منصب امام مہدی

یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے نام سے دین میں کوئی خاص منصب قائم کیا گیا ہے جس پر ایمان لانا اور جس کی معرفت حاصل کرنا ویسا ہی ضروری ہو جیسا انبیاء پر ایمان لانا، اور اس کی اطاعت بھی شرط نجات اور شرط اسلام و ایمان ہو۔ نیز اس خیال کے لیے بھی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ مہدی کوئی امام معصوم ہوگا دراصل یہ معصومیت غیر انبیاء کا تخیل ایک خالص شیعی تخیل ہے جس کی کوئی سند کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے۔

 
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے اور جن امور پر انسان کی نجات موقوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ اور قرآن میں بھی ان کو کچھ اشارۃ و کنایۃ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ان علینا للھدیٰ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو اس کا ثبوت قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمان صحت ہے نہ کہ علم یقین اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کرسکتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کردیا جائے۔ ایسے امور کی نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرمائے، اللہ کا رسول انہیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہرہر مسلمان تک پہنچادیئے گئے ہوں۔

 
اب مہدی کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہو۔ یہ حثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوچار آدمیوں سے اس کو بیان کردینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آپ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جو شخص علوم دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ باور نہیں کرسکتا کہ جس مسئلے کی دین مین اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبار احادیث پر چھوڑا جاسکتا تھا اور اخبار احاد بھی اس درجہ کی کہ امام مالک اور امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ
رسائل و مسائل، جلد اوّل

فیس بک تبصرے

منصب امام مہدی“ پر 6 تبصرے

  1. سیدابوالاعلٰی مودودی کی کسی تحریر پر تبصرہ عجیب سی بات لگتی ہے۔گو کہ یہ تحریر ایک سوال کے جواب میں لکھی گئی ہے۔لیکن امام مہدی کے منصب کو سمجھنے کیلئے ایک جامع تحریر ہے۔

  2. syed alaihe rahma ki kia shan hay mashaAllah Allah ke is mujahid nay zabardast kaam kia hay

  3. السلام علیکم،
    برادرِعزیز! یہ اتفاق ھے کہ مودوی کی مندرجہ بالا تحریر میری نظر سے پہلے کبھی نہیں گزری.برادر امام مہدیّ کہ حوالے سے مودودی تو کیا بہت سے شیعہ اسکالرز کا مطالعہ کمزور ھے.قرآن میں مہدیّ تو کیا دجال کا بھی ذکر موجود نھیں. مزید نہ تو حضرت علیّ، حضرت فاطمہّ، امام حسنّ اور امام حسینّ کا ذکربھی موجود نھیں.اسی طرح جس کا بھی ذکر قرآن میں نہ ہو اس کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے.قرآن میں صاف صاف تحریر ہے کہ اس میں دو قسم کی آیات ہیں ایک محکم اور ایک متشابہ اور جو متشابہ کے پیچھے پڑے گا وہ گمراہ ہو جائے گا. اب ایک آیت کا حصہ ہے”اللہ کی اطاعت کرواور اسکے رسول کی اور اوللآمر کی”)سورہ نسا4:59. اللہ اور رسول تئ محکم ہے اور جھگڑا اوللامر پر ہے اہلِ سنت کا زور ہے کہ یہ صحابہ میں سے ہیں. شیعہ کہتے ہیں کےیہ اہلِبیت میں سے ہیں. صحابہ اور اہلِبیت کی تعریف دونوں طبقوں میں مختلف ہے. لیکن کربلا ایک ایسی جگہ ہے کہ جو حق اور باطل کو جدا کر دیتی ہے. جو واضح کر دیتی ہے کہ رسولِ خدا کہ بعد کون ہے جواہل ہے کہ اسکے ہاتھ میں اسلام کی باگ ڈور ہونی چاہئے. حسینّ جیسے کہ ہاتھ میں یا یزید جیسے کہ ہاتھ میں. اگر رہبر حسینّ جیسا ہوگا توپیرو دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوگا ورنہ یزید کی طرح رسوا ہوگا.قرآن میں آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں موجود ہیں اسی طرح رسول اللہ کے اقوال میں بھی پیشگوئیاں ہیں. رسول اللہ نے کربلا کی بھی پیشگوئی کی تھی اسی لیے امام حسین کا مقام اپنی زندگی میں واضح کیاجس نے جانا اور مانا اسکے انجام میں اور اور انکار کرنے والے کے انجام میں فرق صاف ظاہر ہے. اب چاہے یزید لاکھ دعویٰ کر لے کہ میں مسلمان ہوں مجھے جنت میں جانا چاہئے. کیا اللہ کے رسول ایسے شخص کی شفاعت کریں گے؟ کیا مسلمانوں کا خلیفہ بن جانا جنت میں جانے کا معیارہے؟ امام مہدیّ اور دجال بھی رسول اللہ کی پیشگوئی ہے.اسلام میں انبیا معصوم ہوتے ہیں ،ورنہ دوسرے مذاہب انبیا کی عصمت کے قائل نہیں، آپ کا کیا ایمان ہے؟ اوریہ بھی آخر دور میں حضرت عیسیٰ ّ امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے. آپ خود بتائیں افضل کون ہوگا؟ جو انسان اپنے انجام کو بہتر کرنا چاہتا ہوگا وہ کربلا کا بھی مطالعہ گا اور مہدی ّ کی بھی تحقیق کرے گا.

    وسلام

    کاشف زیدی

  4. مزید یہ کہ کسی بھی طبقے میں امام مہدیّ کو نہ ماننے سے کوئی کافر یا مسلمان نہیں ہوتا. ہاں…….کل انکا ساتھ دینے یا انکی مخالفت کرنے سے ضرور فرق پڑ سکتا ہے. جس کے لیے ضروری ہے کہ آج علم حاصل کیا جائے.

    • جناب کاشف زیدی صاحب،
      صرف ایک لمحہ کے لیے فرض کرلیجیے، اور فرض کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ حضرت مہدی کا ظہور ہوتا ہے کعبہ کے پاس ظہور ہوتا ہے ، ابدال اور قطب انکے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت کرتے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے آنے والا سفیانی لشکر بیدا کے مقام پر دھنسا دیا جاتا ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ حضرت مہدی نا ہی کوئی نئی بات کررہے ہیں اور نا ہی اہل بیت اور نا ہی اپنی ذات کی طرف بلا رہے ہیں بلکہ وہ تو وہی بات کر رہے ہین جو چودہ سو سال پہلے نبی کریم ﷺ فرما چکے ہیں اور صرف صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف بلا رہے ہیں ۔ نا ہی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ وہی مہدی ہیں جو سامرا کے غار میں کئی سو سال سے روپوش تھے بلکہ وہ کسی بھی انسان بشمول انبیاء کی طرح عام انسان ہیں جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے امت مسلمہ کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ان سارے فاسد عقائد جن کی نا کوئی اصل ہے اور نا ہی عقل جن میں رجعت کا عقیدہ سر فہرست ہے، باطل قرار دے دیں تو کیا تب بھی آپ کے خیالات یہی ہونگے جو اس وقت ہیں؟

  5. السلام علیکم ما ذکرعبارت منصب امام مھدی کے بارے یہ کلمات مودودی علیہ الرحمہ کےھرگزنھین وہ توخود سید تھے بارہ امامون کےقاٰئل تھے تو کیسے ؟ مسلمانون کوچاھیے رسول اللہ (ص)کے فرمان کے متابق کہ میرے بعد بارہ جانسین ھونگے تو ماننا پڑے گا کہ یا تو امام علی تا امام مھدی تک12 ھین یا پھرحصرت ابوبکر،حصرت عمر، حصرت عسمان ،حصرت علی ،معاویہ ،یذید،الی آخر فتامل یا خاالمسلین حوالہ صحاح ستتہ ،ابن تیمہ

Leave a Reply