جشن آزادی :14اگست 1947اور آج کے حالات

مبارک ہو ! پوری قوم کو ارضِ وطن کا 64واں یومِ آزادی مبارک ہو۔لیکن مجھے یہ تو بتائیں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا بحیثیت ریاست ہم اتنے آزاد ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی خود بنا سکیں؟ کیا ہماری پارلیمنٹ اتنی آزاد ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاص کے عین مطابق قانون سازی کرسکے؟کیا ہماری افواج اتنی آزاد اور خود مختار ہیں کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں؟ سرحدوں کا دفاع تو دور کی بات ہے کیا وہ ملکی حدود میں گھس کر شہریوں کو قتل کرنے والے ڈرون طیاروں کو تباہ کرسکے؟

14 اگست 1948ء کو جب ارضِ وطن آزاد ہوا تھا اس وقت کا جذبہ آج کہیں نظر نہیں آتا. اس وقت ہم قوم کے بجائے ملت تھے. کلمہ طیبہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمان ایک ہوگئے تھے جس کے باعث ہمیں الگ وطن ملا. لیکن آج وہ جذبہ مفقود ہے، ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ہے. آج ہم صوبائیت، لسانیت اور قومیت کے علم بردار بن گئے ہیں. کل ہم نے اللہ سے دعا کی کہ ہمیں ایک الگ خطہ زمین مل جائے تو ہم اس میں اسلام کے مطابق قانون سازی کریں گے اور اسلامی قوانین کا نفاذ کریں گے. قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:

ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں کو آزما سکیں۔(13جنوری1948ء )

جبکہ قیام پاکستان سے چند سال قبل قائد اعظم ؒ نے فرمایا کہ:

وہ کونسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر اس امت کی عمارت استوار ہے؟وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول ﷺ، ایک کتاب، ایک امت ( اجلاس مسلم لیگ، کراچی: 1943ء)

ہندوستان سے آنے والوں نے اللہ کے نام پر اپنے گھر بار، جائیدادیں، چھوڑیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں شہید ہوئے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں لٹیں، صرف اس لئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے دین کے مطاق زندگی گزاری جائے اور جب یہ مہاجرین پاکستان آئے تو یہاں موجود ان کے سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان و دیگر بھائیوں نے ان کو گلے سے لگایا۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھا، ان کی دل جوئی کی، ان کی مدد کی، صرف اور صرف اسلام کے نام پر۔

اللہ رب العزت قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ’’ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو) لیکن بدقسمتی سے آج ہم نے اللہ کی اس رسی کو چھوڑ کر صوبائیت، قومیت، لسانیت اور فرقہ واریت کے علم تھام لیئے ہیں۔ آج ہم تفرقے میں پڑ چکے ہیں۔ آج ہم مہاجر، سندھی، بلوچ، پٹھان، سرائیکی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اسی لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹا جارہا ہے، ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، املاک جلائی جارہی ہیں، ہڑتالیں کی جارہی ہیں۔اسی وجہ سے مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی ہے کیوں کہ جب امت کا تصور ختم ہوجائے تو پھر صوبائیت، لسانیت، فرقہ واریت بھی نہیں رہتی بلکہ فرد صرف نفس کا بندہ بن جاتا ہے اور اپنے مفادات کو ہی دیکھتا ہے۔ غور کیجئے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں یہی صورتحال نہیں ہے؟

بانی پاکستان کو اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی مختلف زبانیں، قومیں، قبائل اور فرقے ہیں اسی لئے انہوں نے قومیت، صوبائیت، لسانیت وغیرہ کی مذمت کی اور اتحاد پر زور دیا۔ ایک موقع پر فرمایا:

میں صاف طریق پر آپ کو ان خطرات سے آگاہ کردینا چاہتا ہوں جو پاکستان کو اور خصوصاً آپ کے صوبے کو اب تک لاحق ہیں۔ پاکستان کے قیام کو روکنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد اپنی شکست سے پریشان ہوکر دشمن اب مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اس مملکت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کوششوں نے اب صوبہ پرستی کو ہوا دینے کی صورت اختیار کی ہے۔ جب تک آپ اپنی ملکی سیاست سے اس زیر کو نکال نہیں پھینک دیں گے اس وقت تک آپ خود کو ایک حقیقی قوم میں نہیں ڈھال سکتے اور نہ ویسا جوش اور ولولہ پید اکرسکتے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ بنگالی، سندھی، بلوچ، پٹھان وغیرہ کی باتیں نہ کریں۔آپ سب ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔(31مارچ 1948ء ڈھاکہ)

آپ کو اپنے صوبے کی محبت اور اپنی مملکت کی محبت کے درمیان امتیاز کرنا سیکھنا چاہئے۔ مملکت کی محبت بلکہ مملکت کی طرف سے عائد کردہ فرض ہمیں ایک ایسی سطح پر لے جاتا ہے جو صوبائی محبت سے بالاتر اور ماوراء ہے۔ اس سطح پر آنے کے لئے وسیع تر بصیرت اور بلند تر حب الوطنی کی ضروت ہوتی ہے۔ مملکت کا فرض اکثر تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی ذاتی یا مقامی و صوبائی مفادات کو مفاد عامہ کے تابع کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ مملکت کا فرض پہلے ہے اور اپنے صوبے، اپنے ضلع، اپنے قصبے اپنے گاؤں کا فرض بعد میں آتا ہے۔ یاد رکھئے ہم ایک ایسی مملکت کی تعمیر کررہے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کی تقدیر بدل دینے میں ایک اہم ترین کردار ادا کرنے والی ہے اس لئے ہمیں وسیع تر اور بلند تر بصیرت کی ضرورت ہے۔ ایسی بصیرت جو صوبائیت، قوم پرستی اور نسل پرستی کی حدود سے ماوراء ہو۔ ہم سب میں حب الوطنی کا شدید اور قومی جذبہ پید اہوجانا چاہئے جو ہم سب کو ایک متحد اور مضبوط قوم کے رشتے میں جکڑ دے۔ یہ واحد طریقہ ہے اپنی منزل پر پہنچنے کا، اپنی جدوجہد کا نصب العین حاصل کرنے کا، وہ مقصد عظیم جس کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ لٹادیا ہے اور اپنی جانیں تک قربان کردی ہیں۔(12اپریل 1948ء اسلامیہ کالج پشاور)

بلوچستان آزاد اور بہادر انسانوں کی سرزمین ہے اس لئے آپ کی نظروں میں قومی آزادی، عزت اور طاقت کے الفاظ خاص قدروقیمت رکھتے ہیں۔ یہ ’’ملکی ‘‘ اور ’’غیر ملکی ‘‘ کی باتیں نہ ملک کے لئے مفید ہیں نہ آپ کے شایانِ شان ہیں۔ اب تو ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہم نہ بلوچی ہیں نہ پٹھان ہیں نہ سندھی ہیں نہ بنگالی نہ پنجابی۔ ہمارے احساسات اور طرز عمل بھی پاکستانیوں جیسے ہونے چاہئیں اور ہمیں چاہیے کہ بجائے کسی اور نام کے صرف ’’پاکستانی‘‘ کہلائے جانے پر فخر محسوس کریں (15جون 1948ء کوئٹہ)

افسوس کہ ہم نے اللہ، رسول اللہ ﷺ کے پیغام کو بھلادیا، قائد کے فرمودات کو پس پشت ڈال دیا اور اب یہ صورتحال ہے کہ دشمن ہمارا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ فرقہ پرستی و قوم پرستی کو ابھار رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہیں، ہماری شہہ رگ کشمیر ابھی تک دشمن کے پنجہ استبداد میں ہے اور ہم ابھی مستیوں میں مست ہیں، ہمارا نوجوان انڈین گانوں اور فلموں کے سحر میں مبتلا ہے۔ انٹرنیٹ اور sms میں الجھا ہوا ہے۔ ارباب اختیار محض اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ بےگناہ انسانوں کاخون بہایا جارہا ہے لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ خوف و ہراس ہے اور ہر طرف ایک مایوسی کا عالم ہے۔ جشن آزادی منایا جارہا ہے لیکن سڑکوں پر سناٹے ہیں۔ لوگوں کے دل بجھے ہوئے ہیں۔ مجھے اب 14 اگست کو وہ جذبہ و جوش و خروش نظر نہیں آتا جو چند برسوں قبل تک تھا۔ شائد اب لوگ مایوس ہوگئے ہیں کہ حالات تبدیل نہیں ہونگے اورکوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ شائد یہی بات ہے۔

لیکن یہ کیا؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ اسکولوں کے ننھے منے طلبہ و طالبات ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں۔ ان کے چہرے خوشی سے تمتا رہے ہیں۔ وہ جوش جذبے سے نعرے لگا رہے ہیں۔
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلٰہ الا اللہ
تیرا میرا رشتہ کیا؟ لا اِلٰہ الا اللہ
پاکستان زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد
قائد اعظم زندہ باد
یہ منظر کتنا سہانا ہے۔ ان معصوموں کا جذبہ قابل رشک ہے۔ وہ دیکھیں ایک بچہ فوجی وردی زیب تن کئے ہوئے اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ وہ ملک کی سرحدوں کا دفاع کرے گا اور وطن کی خاطر جان بھی قربان کردے گا۔ وہ دیکھیں اس طرف ایک بچہ قائد اعظم کے روپ میں ہے اور وہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے وہ قائد کے مشن کو جاری رکھے گا۔ اور یہ دیکھیں یہ ننھی منی بچیاں جوش و خروش سے نعرے لگا کر اس عزم کا اعادہ کررہی ہیں کہ وطن کی خاطر وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں گی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کی طرح یہ بھی اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ تعمیر وطن میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ یہ کل کے معمار ہمیں درس دے رہے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔ حالات بہتر ہونگے اور یہ طلبہ و طالبات، یہ مستقبل کے معمار ہی تبدیلی لائیں گے۔ ان شاء اللہ
نہیں نو مید اقبال اپنی کشت ویران سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

فیس بک تبصرے

Leave a Reply