مصنوعی درویشی

مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ (صحابہ کرامؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، اور نہ محض اِس غرض سے اپنے لباس، مکان اور خوراک کا معیار کم تر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری، سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے، اور جس اصول کے پابند تھے وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں، مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں، رزقِ حلال حاصل کریں اور راہِ خدا کی جدوجہد میں بہرحال ثابت قدم رہیں، خواہ اس میں فقروفاقہ پیش آئے، یا اللہ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نواز دے! جان بوجھ کر بُرا پہننا، جب کہ اچھا پہننے کو جائزطریق سے مل سکے، اور جان بوجھ کر بُرا کھانا، جب کہ اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے، ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں سے جن بزرگوں کو راہِ خدا میں جدوجہد کرنے کے ساتھ حلال روزی فراخی کے ساتھ مل جاتی تھی وہ اچھا کھاتے بھی تھے، اچھا پہنتے بھی تھے اور پختہ مکانوں میں رہتے بھی تھے۔ خوش حال آدمیوں کا قصداً بدحال بن کر رہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پسند نہیں فرمایا، بلکہ آپؐ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمھارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند فرماتا ہے۔۔۔

 
شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نعمتیں صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کا کام کرنے کے بجاے اپنا کام کرتے رہیں۔ رہے خدا کا کام کرنے والے ، تو وہ خدا کی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں۔ یا پھر شاید ان کے دماغ پر راہبوں اور سنیاسیوں کی زندگی کا سکّہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ دین داری کے ساتھ رہبانیت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں، اس لیے کھاتا پیتا دین دار ان کو ایک عجوبہ نظر آتا ہے۔

(رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۱۔۲،رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ء، ص ۱۰۵)

فیس بک تبصرے

Leave a Reply