جشن ِ سالِ نو

تین معصوم کلیاں اور کچل دی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقین نہیں آیا ناں کہ۔۔۔۔۔۔۔اور واقعتا پائوں تلے کچل ڈالی گئیں!!!
اف اتنی سنگ دلی، شقی القلبی! وحشت وتشدد کی انتہا! آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالِ نو کی آمد پر جشن کیاہوا؟ غارتگری کا سامان ہوا۔

مگر ذرائع ابلاغ نے اس سنسنی خیز خبر کو چھپایا۔ دبیز پردے ڈالے رکھے۔ بریکنگ نیوز کی دوڑ نہیں لگی آخر کیوں؟ مساوات ِمردوزن کی چیمپین تنظیموں نے دم سادھ لیا۔ پیکرِنسواں کے بہیمانہ قتل پر دنیا بھر میں چیخ وپکار کے بجائے چشم پوشی اختیار کرلی تو کیوں؟؟ انسانی حقوق کے علم برداروں نے پراسرار خاموشی کی چادر تان لی، آگے بڑھ کر پریس کانفرنس کا اہتمام نہیں کیا نہ جانے کیوں؟

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بے خبر ذرائع ابلاغ چمک چمک کر معصوم جانوں کے اتلاف کو بااہتمام نشر کرتے، قوم سوگ مناتی، تقریب ماتم میں بدل جاتی، گھنٹوں، ہفتوں، مہینوںتک لواحقین کے بین سنوائے جاتے۔ مگر چونکہ یہ واقعہ دو مختلف مذہبی مکتبہ فکر کے درمیان تصادم کا نتیجہ نہیں ہے، کسی دینی ادارے یا جامعہ کی حدود میں پیش آیا، نہ ہی یہ معصوم کلیاں بنیاد پرست طالبان کی وحشت کا شکار ہوئیں! لہذا ذرائع ابلاغ، آزادیِ نسواں اورحقوقِ انساں کے محاذوں پر کوئی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی۔

بصارت اور سماعت سے محروم انسانوں تک کو’’خبرسنانے‘‘ اور’’دکھانے‘‘ کا دعوی دار ’’میڈیا‘‘ مہربلب رہا۔ دراصل ذرائع ابلاغ پر چھایا سناٹا چیخ چیخ کر اعلان کررہاہے ہمارا کنٹرول ان ہاتھوں میں ہے جو منفی جذبات کو پروان چڑھانے، سفلی جبلتتوں کو عریاں کرنے اور انسانی تہذیب کو منہدم کرنے کے منشور پر عمل پیراہیں۔ خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی گہری خاموشی بتا رہی ہے کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ کار یعنی ’’خاندان کی شکست وریخت اور معاشرہ میں انتشار‘‘ سے باہرہے۔ مغرب سے نظریات واقدار مستعار لینے والوں کو مغربی تہذیب کا گھنائونا گوشہ اکثر قابل ِذکرنہیں لگتا۔ اور وہ بخوشی اس کالک کو اپنے منہ پر ملنا چاہتے ہیں۔

خوشی منانا انسانی فطرت میںشامل ہے مگریہاں خوشی کا موقع اور خوشی کا طریقہ دونوں ہی قابلِ اعتراض ہیں۔ ہمارا ترقی کا پروردہ میڈیا ان کی بدصورتی کو نمایاں کیا کرتا اس کی قباحتوں کو اجا گر کیا کرتا، اس کے برعکس انتہائی ڈھٹائی سے قوم کی اہم ترین تقریبات کا درجہ دیتا ہے۔ یعنی عوامی امنگوں کا آئینہ دار نہیں ہے۔ اپنے قابلِ عمل تقویم کی موجودگی میں کفارکے کیلنڈرکو رائج کرنا، ان کے سالِ نو پر جشن منانا قوم کے شایانِ ِشان ہرگز نہیں۔ جہاں تک خوشی منانے کے طریقہ کا تعلق ہے توبے تکان، بے لگام، بے ہنگم تفریح کا تصور نہ تو ممکن ہے نہ ہی مطلوب۔

اسوۃ رسول ﷺمیں خوشی منانے کے نکات بھی درج ہیں۔ توحید، اخوت، سادگی، میانہ روی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایام بھی متعین ہیں،عیدالفطر اورعید الاضحی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شور شرابہ، ناچ گانا، ہلڑبازی سے شروع ہوکر رقص و سرور، فواحش اور اسفل ترین حرکات پاکستانی معاشرت کی عکاسی نہیں کر تی ہیں اور نہ قوم اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ہیجان انگیز موسیقی، اختلاطِ مردوزن، ذومعنی اشتہارات، فحاشی، بے حیائی کا پرچار ایک نظریاتی مملکت کے لئے سم ِقاتل ہے۔ مگر میڈیا اس کے مضمرات پر زوروشور سے بحث کیوں نہیں کرتا؟ ’’غسل کی شروعات‘‘ کے عنوان سے خواتین کو نظافت کی جزئیات سے آگہی دینے والا میڈیا لذت پرستی کا سرخیل بنا ہوا ہے، الغرض ہمارے خاندان،ہماری معاشرت، ہماری درخشاں حیادار تہذیب کو آلودہ کررہاہے۔ صد افسوس تعلیم کے فروغ میں صفر کارکردگی دکھاتا ہے۔ جبکہ باشعور، خواندہ، تربیت یافتہ قوم کی تشکیل میں میڈیا انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اغیار کی اندھی تقلید کے بجائے ہمارے ذرائع ابلاغ قومی ضروریات اور معاشرت کو مد نظر رکھیں۔ ورنہ ردِعمل کی صورت معاشرے کو تباہی سے دوچار کرسکتی ہے۔

سوہمارے اہلِ علم وقلم کو آگے بڑھ کر عوام میں شعور کی بیداری، رہنمائی کا فریضہ سنبھال لینا چاہئے۔ اور میڈیا کی لگامیں تھام کر اسے تعلیم، تربیت اور تبلیغ کے لیے استعمال کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئیے۔ اور والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اصلاح کے لیے حکومت پر دبائو رکھے کہ وہ بے مہار آزادی اور تفریح کے عناصر کو میڈیا اور تعلیمی اداروں سے نکال باہر کرے.

فیس بک تبصرے

جشن ِ سالِ نو“ پر 2 تبصرے

  1. اسلام علیکم

    بلکل ٹہیک کہا آپ نے بہن-ہم بہت تیزی سے زوال کی طرف جا رہے ہیں-لگام لگانے کی اشد ضرورت ہے-ہمارا وہ حال ہے کہ ابھی تو صرف ۳ لڑکیاں مری ہیں-ان سے کیا کمی ہو گئ دیکھو تو ابھی ہزاروں باقی ہیں-انکی لاشوں پر رقص و سرور جاری رہنا چاہُے-یہ وہی رومن کلوسیئم والی ذہنیت ہے-دوسروں کی ذندگی سے کھیل کر تفریح حاصل کرنا-یہی مغرب کا کھیل ہے مسلمان ملکوں کے اندر اور یہی آنکھیں بند کر کہ ان کے پیچھے چلنے والوں کی سزا ہے-

    جب میوزک حرام ہے تو اسکے نتائج بھی تو ایسے ہی نقصان دہ ہونے چاہِے-گناہ کی لذت کو صرف خوف خدا اور فکر آخرت یعنی جواب دہی ہی ختم کر سکتی ہے-اور انھی ۲ چیزوں کا تذکرہ معاشرے میں کم ہوتا جا رہا ہے-اللہ ہم پر رحم کرے آمین-

  2. very sentimental

Leave a Reply