میرا درد نغمہ بے صدا

child-rapeایک بار پھر کچھ انسانی بھیڑیوں نے میرا بدن ادھیڑا ہے۔میں اسپتال کے بستر پر اپنے ہی خون میں لت پت زندگی کی سانسیں گن رہی ہوں۔ ہوش سنبھالنے پر انسانوں کی دنیا سے میرا پہلا تعارف یہ ہوا ہے کہ یہاں انسانی بھیڑیے بستے ہیں جو ہر لمحے میمنوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

 

تم نے میری ماں کی آنکھیں دیکھی ہیں؟ پھٹی پھٹی، دہشت زدہ ڈبڈبای آنکھیں۔ اور مرے باپ کی زندگی سے محروم ، پتھرائی ہوئی، خشک، بے اعتبار آنکھیں۔ میری مجروح روح اپنے ماں باپ کے ہلتے لبوں کو محسوس کر رہی ہے، جو میرے مر جانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔

 

بہت سے لوگ مجمع لگاۓ، امتحانی پرچوں جیسے مشکل سوالات لئے، کیمروں کے ساتھ ہمارے گرد منڈلا رہے ہیں۔ تاکہ ہمارے وجود اور ہماری کہانی کو لوگوں کے ذہنوں میں اتنی اچھی طرح سے نقش کر دیں ، کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ ہمیں یاد رکھیں۔ ترس کھاتے ، ترحم اور حقارت سے لبریز نگاہوں والے لوگ۔ یہ سب ہم کو خوب اچھی طرح یاد رکھیں گے، اور اگر میں بچ گئی،تو کل ان کی خشمگیں نگاہوں میں میرے لئے نفرت اور بے گانگی ہو گی۔جب میں ان کی بیٹی کے ساتھ کھیلنا چاہوں گی تو وہ اسے کھینچ کر مجھ سے یوں دور لے جائیں گے جیسے میں کوئی اچھوت ہوں، جسے کوئی متعدی بیماری لاحق ہو۔ مرے لئے نہ ان کے گھروں میں کوئی جگہ ہوگی نہ دلوں میں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ دھکے دے کر ان سب کو یہاں سے دور ہٹا دوں، جنھیں نے مرے لہو لہان بدن کی پرواہ ہے، نہ مردوں سے بدتر میرے ماں باپ کے جذبات کا احساس۔ ان سب کو یہاں سے دور ہٹا دوں تاکہ مرے ماں باپ اطمینان سے میری موت کی دعائیں مانگ سکیں۔

 

تم کہتے ہو، کہ موت کی دعائیں نہ مانگو، ہم تم کو انصاف دلائیں گے۔ذمہ داروں کو بے نقاب کریں گے اور مجرموں کو سزا دیں گے۔ میرے ماں باپ کی آنکھوں کی بے یقینی و بے اعتباری یہ سوال کرتی ہے کہ کیا واقعے ایسا ہو سکے گا؟

 

اس معاشرے میں جہاں اے روز کتنی معصوم بچیاں اور بچے اور عورتیں ہوس پرستوں کا شکار بنتی ہیں ، اور قانون کے محافظ، سپاہی، منصف۔ حکمران، آرام اور چین کی نیند سوتے ہیں۔کیا واقعی یہ سپاہی ان درندوں کو گرفتار کر پایں گے؟ ، وہی سپاہی جن کے ہوتے دن دہاڑے لوگ لٹتے ہیں، قتل ہوتے ہیں، برباد ہوتے ہیں، اور مجرم ہمیشہ نامعلوم رہتے ہیں؟ اور اگر وہ گرفتار ہو گئے، تو کوئی امیر وزیر، افسر، سیاست دان، وڈیرہ ان کا رشتہ دار بن کر ان کو بچا نہیں لے جاے گا؟ اور اگر ان پر مقدمہ چلا تو ان عدالتوں کا گلا سڑا نظام مدتوں اس مقدمے کو نہیں گھسیٹے گا؟ ظالم کو مہلت اور مظلوم کو تھکن کے سوا کچھ اور بھی ملے گا؟ جنگلوں سے بدتر جن معاشروں میں ظالم کو یقین ہو کہ اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں، تو وہ کیوں نہیں پوری ڈھٹائی اور بے خوفی سے جرم کرتا چلا جائے۔

 

اور کیا کسی کا دھیان اں شیطانی کاروبار کرنے والوں کی طرف بھی جاےگا جو صبح و شام چمکتی سکرینوں پر ظلم وتشدد اور فحش مناظر سے بھرپور فلمیں چلا کر رکھتے ہین۔ ٹیوی اور کمپیوٹر پر شیطانیت کا ایسا جہنم بھڑکایا جاتا ہے جس میں حرمت، حیا، شرافت، پاکیزگی رحمدلی، انسانی رشتوں کا تقدس غرض یہ کہ ہر لطیف جذبہ اورانسانی اقدار جل کر بھسم ہو جاتی ہے۔ اس جہنم سے اپنے اندر چھپے شر کو اور بھڑکانے والے کتنے ہی ذہنی مریض بھیانک بلاؤں کی صورت بستیوں میں پھیل جاتے ہیں۔ ایسے ذہنی مریضوں کا شکار کمزور بچے اور عورتیں ہی ہوتی ھیں۔ ان عفریتوں کی جھلساتی نگاہوں کی تپش میں ہر ان ہمارے وجود کو جھلساتی ہے۔ کوئی ہے جو ان کو روکے؟ کوئی ہے جو ان کی آگ کو بھڑکانے والوں کے گریبان پکڑے؟

 

وہ خدا جو مجھے یقین دلاتا ہے کہ ایک روز اے گا، جب زندہ گاڑی لڑکی سے پوچھا جاے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی۔ اس خدا اور اس کے حضور جوابدہی کے اس یقین کو جس سے بڑھ کر کوئی چیز انسان کو ظلم سے باز رکھنے والی نہیں، کون دلوں میں اتارنے والا ہے۔ کون ہے جو خدا کی تعلیمات کے ذریعے انسان کی بہیمتوں کو دبانا اور روحانی بلندیوں کی طرف لے جانا سکھاے؟۔ نہ والدین، نہ استاد، نہ ادارے نہ معاشرے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے پیٹ اور فرج کی بھوک کو مٹانے کی خاطر اندھادھند بھاگا جا رہا ہے۔ اور بھوک ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔

 

ہماری بستیاں ایسا جنگل بن گئی ہیں، جہاں انسانوں کو شر سے روکنے کے لئے نہ کوئی خارجی قوت موجود ہے نہ ہی داخلی۔ جس کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار کے سرکش گھوڑے کی لگامیں ہیں،وہ اس کے سموں تلے راہ میں انے والے ہر کمزور کو روندتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں مظلوموں کی بے اعتبار نگاہیں یہ سوال کرتی ہیں، کہ کیا تم اس یتیموں ، مظلوموں اور عورتوں کے نجات دہندہ کی مانند زندہ گاڑی جانے والیوں کو بچا سکو گے؟ کیا واقعے تم وہ وقت لا سکو گے، جب ایک عورت تنہا صںعا سے حضر موت تک ، سونا اچھالتی سفر کرے، اور کوئی اسے نہ تنگ کرے؟

 

اگر تم مجھے یقین دلا سکو تو ٹھیک ہے، ورنہ ہمیں تنہا چھوڑ دو کہ میرے ماں باپ میری موت کی دعا کریں۔۔۔ کہ ایک روز تو آنا ہی ہے جب سوال کرنے والا مجھ سے سوال کرے گا۔۔ “تو کس قصور میں ماری گئی؟”

فیس بک تبصرے

میرا درد نغمہ بے صدا“ پر 8 تبصرے

  1. khuda pocha ga un zalimo koo ALLAH insaf karna wala ha……………sooo heart touching

  2. ایسے واقعات کی وجو ہات پر ضرور بات ہونی چاہئیے۔ جب تک حیا کاکلچر عام نہیں ہو گا ایسی معصوم کلیاں یونہی درندوں کے منہ کا نوالہ بنتی رہیں گی۔ گھر، تعلیمی ادارے،معاشرہ، ماحول اور حکومت سب ذمہ دار ہیں اور سب سے بڑھ کر بے لگام میڈیا جس نے ہر ادارہ کی تربیت کو پائمال کر دیاہے۔

  3. سنبل بےچاری کے ساتھ تو ہو چکا، پریشانی یہ ہے کہ معاشرے کی لاکھوں سنبلوں کو محفوظ بنانے کیلیٔے اب تک پہلا قدم بھی نہیں اُٹھا تھا۔۔۔۔ جویریہ سعید کا شکریہ کے اس پہلو پر بھی توجہ مبذول کروادی- اب یا تو معاشرہ، حکومت، ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے کردار اور ذمہ داریوں کا حق ادا کریں یا پھر سوسائٹی کی مکمل تباہی کا انتظار۔۔۔

  4. Another thing that exacts our attention and reflection is the present escalation in such heinous crimes. I personally believe that the reasons behind this sick infestation are quite obvious: 1. The scarcity of moral education, and 2. Delay in or lack of retribution/punishment. Furthermore, these days even some parents and schools appear to be least bothered about their children’s/students’ conduct. Such negligence only sparks further disruption of the society. Another aspect that demands our undivided attention is the role of media in our lives. I will be very assertive and direct about my opinion: Our media is unbelievably detrimental in its content. Instead of streaming and propagating healthy subjects, preference is given to unhealthy and corrupting materials. Such course of things only sicken the already diseased minds of the assailants rampant in our society. Yes, rape entails a huge discourse on power and gender dynamics, but, let us not forget the sickness that is omnipresent in our media. It does fuel the wicked hearts and minds of those morbid aggressors.

  5. بےلگام میڈیا پر بہترین انداز سےتنقید

  6. جس ملک میں قانون نام کی چیز بازاروں ، چوراہوں اور اسمبلیوں میں بکتی ہو ، جس ملک کے منصف ہی اندھے گونگے بہرے ہوں اور وزرائ نامی مخلوق انسان نما درندوں ، بھیڑیوںکے سرپرست ٹھہریں وہاں ہمیشہ ایک غریب ، مظلوم لاچار ہی ان کا شکار ہوتے ہیں ، یہ درندے دن دہاڑے اپنے شکار پر جھپٹتے ہیں، چاہے کیمرے کی آنکھ انہیں دیکھ رہی ہو انہیں کسی بات کا خوف نہیں ہوتا ۔
    سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
    خداوند جلیل و معتبر دانا بینا و منصف اکبر
    ہمارے شہر میں اب
    جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر
    لیکن یہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا کس ڈگر پر چل نکلا ہے کسی سانحے میں مرنے والوں اور کسی بھیڑیے کی درندگی کا شکار ہونے والی معصوم بچی کے گھر پہنچ کر بھونڈے سوالات کرتے ہیں جن سے ٹی وی کے سامنے بیٹھا انسان بھی جھنجھلا اٹھتا ہے ایسے میں وہ اہل خانہ کیا محسوس کرتے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آخر دوسروں کی خبر رکھنے والوں کی خبر کون لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہماری بہن نے اس پر جو لکھا وہ ہر درد دل رکھنے والے کی آواز ہے

  7. یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ہر روز سینکڑوں واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔اور سینکڑوں سُنبل گھٹ گھٹ کے مرتی اور جیتی ہیں۔ہماری قوم کو اجتماعی توبہ کر کے اِسلامی قوانین اور تعزیرات کے نفاذ کی طرف آنا ہو گا۔مجرموں کو اِسلامی قوانین کے مطابق سزائیں ملیں گی تو جرائم کی ذہنیت رکھنے والے لوگ عبرت پکڑیں گے۔اللہ سے دعاء ہے کہ اِس مصیبت زدہ خاندان پر رحم فرمائے

  8. اس درد اور گہرائی سے لبریز تحریر کو حکومت وقت سمجھ سکے ت ہر مسائل کا حل موجود ہے ۔۔۔۔۔سنبل بچاری تو وہ لڑکی جو میڈیا کی ریٹنگ کے لئے بروقت مل گئی ورنہ اورکتنی سنبل ہیں آس پاس ہم نہیں جانتے ۔۔۔
    جویریہ بہن جیتی رہیں ۔۔۔۔۔اللہ استقامت دے آپکو

Leave a Reply