پردہ۔۔۔ عورت کا محافظ

hijabعورت ! تاریخ انسانی کا وہ کردار ہے کہ جس کو ہر دور میں مختلف زاویوں سے اپنے کردار کے مظاہر پیش کرنے کے مواقع ملے ہیں اور تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کردار کے گرد افراط و تفریط کی کھینچ تان کا عجیب سلسلہ نظر آتا ہے۔یہ عورت کبھی تو ماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی ہے تو کبھی بیوی کی حیثیت سے زندگی کے نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے۔ کبھی خادمہ یا لونڈی کے کردار کے دورا ن بازاروںمیں اس کی خرید و فروخت کی جاتی ہے تو کبھی اسے گناہ و ذلت کا مجسمہ سمجھ کر معاشرتی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ مگر جب اس عورت کو ترقی دی جاتی ہے تو یہ مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر انسانیت میں بد اخلاقی و بد نظمی کا طوفان کھڑا کر دیتی ہے، حیوانی خواہشات و جسمانی تسکین کے وقتی حصول کا آلہ بن جاتی ہے اور یوں عورت کی ترقی کے ساتھ ہی انسانیت کے گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

 

تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر قدیم اقوام کی تہذیبوں پر نظر ڈالیء جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی تنزلی کی وجہ یہ عورت ہی رہی ۔ یونانی تہذیب میں عورت کو آغاز میں ملکہ کی حیثیت حاصل تھی۔شریف یونانیوں کے ہاں پردے کا رواج تھا، زنان خانے مردان خانوں سے ملحق نہ تھے۔ نکاح کے ذریعے ایک عورت کا مرد سے وابستہ ہونا شرافت کا مرتبہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یونان خوب ترقی کے زینے پر قدم رکھ رہا تھے اور عورت سے جو پاکیزگی مطلوب تھی، مرد اس سے مستثنیٰ تھے۔ رفتہ رفتہ جب اہل یونان پر نفس پرستی اور شہوانیت کا غلبہ ہوا تو ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقے تک عورت کا کردارہر ایک کی نگاہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ فلاسفر، شعراء ، اہل ِ ِ ادب، ماہرین فن اور اہل دانش طبقہ غرض یہ تمام سیارے اسی ایک آفتاب کے گرد طواف کرتے نظر آتے۔اس تہذیب میں جب آرٹ کو فروغ حاصل ہوا تو فحش لٹریچر ، شہوت پرستی اور عریا ں نمونۂ آرٹ اس کی پہچان بن گئے۔ اخلاقی پستی اس عروج پر پہنچی کہ قحبہ خانے عبادت گاہ میں تبدیل ہو ئے اور فاحشہ عورتیں قابل پرستش بن گئیں اور زنا ترقی کر کے ایک مقدس مذہبی فعل کے مرتبے تک پہنچ گیا ۔ پھر تاریخ نے یہ شہادت دی کہ اس قوم کو دوبارہ کبھی عروج نسیب نہ ہوا۔

 

ومی تہذیب کی داستان بھی یونانیوں سے کچھ مختلف نہ رہی۔ آغاز میں عورت کو مرد کے زیر اثر رکھا گیا۔ عصمت و عفت کے الفاظ عورت کا معیار شرافت تھے۔ اس تہذیب میں عورت کو ماں کی حیثیت میں سب سے زیادہ عزت کا مستحق سمجھا گیا لیکن جب رومی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوئے عورت معاشی اعتبار سے آزاد و خود مختار ہو گئی او ر مرد مال دار عورتوں کے عملاََ غلام بن گئے ۔ پھر روم میں طلاق کی لین دین کوئی قابل شرم بات نہ رہی ، پھر عورتیں اپنی عمر کا حساب اپنے شوہروں کی تعداد سے لگاتی تھیں۔ مرد و زن کے اخلاط کے لیے نکاح کی کارروائی بے معنی ہو گئی اور زنا ناقابل مذمت فعل بن گیا۔ جب اخلاقیات کے بند ٹوٹے تو عریانی ، شہوانیت اور فواحش کا سیلاب آیا اور فحش لٹریچر اور ننگی تصاویر گھر گھر کی زینت قرار پائیں حتیٰ کہ مرد وعورت کا یکجا غسل کرنا بھی ایک رواج بن گیا ۔یوں پوری رومی تہذیب اس سیلاب کی زد میں ایسی آئی کہ اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی۔

 

مسیحیت نے جب مغربی دنیا کو سہارا دیا تو عورت کو گناہ کی ماں اور بدی کی جر گردانا اور اسے مرد کے لیے جہنم کا دروازہ بنا دیا۔ پھر یہ عورت شیطان کی آلۂ کار بن گئی ۔ اس پست سوچ کا یہ نتیجہ نکلا کہ عورت اس معاشرے کے لیے قابل نفرت اور اچھوت ذات سے بھی ادنیٰ درجے کا کوئی گھناؤ نا وجود بن گیا۔

 

انسانیت نے جب عورت کو ایک طرف فحاشی و عریانی کا مجسمہ بنا کر اور دوسری طرف ہر برائی کی جڑ قرار دینے کا جرم کرنے کے بعد بھی جب اس معاملے میں اعتدال نہ پایا تو جدید یورپ میں شخصی آزادی کا نعرہ بلند کیا گیا جس کے تحت عورت کومعاشی ، منعاشرتی اور تمدنی اعتبار سے مرد کے مساوی کھڑا کر دیا گیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ عورت خانگی زندگی کے ساتھ ساتھ دفتروں، بازاروں ، کھیل کے میدانوں شراب و کباب کی محفلوں اور تفریحی مشاغل کا مرکز و محور بن گئی ۔ پھر اسے معاشی استقلال کے لیے مرد کے سہارے کی ضرورت نہ رہی۔ جب’’ خوش حال‘‘ زندگی گزارنے کے لیے اس کے پاس روپے کی بہتات اور جنسی تسکین کے حصول کے کھلے مواقع ہیں تو آخر کیوں وہ اپنے آپ کو ایک خاندانی زندگی کے حصار میں جکڑ دے۔؟کیوں اپنے اوپر اخلاقی و قانونی بندشیں عائد کرے؟پھر کیوں وہ آزاد شہوت رانی کا آسان ،پرلطف اور خوشنما راستہ چھوڑ کر قربانیوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ سر پر اٹھاتی پھرے؟ اس احساس نے مغربی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور پوری دنیا نے یہ دیکھا کہ کس طرح مغربی دنیا میں عورت ایک بکائو مال بن گئی۔ نمود و نمائش کے جذبے نے اسے بنائو سنگھار پر لگایا ۔پھر مخالف صنف کے لیے مقناطیس بننے کا جذبہ اتنا فروغ پایا کہ لباس میں شوخی اور مزاج میں مستی عود آئی اور دوسری طرف مرد کی طرف سے ہل من مزید کا مطالبہ جاری رہا جو جذبات کی آگ کو مزید بھڑکانے کا موجب بنا۔ رہی سہی کسر فن و ادب کے دلدادہ افراد نے بے حیائی کے فروغ کے ذریعے پوری کردی۔

 

افراط و تفریط کی ان بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے اگر کوئی نسخۂ اعتدال ہے تو وہ اسلام کا تصور پردہ ہے جو عورت کو اس کے فطری تقاضوں کے مطابق تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن قسمت کی ستم ضریفی یہ ہے کہ یورپ کی ذہنی غلامی میں جکڑ جانے کے بعد مسلم معاشرے میں بھی پردہ کا مسئلہ ذاتی پسند و ناپسند کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ جو بحثیں آج مغربی دنیا میں کی جاتی ہیں اس کے کچھ مظاہر مسلم معاشرے میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ لہٰذا پردہ کے تصور سے متعلق ذہنی شبہات کا خاتمہ مسلم معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔

 

لفظ عورت کی تعریف کی جائے تو عورت اصطلاح میں جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جس کا ظاہر کرنا موجب شرم ہے۔
لہٰذا جس ذات کے معنی میں ہی شرم و حیا کا عنصر موجود ہو اسے کیوں کر تسکین نظر کا سامان بنا یا جا سکتا ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر اسلام میں عورت کے لیے پردہ کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
قرآن ِ مجید میں پردہ کے احکام سے متعلق ارشاد ہے کہ
قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ط ذالک ازکیٰ لھم ط ان اللہ خبیر بما یصنعون و قل للمومنٰت یغضضن من ابصار ھن و یحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظہر منھا ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او اٰبآئھن او اٰبآء بعولتھن او ابنائھن او ابناء بعولتھن اواخوانھن او بنی اخوانھن اوبنی اخواتھن اونسائھن اوماملکت ایمانھن اوالتابعین غیر اولی الاربہ من الرجال اوالطفل الذین لم یظھرو علیٰ عورٰت النساء ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن ط وتوبوا الی اللہ جمیعاََ ایہ المومنین لعلکم تفلحون۔( سورۃ النور:۳۱-۳۰)

 

’’ اے نبی مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ اور اے نبی ؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ا ور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے ، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر، باپ، شہروں کے باپ، اپنے بیٹے ، شہروں کے بیٹے، بھائی بھایوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے لوندی غلام ، وہ زیر دست مرد جو کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔‘‘

 

یہاں مومن عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور آرائش زینت سے باز رہنے کا حکم دیا گیاہے ، پھر اسی موضوع سے متعلق ارشاد فرمایا کہ
’’ نبی کی بیویوں،تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کروکہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے۔ بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت ِ نبی ؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘
ان آیات قرآنیہ پر غور کیا جائے تو جہاں مردواں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے احکام ہیں وہاں عورت کو اس سے زیادہ احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فساد کی ابتدا چونکہ نگاہ بد سے ہوتی ہے لہٰذا حکم دیا گیا کہ نگاہیں نیچی رکھو تاکہ گناہ کی طرف اقدام کی نوبت ہی نہ آئے۔
’’ حضرت بریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ؐ اللہ سے پوچھا کہ اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ نظر پھیرلو ‘‘ ( ابو داؤد ، باب مایو مر بہ من غض بصر)

 

اظہار زینت کے حوالے سے بھی یہ تاکید کردی گئی کہ کن کن کے سامنے محدود دائرے میں زینت کا اظہار ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ دیگر حلقے میں زینت کا اظہار نہ کرو بلکہ چلتے ہوئے پائوں بھی زور سے نہ مارو کہ چھپی ہوئی زینت ،آواز سے ظاہر ہو جائے۔
سورۃ الاحزاب کی انسٹھویں آیت میںمزید فرما یا کہ:
’’ اے نبی ؐ ،اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔‘‘
ٍ یہ آیت خاص چہرے کو چھپانے سے متعلق ہے اور قرآن مجید کے تمام مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیا ن کیا ہے۔ اس حکم کا منشاء یہ بتایا گیا کہ اس عمل سے ظاہر ہو جائے گا کہ یہ مسلمان اورشریف عورتیں ہیں، بے حیا نہیں۔ لہٰذا کوئی نفس خبیث ان کے منہ کو نہ آئے گا۔ اس معاشرتی برائی سے بچنے کے لیے محسن انسانیتؐ نے جو تعلیمات دی ہیں ان میں جس حد تک باریکی کا خیال رکھا گیا ہے وہ پردہ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

 

امام احمد اور طبرانی نے ام حمید ساعدیہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ
’’ انہوں نے عرض کیا ، یا رسول ؐ اللہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ ؐ کے ساتھ نماز پڑھوں ۔ حضور ؐ نے فرمایا مجھے معلوم ہے مگر تیرا ایک گوشے میں نماز پرھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے حجرے میں نماز پڑھے اور حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھر کے دالان میں نماز پڑھے اور تیرا دالان میں نماز پرھنا اس سے بہترہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے اور تیرا اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ جامع مسجد میں نماز پڑھے۔‘‘
اس حکم کا مقصد صرف برائی کے اندیشے سے بچانا تھا مگر ایسے پاکیزہ کام کے لیے ایسی پاک جگہ پر آنے سے عورتوں کو منع نہ فرمایا۔ حدیث میں یہ اجازت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔’’ اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو مگر ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
حج کے موقع پر بھی یہ احتیاط برتی جاتی تھی کہ حضرت عمر ؓ نے طواف میں عورتوں اور مردوں کو اخلاط سے روک دیا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مرد کو آپ نے عورتوں کے مجمع میں دیکھا تو پکڑ کر کوڑے لگائے۔ یہ ساری تعلیمات اس لیے دی گئیں تاکہ مسلم معاشرے کو بے حیائی اور بے حجابی کی گندی وباء سے بچایا جا سکے۔

 

یہ اہل مغرب مسلمان مردوں پر ، خواتین پر تشدد ، ناانصافی اور بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگانے کاالزام لگاتے ہیں ۔ پوری دنیا کو جھوٹے میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلامی ممالک میں عورتوںکے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے لیکن اس کے بالکل برعکس مغرب میں عورت کو حاصل ہونے والی نام نہاد آزادی نے اس سے اس کے بنیادی حقوق تک صلب کر لیے ہیںاور عورت اس معاشرے میں کھلونا بن چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ہر سال ایک کروڑ ۲۵لاکھ خواتین گھیرلو تشدد کاشکار ہوتی ہیںجبکہ ۸۰ ہزار خواتین کی ہر سال بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ویمن اینڈ فیڈریشن برطانیہ کے مطابق ہر ایک سو شادیوں میں سے ایک خاتوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جا تا ہے۔ قتل ہونے والی ۴۰ سے ۴۵ فیصد خواتین اپنے مرد ساتھیوں کا شکار بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مہذب ترین شہر لندن میں ۸۰ ہزار سے زائد خواتین طوائف کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس میں ۸۵ فیصد عورتیں جسمانی تشدد ، جبکہ ۴۵ فیصد جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور سوئڈن میں شادیوں کی تعداد میں ۹۰ فیصد کمی آئی ہے اور پیدا ہونے والے ۷۰ فیصد بچے ناجائز پیدا ہوتے ہیں ۔ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری مرد ، بن بیاہی ماں کے گلے ڈال کر غائب ہوجاتا ہے اور مائوں کی اکثریت بچوں کو حکومت کے حوالے کر کے یا گلی کوچوں میں پھینک کر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو جاتی ہے۔

 

نام نہاد انسانی حقوق کا چیمپین امریکہ کا حال بھی کچھ کم نہیں کہ جہاں امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ہر ایک منٹ پر کسی نہ کسی امریکی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے جبکہ سالانہ ۴ لاکھ سے ۵ لاکھ تک زیادتی کے مقدمات درج کروائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دوگنی تعداد ایسی ہے جو پولیس کے پاس جانے کے بجائے خاموش رہتی ہے یعنی امریکہ میں12لاکھ سے 15 لاکھ تک عورتوں کی سالانہ آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی عمر بارہ سال سے کم ہوتی ہے۔ خود امریکہ کے اپنے سروے کے مطابق 60 سے70 فیصد خواتین کو ان کے شوہر جسمانی تشد د کا نشانہ بناتے ہیں۔

 

یہ ہے مغرب کی نام نہاد روشن خیالی اور آزادی کا بھیانک اور ڈرائونا چہرہ جس کو تہذیب ، ادب اور ثقافت کا خوش نما لبادہ اڑا کر مسلم دنیا پر مسلط کیا جا رہا ہے۔کیوں کہ دوسری طرف ان کی یہ جاہلیت پر مبنی تہذیب خود ان کے معاشرے میںبے چینی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں جب فطرت کے خلاف معاشرت پروان چڑھی تو سسکتی انسانیت کو کسی جائے پناہ کی ضرورت محسوس ہوئی اور انسانیت نے دین فطرت کی طرف رجوع کیا اور آج امریکہ و یورپ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ اسلام کی آغوش میں آکر اس مظلوم انسانیت کو ظلم و بربریت سے نجات ملی اور مسلسل بڑی تعداد میں مغربی خواتین اسلام کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔

 

اس کے بر خلاف مغرب بے حیائی کے ہتھیاروں سے لیس ، اب اپنا نشانہ مسلم دنیا کو بنا رہا ہے، تاکہ مسلم معاشرے کی اقدار و ثقافت کو کھوکھلا کر دیا جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی سازش کے تحت آج کی مسلمان عورت اپنے ستر کی حدود بھی پوری کرتی نظر نہیں آتی اور مسلمان عورت کا عجیب ہی طرز عمل ہے۔ اس نے لباس پہنا تو ایسا کہ جو ستر کی حدود بھی پوری نہیں کرتا۔ فیشن کا نام دے کر باریک ، چست اور تنگ کپڑوں کو زیب تن کیا ، دوپٹہ لیا تو اس ڈھنگ سے کہ نہ بال چھپ سکتے ہیں نہ ستر کو پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے۔شلوار قمیص جیسے مہذب لباس کا سہارا لے کر حدود اللہ کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔

 

مغربی ذرائع ابلاغ اپنا پورا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ کسی طرح عورت کو اس کی چار دیواری سے نکال باہر کیا جائے۔ اسی سازش کا عملی ثبوت یہ شہر کراچی میں لگے بے ہودہ اور عریاں سائن بورڈز ہیں جن پر بنت حوا اپنے برہنہ جسم کی نمائش کرتی دو روپے کی ٹافی یا بسکٹ کی تشہیر کرتی پائی جاتی ہے۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ شہوت پرستی کی داستانوں سے بھرے ہندو مذہب کے پیروکار پڑوسی ملک بھارت کی غیر مسلم آوارہ ماڈلز مسلم خواتین کو فیشن سے متعارف کروا رہی ہیں ۔ ان کے ناز و انداز اس قدر بے ہودہ ہیں کہ مائیں بیٹیاں سڑک سے گزرتے سر اٹھا کر ان پر نظر نہیں ڈال سکتیں۔ اس سے بڑھ کر بے غیرتی اور بے حسی کا ثبوت ہمارا میڈیا دے رہا ہے جو حقوق نسواں کا نام نہاد علمبردار بنا پھرتا ہے اورآئے دن پسند کی شادی جیسے ڈرامے تراش کر بچیوں کو غلط راستے دکھا رہا ہے۔ اس پر جلتی کو تیل دکھانیوالے کام یہ موبائل نیٹ ورک کمپنیاںکر رہی ہیں جن کی مرہوں منت آج ہر نوجوان کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے جس سے وہ اپنی غیرت کا قتل کرنے کے در پہ ہے۔ اب بیٹی کے بستر پر ایک نہیں ،کئی لڑکے موبائل فون کی صورت اس کے ساتھ موجود ہیں ۔

 

لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو ایمانی جذبہ سے سرشار امت مسلمہ کی با حجاب عزت مآب مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں اپنے کردار اور عمل سے یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ان کا آئیڈیل یورپ کی بد چلن، بد کردار اور شرم وحیاسے عاری ،بے باک مرد نما عورتیں نہیں بلکہ خدیجہ ؓ ، فاطمہ ؓ اور عائشہ ؓ جیسی باحیا ء وباکردارامہات المومنین اور صحابیات رسول ؐ ہیں کہ جن کو جنت کی خواتین قرار دیا گیا ہے اور ان کی پاکیزگی کا عالم یہ ہے کہ فرشتے بھی ان پر فخر کرتے ہیں۔ان خواتین ِ اسلام میں کوئی خدیجہ بھی ہے ، کوئی عائشہ بھی ہے اوران ہی میں کوئی فاطمہ بھی ہے جو صرف ان ناموں کی نسبت کے سہارے زندگی نہیں گزار رہیں بلکہ ان کا عمل اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ روز محشر خواتین جنت کی صفوں میں شامل ہونا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔

 

امت مسلمہ ان مائوں کی طرف اس امید سے دیکھ رہی ہے کہ یہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں اور جتنی قوت اور تنظیم کے ساتھ اس برائی کو پھیلایا جا رہا ہے، اس سے بڑھ کر قوت مجتمع کر کے اس بے حیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھیں۔ اس کے لیے عورت کو ہی اپنی ذات سے آغاز کرنا ہوگا۔

 

ورنہ یہ سیلاب ہماری معاشرتی قدروں کو تنکوں کی طرح بہا لے جائے گا اور انسانی تاریخ کا ایک اور باب عورت کی اٹھان کے ساتھ اس معاشرے کے زوال کی صورت رقم ہو چکا ہوگا۔

فیس بک تبصرے

پردہ۔۔۔ عورت کا محافظ“ ایک تبصرہ

  1. بہت اچھا علمی اور تحقیقی مقالہ ہے! واقعی امت مسلمہ کی عورت کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیا دہ ہےکہ وہ پاکیزگی کا ماحول پیدا کرے اور اسکی طلب اور تڑپ بھی۔ بھٹکی ہوئی انسانیت کی پیاس جس مصفا چشمے سے مٹے گی وہ صرف اسلام کے پا س ہے

Leave a Reply