قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ اوّل)

”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل۔ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا،ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔“ (قائداعظم ؒ کا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس سے خطاب،8مارچ 1944)

بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ برصغیر میں جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو دراصل وہ ایک قوم سے نکل کر دوسری قوم کا فرد بن گیا، اور اسی دن ہندوستان میں دو قومیں بن گئیں تھیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ ہندو اور مسلمان کی علیحدہ قومیت کا یہی تصورمطالبہ پاکستان، قیام پاکستان کا محرک تھا اور یہی تصور 23مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک قرارداد کی صورت میں پیش کیا گیا جس کوقرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

دو قومی نظریہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی ذہینت یا آئن اسٹائن کے دماغ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے کے باجود مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہیں اور وہ کبھی بھی ایک قومیت نہیں رہے. اس بات کو یوں سمجھئے کہ ہندو اور مسلمان ایک ندی کے دو کنارے ہیں جو ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اور انگریزوں کے دور اقتدار سے قبل ہندو اور مسلمانوں تقریباً ہزار سال یعنی دس صدیاں ساتھ رہے. ان دس صدیوں میں مسلمانوں نے یہاں حکمرانی کی، مسلمان حکمرانوں نے عمومی طور پر ہندوﺅں کے ساتھ انتہائی اچھا، مشفقانہ اور ہمدادانہ رویہ رکھا۔ سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے، برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد سندھ کے راستے سے ہی ہوئی تھی۔ عماد الدین محمد بن قاسم نے دیبل کے راستے سندھ میں قدم رکھا اور یہاں کے مقامی حکمران راجہ داہر کو شکست دیکر یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی. محمد بن قاسم چار سال تک یہاں رہا اور ان چار سالوں میں اس نے مقامی ہندﺅوں کے ساتھ اس قدر منصفانہ اور مساویانہ سلوک کیا کہ جب محمد بن قاسم یہاں سے واپس بلایا گیا تو مقامی ہندو ان کی جدائی کے تصور سے رونے لگے، معروف ہندوستانی مورخ ڈاکٹر تارا چند اپنی تصنیف ”تاریخ ہند“ میں رقم طراز ہیں کہ ”مقامی آبادی کو اس (محمد بن قاسم) نے جو ایک نیا ریاستی نظام اور فلاحی دروبست عطا کیا اس سے وہ محمد بن قاسم کی ایسی گرویدہ ہوئی کہ اسے ”لکھ داتا“ کہہ کر پکارتی اور اس کی (محمد بن قاسم کی) پرستش کو سندھ میںجابجا مندر وجود میں آگئے“ یہی ڈاکٹر تارا چند اپنی ایک اور تصنیف ”ہندوستانی تہذیب پر مسلمانوں کا اثر“ میں لکھتے ہیں کہ ”اسلام کے اثر سے ہندو قوم میں مبلغوں کا ایک گروہ پیدا ہوا اور انہوں نے اس کام کو اپنا نصب العین سمجھا جو مسلم صوفی کررہے تھے“ ایک ہندو مورخ اور محقق کے یہ الفاظ دراصل مسلمانوں کے حسن سلوک کا منہ بولتا ثبوت ہیں.

لیکن اس کے برعکس ہندوئں کو جب کبھی موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی، ہندوﺅں نے ہمیشہ مسلمانوں کو حملہ آور اور اجنبی سمجھا، اور جب بھی انہیں اقتدار و قوت حاصل ہوئی انہوںنے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ شیوا جی سے لیکر مہاتما گاندھی اور بال ٹھاکرے تک یہ ہندو قائدین ایک طرح کے جذبات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ غداری، پیٹھ میں چھرا گھونپنا اور مسلمانوں کو جبری طور پر ہندو بنانا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد یہ سلسلہ زیادہ تیز ہوا اور مختلف اداور میں ہندﺅں کی جانب سے مذہبی تحریکیں چلائی گئیں جن میں سے چند چیدہ چیدہ تحریکوں کا مختصر احوال ہم یہاں تحریر کررہے ہیں( دراصل انہی وجوہات کے باعث مسلمانوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم اور ہندو کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن ناگزیر ہے).

آریہ سماج تحریک:
یہ تحریک 1875ء میں انگریزوں کے زیر سایہ پروان چڑھی. یہ ایک سخت گیراور ہندو انتہا پسندانہ تحریک تھی جس کے تحت ہندﺅں کو غیرہندﺅں سے جدا کرکے اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی، اس بناء پر ہندو قوم کے لوگ از خود مسلمانوں سے دور ہوتے چلے گئے۔

گئو رکھشا تحریک:
یہ تحریک 1882ء میں شروع کی گئی تھی، آریہ سماج تحریک اور گئو رکھشا تحریک، دونوں ہی ممبئی کے رہنے والے سوامی دیا نندا سرسوتی نے شروع کی تھیں، اس تحریک میں گئو ماتا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تعصب پھیلا گیا تھا، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ گئو رکھشا تحریک مختلف اشکال میں آج تک جاری ہے۔ کہیں گئو ماتا کے نام پر، کہیں گئو شالا کے نام پر، کہیں گئو رکھشا کے نام پر، مسلمانوں نے ہزار سالہ دور میں ہندﺅں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی اور اس کا صلہ یہ ہے کہ بھارت کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں پر گائے کی قربانی کی پابندی ہے اور مسلمان عید الاضحی پر گائے کی قربانی نہیں کرسکتے۔

شدھی تحریک:
یہ تحریک بھی متعصب ہندوﺅں سوامی دیانندا سرسوتی اور اس کے شاگرد سوامی شردانند کی جانب سے 1920ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کے تحت غیر ہندوؤں بالخصوص مسلمانوں کو جبری طور پر اپنا مذیب تبدیل کرکے ہندو مت میں داخل کرنے کی تحریک چلائی گئی۔ ہندو مسلم اتحاد کی باتیں کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ انڈیا میں شدھی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے اور انڈین گورنمنٹ نے ان کے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کئے ہیں۔

ہندی تحریک:
یہ تحریک بنارس کے مقامی ہندو لیڈروں نے 1847ءمیں شروع کی تھی۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ اردو زبان ہندوستان سے شروع ہوئی اور اس کو مسلمان حکمرانوں نے فروغ دیا، اردو زبان سے قبل برصغیر میں ہندی یا پھر فارسی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی تھی لیکن اردو زبان کے آنے کے بعد برصغیر میں اس کو بے انتہا پذیرائی ملی۔ اردو زبان کے تیزی سے فروغ اور عامی مقبولیت کے باعث اس کو ہندوستانی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کے آنے کے بعد ہندی زبان کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔ اسی لئے متعصب ہندوﺅں نے ہندی زبان کا قضیہ کھڑا کیا اور اردو کی جگہ ہندی زبان کو فروغ دینے کی تحریک کا آغاز کیا، اپنی زبان کی حفاظت کرنا بہت اچھی بات ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہندوﺅں نے اس تحریک کی آڑ میں اردو رسم الخط پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کی اور اردو کو بھی دیونا گری رسم الخط میں لکھنے کی تحریک چلائی۔ متعب ہندوؤں نے برٹش گورنمنٹ کو درخواست دی کہ ہندوستان میں ہندی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ متعصب ہندﺅں کا یہ ماننا ہے کہ مسلمانوں نے اردو کو اپنے دور حکمرانی میں جبری طور پر مسلط کیا تھا اس تحریک کے باعث بھی مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوئے کہ ہندو اور مسلم ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ یہ تحریک بھی مختلف اشکال میں آج تک جاری ہے۔

راشٹریہ سیوک سنگھ:
اس تنظیم کی بنیاد 1925میں رکھی گئی اور اس کے بانی ڈاکٹر کیشو بلی رام تھے۔ بظاہر یہ ایک سماجی اور خدمت خلق کی تحریک ہے لیکن دراصل یہ ایک متعصب، متشدد اور مسلح تنظیم ہے۔ ورزش اور کسرت کے نام پر ہندو نوجوانوں کو لاٹھی چلانے کی تربیت دی جاتی تھی اور نوجوانوں کو لاٹھیوں سے مسلح کیا جاتا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران آر ایس ایس کے مسلح جتھوں نے مسلمانوں کی آبادیوں پرحملوں میں حصہ لیا۔ بدنام زمانہ متعصب انتہا پسند ہندو لیڈر لال کرشنا ایڈوانی (L.K. Advani) نے اپنی عملی زندگی کا آغازبھی راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک کارکن کی حیثیت سے کیا تھااور اسی دور میں ایڈوانی نے قائداعظم محمد علی جناحؒ پر ایک قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا جس کی ایف آئی آر حیدرآباد سندھ میں کاٹی گئی تھی۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، سنگھ پریوار، اور اس قسم کی متعدد ہندو انتہا پسند، دہشت گرد تنظیمیں آج بھی بھارت میں موجود ہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ سانحہ بابری مسجد، سانحہ گجرات، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، ممبئی حملے وغیرہ میں مبینہ طور پر یہی انتہا پسند تنظیمیں ملوث ہیں.

ایک جانب ہندوﺅں کا یہ انتہاپسندانہ اور متعصبانہ رویہ تھا دوسری جانب انگریزوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ انہوں نے حکومت ہندﺅں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے چھینی ہے اس لئے منطقی طور پر ان کو مخالفت کا سامنا بھی مسلمانوں کی جانب سے زیادہ تھا اگرچہ ابتداءمیں ہندﺅں نے بھی انگریزوں کے خلاف تحریک میں حصہ لیا لیکن بعد ازاں انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندﺅں کو زیادہ پذیرائی بخشنا شروع کی، ان کو ہر معاملے میں مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی گئی، خواہ وہ تعلیم کا میدان ہو، تجارت کا میدان ہو یا سیاسی میدان الغرض ہر جگہ مسلمانوں کو دبایا جاتا رہا اور ہندوﺅں کو زیادہ سپورٹ کیا جاتا رہا۔

یہی وہ حالات تھے جن کے باعث برصغیر کے مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ہم ایک ہزار سال تک بھی ہندﺅں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے باوجودان کی نفرت اور تعصب کا نشانہ بن رہے ہیں اور ہندو اور مسلمان ہمیشہ دو الگ الگ قومیں تھیں، ہیں اور الگ ہی رہیں گی۔ ان کو کبھی بھی ایک قوم سمجھنا سخت غلطی ہوگی۔ اسی باعث دو قومی نظریے نے جنم لیا۔

جاری ہے

حصّہ اوّل، حصّہ دوم، حصّہ سوم

فیس بک تبصرے

قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ اوّل)“ پر 2 تبصرے

  1. Pingback: قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ دوم) | قلم کارواں

  2. Pingback: قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد (حصہ سوم) | قلم کارواں

Leave a Reply