا۔شاید جس مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ اس کو با احسن و خوبی انجام دے چکے تھے۔
زندگی کے آخری ایّام میں انہوں نے جو کچھ فر ما یا وہ بھی اس بات کی عکاسی کر تے ہیں ۔آپ نے فر مایا:

’’ قومیں نیک نیتی ،دیانتداری، اچھے عمل اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیاں ، منافقت ، زبر دستی اور خود پسندی سے تباہ ہوجاتی ہیں! میں نہیں جا نتا میری قوم کون سا راستہ اختیار کرے گی ۔البتہ میں نے اپنا فرض پورا کیا۔آگے پاکستان کوچلانا اس قوم کا کام ہے۔۔۔‘‘

آپ اپنا فرض تو پورا کر چکے تھے مگر اس کے باوجودآپ کو اس ملک کی انتہائی فکر تھی ۔پاکستان بننے کے بعد آپ اس بات کاجا بجا اظہار فر ماتے تھے ۔آپ نے کئی مواقع پر فر مایا :

’’پاکستان تو بن چکا مگر اس کی تعمیر ابھی باقی ہے ۔اس کی بنیا دیں ابھی مضبوط بنانی ہیں ‘‘

مگر افسوس کہ ہم آ زدای کے بعد سے ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں ۔ اس کی بنیا دوں کو مضبوط کرنے کے بجائی مزید کھوکھلا کر رہے ہیں ۔ آزاد ہونے کے با وجود ابھی تک غلامی اور محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیوں؟ وجہ شاید یہ ہی ہے کہ ہم نے اپنے ضمیر کو مار ڈالا ہے ،ہم اپنے قائد کے فر مودات ہی کو بھول چکے ہیں۔طرہّ یہ کہ ہم یہ بات فراموش کر چکے ہیں کہ یہ ملک کس نظر یے کی بنیاد پر اور کس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ہم نے اپنے اسلاف کے کارناموں اور روایات کو پس پشت ڈال کر غیروں کی روایات کو مقدم بنا لیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم آج تک ایک مضبوط قوم نہ بن سکے!

قائد اعظم کو اپنی اس قوم سے بہت ہی توقعات دابستہ تھیں ۔چنانچہ آپ ؒ نے ۱۴؍ اگست ۱۹۴۸ء کو اپنے ایک خطاب میں کہا :

’’ مجھے اپنے لوگوں پر پورا اعتماد ہے کہ ہر ضروری موقع پر اٹھیں گے ، مجھے اپنے ماضی کی قیمتی اسلامی تاریخ ، اس کے حسن و جمال اور اس کی روایات پر بھی پورا یقین ہے۔۔۔‘‘

زندگی کے آ خری ایام میں انتہائی تکلیف کے عالم میں انہوں نے فر مایا:

’’تم جانتے ہو جب مجھے یہ احسا س ہوتا ہے کہ پا کستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے، یہ مشکل کام تھا میں اکیلا نہیں کر سکتا تھا مگر میراایمان ہے کہ یہ رسول خدا ﷺ کا روحانی فیض تھا کہ پاکستان وجود میں آ یا ۔اب یہ پا کستا نیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کانمونہ بنائیں تا کہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی باد شاہت دے۔ ‘‘

قائد اعظم کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ پاکستان خلافت راشدہ کا نمونہ بنے مگر حیف ! صد حیف کہ ہم سب کچھ فراموش کر بیٹھے ۔ اسلامی تاریخ کو یاد رکھنا تو ایک طرف ہمیں تو اپنے قائد کے فر مودات اور ان کی اس ملک کے لیے دیرینہ خواہشات تک یاد نہیں۔
۱۱ ؍ ستمبر کا دن اس لیے نہیں آ تا کہ ہم اپنے قائد کا ذکر کریں، ان کے کا رنا مے یاد کریں اور بس۔۔۔ بلکہ یہ دن ہم سے تقاضہ کر تا ہے کہ ہم اس بات کا عہد کریں کہ ہمارے بز رگوں نے قائد کی قیادت میں ہمیں اس ملک جیسی عظیم نعمت سے فیض یاب تو کر دیامگر اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی بنیا دیں مضبوط کریں ، اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں! یہ نہیں کہ صرف ماضی کے کارناموں کو یاد کر کے دل بہلائیں۔
؎ وطن کی فکر کر نادان ! مصیبت آ نے والی ہے
تری بر بادیوں کے تذ کرے ہیں آ سمانوں میں

اگریہ قوم اپنی بے حسی و جمود کو توڑ ڈالے ، اپنے ضمیر کو بیدار کر لے اور مخلص ہو کر اپنے ملک کے لیے خود کو وقف کر دے تو وہ دن دور نہیں جب یہ دنیا کا مثالی ملک بن جائے اور جس کی طرف آ نکھ اٹھا کر دیکھنے کی جراء ت کسی کو نہ ہو گی ۔ قائد اعظم اپنی قوم کو دنیا کی سب سے عظیم قوم سمجھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ یہ قوم سب کچھ کر سکتی ہے۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں اپنے ایک خطاب میں انہوں نے فر ما یا :

’’ آپ کو اسلامی جمہوریت ، اسلامی معاشرتی مساوات اور انسانی برابری کی ترقی کے لیے اپنی سر زمین پر بے لوث محافظ بننا ہے۔ ایمان، تنظیم، اور اپنے فرض کے ساتھ بے لوث لگائو کے ذریعے ایسی کوئی چیز نہیں جسے تم حاصل نہ کر سکو۔۔۔‘‘

اب ضرورت صرف اس امرکی ہے کہ ہم با با ئے قوم کی تعلیمات کو سمجھیں اور ان کی تعلیمات کو عام کر تے ہوئے ان کی روشنی میں اس مملکت خداداد کی منزل کا تعین کر کے اس کی تعمیر کریں اور ان کے خواب کی عملی تعبیر پیش کریں۔

فیس بک تبصرے

11، ستمبر کا ہم سے تقاضا۔۔۔“ ایک تبصرہ

  1. غمازِ حقیقت ہے،ہر لفظ ِمضموں تیرا
    آباد خدا رکھے،یہ جذبۂ و جنوں تیرا

    ابن حبیب حقی گولڑوی

Leave a Reply