حجاب ہمارا فخر وامتیاز

حجاب امت مسلمہ کا وہ شعار، مسلم خواتین کا وہ فخرو امتیاز جو اسلامی معاشرے کو پا کیزگی عطا کرنے کا ایک ذریعہ تھا ( اور ہے ). استعمارکی سالہاسال کی سا زشوں کے نتیجے میں آج بھرپور حملوں کی زد میں ہے. مسلم دنیا کو پاکیزی سے ہٹا کر بےحیائی کی دلدل میں دھکیلنا اور عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا ہمیشہ سے ہدف رہا ہے. شیطان کی سب سے پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹا نے کے لیے چلی تھی کہ اس کے جذبہ شرم وحیاء پر ضرب لگائے اور اس کے شاگردوں کی یہ روش آج تک قائم ہے۔ان کے ہاں ترقی کا کوئی کام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک عورت حجاب سے باہر نہ آجائے. حیاء کو دقیانوسیت قرار دیا جاتا ہے. پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے اور طرح طرح سے برقعہ و چادر کے مذاق اڑائے جاتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ:
— پردہ و حجاب عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتے ہیں. یہ شیطان اور اس کے حواریوں کی غلیظ نگاہوں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے.
— برقعہ و چادر معاشرے سے بے حیائی کی جڑکاٹ دیتے ہیں جب عورت پردہ اتار پھینکتی ہے  تو اس کی مثال اس سپاہی کی سی ہوتی ہے جو اپنی زرہ اتار پھینکتا ہے اور دشمن کا ترنوالہ بن جاتا ہے۔
— عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے بعد خوبصورت ترین تحفہ پردہ عطا ہوا ہے جو اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔
— پردہ عورت کو ظاہری نمود و نمائش اور غیرضروری اخراجات سے روکتا ہے، سادگی سکھاتا ہے۔
— پردہ عورت کی زینت ہے، شرم و حیا اس کا زیور ہے اور اس  زیور کی حفاظت پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
— پردہ عورت کو بلاضرورت گھر سے باہر جانے سے روکتا ہے جس سے وہ اپنے گھریلو فرائض کو احسن انداز سے سر انجام دے سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جسے نبی کر یم ؐ نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔
–ایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور پیارے نبی ؐ کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو کئی ہزار میل دور سے آتی ہوگی۔

چادر اور چار دیواری تو عورت کے تحفظ کے عنوان ہیں اور عورت کا تحفظ، خاندان کے استحکام، نئی نسلوں کی تربیت کے انتظام اور معاشرتی استحکام کا ضامن ہے۔ شیطان کے چیلوں نے کتنا بڑا وار کیا کہ دونوں کو متنازعہ بنا کر عورت کو گھر اور پردے سے نکال کر پوری انسانیت کو نہ صرف ذلت سے دوچار کردیا ہے بلکہ انسانیت کا مستقبل ہی دائو پر لگادیا ہے۔ مغرب، خاندان اور معاشرتی لحاظ سے تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ عورت بے پردہ ہوئی تو بن بیاہی مائیں بننے پر معاشرے میں کوئی عار نہ رہا. ناجائز بچوں کی کثرت ہوگئی. ہر تیسری شادی طلاق پر منتج ہو نے لگی. معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا. جنسی بیماریوں نے ایڈز کی سنگین صورت اختیار کرلی. ڈپریشن اور ذہنی امراض کی وجہ سے خودکشیوں میں اضافہ ہوگیا. مغربی اقوام اپنے اس معاشرتی انتشار کے بعد مسلمانوں کو بھی اس کا شکار کرنا چاہتے ہیں(osmeticsکی صنعت کو زوال سے بچانا بھی ان کا مقصد ہے).

حجاب پرپابندیاں عائد کرنے کا کھیل انہی طاقتوں کا ہے جنہیں مسلمانوں کا مضبوط خاندانی نظام اور معاشرتی استحکام ایک آنکھ نہیں بھاتا. مسلمان خواتین نے پورے شعور کے ساتھ اپنے رب کی رضا اور اپنے نبی ؐ کی تعلیم و سنت پر عمل کر تے ہوئے اپنے لیے یہ شعار پسند کیا ہے اور ان شاءاللہ مشرق ومغرب کا کوئی لبرٹی اور آزادی پسند یہ اتروا بھی نہیں سکتا. ان کا حق اور نصیب حیاباختگی اور برہنگی ہے تو مسلم خاتون کاحق حجاب اور حیا پر کار بند ہونا ہے. ان کو شیطانی تہذیب پر چلنے کی آزادی ہے اور وہ اسکے پشتیبان ہیں تو ہمارا حامی و ناصر رب ِکا ئنات ہے جسکی رضا پر ہم چل رہے ہیں. طاغوت اور اسکے حواریوں سے نہ کل ہم ڈرتے تھے نہ آج ہمیں ان کا کوئی خوف ہے اور جب تک ہماری گردنوں پر ہمارے سر سلامت ہیں، ہم شعائر اسلامی کی ترویج و حفاظت کا فریضہ ادا کرتے رہیں گی۔ان شاء اﷲ۔

حقیقت یہ ہے کہ حجاب ( برقعہ۔ چادر۔ عبایہ۔ گائون کچھ بھی کہہ لیں) تو اسلام کا کلچر ہے اور فحاشی و بےحجابی شیطان کی روایت ہے جس کااعلان خود ر ب کائنات نے کیا ہے:

اور شیطان کے بتائے ہو ئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے، تمھیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ ( وہ اللہ نے فرمائی ہیں) (سورۃالبقرہ  آیت نمبر 169)

عورت کوچادر، دوپٹے سے بے نیاز اور بے حجاب کردینا ہی متبعین ابلیس کا مطلوب ومقصود ہے۔ مسلمان عورت کا شعار حجاب ہے، پردہ ہے، مکمل لباس ہے۔خواہ چادر کی صورت میں یا گائون کی صورت میں اور چادر محض گرمی اور سردی سے بچانے والی نہیں، ہمیں جان لینا چاہیے یہ ہمارے رب کا حکم ہے اور شارع نے یہ حکم دیتے ہو ئے جو مقصد بتایا تھا وہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے۔ فرمایا کہ: 

اے نبی ؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ منا سب طر یقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ ( سورۃ الاحزاب آیت نمبر  59)

!یعنی پہچان لی جا ئیں کہ یہ شریف اور باحیا عورتیں ہیں، مومن عورتیں ہیں، ممتاز ہیں، پاکباز ہیں تاکہ شیطان کے ایجنٹ ان سے کوئی چھیڑ خوانی نہ کرسکیں۔ ایک تصویر اور حلیہ مغربی عورت کی پہچان ہے اور ایک تصور فاطمۃ الزھرہ کا ہے جو مسلمان عورت کی پہچان ہے۔ مغرب کے دہرے معیار کو دیکھیں، ایک جانب بے حیا عورت کی یہ مادر پدر آزادی ہے جس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں، دوسری جانب ایک مسلمان عورت اگر حجاب میں باہر آنا چاہتی ہے تو اسکے لئے کوئی شخصی آزادی نہیں، مغرب حجاب سے ایسے خوفزدہ ہے جیسے یہ کوئی بم ہو جو انہیں تباہ کردے گا۔

ایک لطیف نکتہ بیان کیا جاتا ہے کعبہ پر غلاف ہے تاکہ معلوم ہو عام جگہ نہیں مسلمانوں کا قبلہ ہے، بیت اللہ ہے.قرآن پر غلاف ہے معلوم ہو کہ مقدس کتاب ہے،’ ’ کتاب اللہ ‘‘ہے عام کتاب نہیں. عورت پر حجاب ہے معلوم ہو کہ عام عورت نہیں، ’مسلمہ‘ ہے اور پردہ اس کا شعار ہے.

حجاب محض سر پر رکھے جانے والے ڈیڑھ گز کپڑے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مجموعہء احکام کا نام ہے. یہ اسلام کے نظام عفت وعصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا ہے، عورت کو توقیر عطا کرتا ہے، خاندانوں کو محفوظ و مستحکم کرتا ہے اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعے محبتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے.

فیس بک تبصرے

Leave a Reply