دھرتی تو ہے ” ماں” کے جیسی

آج 64 برس گزرنے کے بعد بھی اس لمحے کی یاد ہوا کے اس معطر جھونکے کی مانند ہی تو ہے نا، جب رمضان کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالٰی کی رحمت بے پایاں جوش میں تھی عرش تا فرش خشکی اور تری میں لا الہ الااللہ کے نغمے کی جاں فزا گونج تھی، لاکھوں انسان خالی پیٹ ایک سرمستی کے عالم میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر آگ اور خون کے دریا سے گزر رہے تھے. وہ لٹے پٹے قافلے جن کے گھر اجڑ گئے املاک چھن گئیں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں‌ ان کی آنکھوں کے سامنے تار تار ہوئیں اس کے باوجود وہ شہید، وہ غازی وہ مجاہد وہ صف شکن جنکی جبیں پر سب کچہ لٹا کر بھی کوئی شکن نہ تھی مسلسل اپنی خوابوں کی سر زمین کی جانب رواں دواں تھے.

آج جب تم میری سالگرہ کا 64 واں جشن مناتے ہوئے درو دیوار کو برقی قمقموں اور سبز ہلالی پرچم سے سجا رہے ہو تو اپنی ماں کی دبی دبی سسکیاں ضرور سننے کی کوشش کرنا میرے بچوں کہ تمہاری ماں کو دوا کی ضرورت ہے. اسوقت تمہاری ماں علاج کی منتظر ہے. مجھے ملی نغموں اور اس بے نام جشن کی ضرورت نہیں، مجھے ضرورت ہے کہ تم میری نبض پر ہاتھ رکھو، میرے مرض کو جانو اسکی تشخیص اور علاج کی سنجیدہ کوشش کرو.

اب کہ پھر 14 اگست کا یوم احتساب اس عظیم ماہ احتساب میں آیا ہے اور تم ہی جانو جوں جوں یہ دن قریب آتے ہیں میرا زخم زخم وجود ہولے ہولے کانپنے لگتا ہے. تم میں سے اکثریت نے میری کوکھ میں جنم لیا ہے. وہ تو اب تھوڑے ہیں اور آہستہ آہستہ رخصت ہو رہے ہیں جو ہجرت کر کے سب کچھ لٹا کر میرے وجود کا حصہ بنے تھے اور سچ پوچھو تو وہ اپنے حصہ کا قرض بھی ادا کر گئے ہیں.
14 اگست 1947 کے مقابلے میں آج میں  کتنی ٹھٹھری، کتنی خوفزدہ، کتنی سہمی ہوئی ہوں ” سب سے پہلے پاکستان ” کا نعرہ بلند کرنے والوں نے ایٹمی پاکستان کو اقبال کے خوابوں کی سرزمین کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا جو یہ چاہتے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹادیں. امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر مجھے اپنی دھرتی کو آگ اور خون کے حوالے کردیا. میں کس سے پوچھوں کہ یہ مفاد اس دھرتی کا تھا یا امریکا کا!!!!

میں دنیا کی واحد ایٹمی مسلم  قوت جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی امیدوں  کا مرکز اور دلوں کی دھڑکن تھی آہستہ آہستہ مجھے‌ بدامنی اور اور انتشار کا شکار کرکے امریکی غلامی میں دھکیل دیا. امریکی سفارت خانوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کیا جارہا ہے. وہاں جنگجو میریں تعینات کیے جارہے ہیں. ان ناپاک فوجی بوٹوں کی چاپ اپنے سینے پر محسوس کر کے میرا وجود لہو لہو ہوا جاتا ہے.

مجھے بیگانوں سے شکوہ بھی نہیں قلق تو اسکا ہے کہ میرے اپنے بھی ان سازشوں کا حصہ ہیں. میں نہ رہی تو اپنی شناخت کیسے کراؤگے؟ کہاں جاؤگے؟ کبھی سوچا تم نےتمہیں صمُ بکُم بنا کر تو نہیں‌ اتار گیا تھا نا، گھروں سے بلند ہوتی چیخ و پکار کی مسلسل صدائیں جن مین روز اضافہ ہوتا جارہا ہے. یہ بیواؤں کی آہیں، یہ یتیموں کی آہیں، یہ بوری بند لاشیں، یہ ٹارگٹ کلنگ، یہ میری مٹی میں روز جذب ہوتا درجنوں بے گناہوں کا لہو، یہ موت کا ساسناٹا! اپنے شہروں کو اللہ کے قہر اور اس کے غضب کے حوالت کیوں کر رہے ہو؟ صرف ایک شہر کراچی میں ایک برس کے دوراں ڈیڑھ ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے. یہ اعداد و شمار تو جنگی ہلاکتوں کے ہوا کرتے تھے!

لیکن پسماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں کون کس کی جنگ لڑ رہا ہے؟ کون کس کے مفاد کا پشتبان ہے؟ اور کتنی سہاگنیں  بیوگی کی چادر اوڑھ لیتی ہیں؟ کتنے جگر گوشے یتیمی کا داغ پیشانی پر سجالیتے ہیں انکی آہ و بکا ان تک پہنچے نہ پہنچے جو اونچی اونچی دیواروں، سیکیورٹی گارڈز اور پر تعیش قیام گاہوں میں محفوظ ہیں لیکن وہ  آہ و بکا عرش پر ہر آن پہنچ رہی ہے اور وہاں سے جواب لے کر  پلٹ رہی ہے. موت کے اتنے نوحے ہیں لٹنے کی اتنی داستانیں ہیں کہ سمع خراشی کی تاب تم میں نہیں. قزاقوں، چوروں، لٹیروں اور قاتلوں کے سب گروہ محفوظ ہیں کیونکہ ان کے سر پرست اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں.

اے جشن طرب منانے والو! لا الہ کے وارثوں ! تم یہ کیوں  بھول گئے اور بہت جلدی  بھول گئے کہ اجتماعی گناہوں کا کفارہ اجتماعی عذابوں کی صورت میں بھگتنا ہوگا. تم ضرور تماشائی ہو کہ یہ آگ، خوں، لاشیں، نوحے تمہارا روز کا معمول  بن گئے ہیں جو اب تمہارا راستہ بھی نہیں روکتے، تمہیں فکر معاش سے غافل بھی نہیں کرتے، مضطرب بھی نہیں کرتے. لیکن! وہ آسمانوں پر محض‌ تماشائی تو نہیں؟ تم نے گزری ہوئی قوموں سے کوئی سبق نہیں لیا کہ وفائے عہد کرنیوالی، نعمتوں کی نا شکری کرنے والی پوری کی پوری قومیں صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں. جب خلقت تمہاری طرح بے بس ہو جائے اور تماشائی بن جائے تو پھر آسمان والے کے غضب اور ناراضگی کے فیصلے صادر ہو نے سے کون روک سکتا ہے؟

تمہاری فکر نارسا میرے وجود کو گھائل کئے دے رہی ہے. تمہاری بے حسی، بے شعوری اور غفلت اسوقت میرا ” اصل مرض”  ہے. میرے سسکتے ہوئے وجود کو جو سب سے بڑا دکھ ہے وہ یہی ہے کہ اب تم سب کا مجھ سے  رشتہ بس اپنی “غرض” تک محدود ہے. اپنے جس گھر اور خاندان کی خوشحالی تمہاری نظروں کا حجاب بن گئی ہے سوچو تو سہی کہ تمہارا گھر بھی دھرتی ماں کے وجود سے ہے اور تمہارا خاندان بھی. دشمن میری شہ رگ سے قریب تر ہو رہا ہے. مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے کتنے منصوبے وکی لیکس نے آشکار کئے، خدا کو گواہ بنا کر کہو کیا میری اتنی بھی فکر ہے جتنی اپنے بخار زدہ بچے کی؟ بلیک واٹر کی صورت میں میری رگوں پر تیشے چل رہے ہیں. ایبٹ آباد کا سانحہ ہو یا مہران ائیر بیس کا، سوال تو یہ ہے کہ تمہارے توانا بازوؤں کی موجودگی میں کیسے میرے سر کی ردا کی جانب کوئی ہاتھ بڑھا اور کسی نے میلی آنکھ سے میری سمت دیکھا. ماں کی عزت اور عصمت کی حفاظت کیا تمہارے لہو پر یہ قرض نہیں تھا میرا. آخر یہ تمہارا تندو مند وجود میرے ہی لہو سے تو سینچا ہوا ہے. سنو میرے بیٹے حشرات الارض کی طرح مر رہے ہیں. دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ جسمیں امریکی مفاد کی خاطر مجھے جھونک دیا گیا 28 کھرب سے زیادہ کا نقصان میں برداشت کر چکی ہوں. کل ہی 25 بے گناہ روزہ داروں کی جان ایک ڈرون حملے میں لے کر ان سب پر ” عسکریت پسندی ” کا لیبل لگا دیا گیا ہمیشہ کی طرح! معصوم عورتیں اور بچے جنکا لہو روز اس لا الہ کی سر زمین میں جذب ہو رہا ہے کوئی محمد بن قاسم نہیں جو امریکی رعونت کو للکارے. مجھے دکھ ہے تو اس قیادت کے فکری افلاس کا ہے جو اس جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے. کبھی دنیا نے یہ تماشہ نہ دیکھا کہ38 لاکھ افراد کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیا گیا ہو اور “ڈومور ” کی تشنگی ہے کہ کسی نقصان کسی لہو سے سیراب ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور قیدیوں کے شور مچانے پر زنجیریں بدل دی جاتی ہیں! گو اب اس کے سوا کیا چارہ ہے میرے لخت جگرو! کہ اپنی حقیقی آزادی اور تہذیبی تشخص‌کے لئے کمر بستہ ہو جاؤ، ایک جمہوری قوت کا بھر پور اظہار ہی تمہیں غیروں کی غلامی سے نجات دلا سکتا ہے. تمہیں اپنے مستقبل کا سفر اپنی امنگوں کی روشنی میں کرنا ہوگا ورنہ “آئین”  میں آزادی لکھ دینے سے کوئی آزاد نہیں ہو جاتا، جبکہ اسکی امنگیں بھی گروی رکھی جا چکی ہوں!!

کوئی مرنے پہ راضی نہیں
زندگی چاہے ذلت کے مارے بسر ہو
جنوں تابکے پا بہ جولاں رہے
مگر اب سپاہ ستم
میرے شہر کا ہے مقدر
جب ایسا سمے ہو
زباں‌ کاٹ لیں خود مکیں خوف سے
نگاہوں پہ اندھی جہالت کے پردے پڑے ہوں
خموشی کی روئی ٹھسی ہو ہر اک کان میں‌
نہ سوچنے کی ہو کسی کو بھی فرصت
اور آبادیاں بے ضمیری کے سایوں  میں لپٹی ہوئی ہوں
فقط خوش ہوں اس بات پر سب مکیں
کہ” آئیں” میں انکو” آزاد” لکھا گیا ہے!!!

فیس بک تبصرے

Leave a Reply