رمضان اور قرآن

رو زے کا مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے اوریہ تقویٰ قرآن پاک سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے اللہ رب ِکریم و رحیم سے زیادہ کون اس ضرورت سے واقف ہے۔اس نے اتنا پیارا بندوبست کیا کہ رمضان اور قرآن کو ایک اہم رشتے میں پرو دیا۔ جس رات قرآن نازل کیا اس رات کا حامل مہینہ ہی روزوں کی مشق کے لیے مخصوص کردیا یہ کہہ کر کہ:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القر آن  ھدی للناس و بینٰت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ۔
’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہذا اب سے جو شحض اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘(سورۃ البقر ہ:  185)

قر آن رہتی دنیا تک اللہ کا واحد محفوظ اور مکمل کلام ہے اور امت مسلمہ اس کی امین ہے اور اس پر یہ بھاری ذمہ داری اللہ نے ڈالی ہے کہ اس نے محض خود ہی اس پرعمل نہیں کر نا بلکہ پوری دنیا کے انسانوں تک اس کو پہنچانا ہے۔ اس شہادت علیٰ الناس کے فر یضے کو ادا کر نے کے لیے کس قسم کا کر دار، کیسی مضبوط شخصیت اور کیسا تقویٰ مطلوب ہے؟ روزہ اور قرآن دونوں کو ایک ماہ میں یکجا کر کے اللہ رب العزت اس شخصیت و کردار کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ روزہ کے ذریعے تقویٰ پیدا ہو۔ اس کے ذریعے قرآن کو سمجھنے کی استعداد پیدا ہو اور بندہ مومن اس کو لے کر اٹھ کھڑا ہو۔ لہذا اس نے دن اور رات کے معمولات ایسے مقررکیے کہ دن کو روزہ رکھیں اور رات کو قیام الیل کریں، قرآن پڑھیں، سنیں اور اپنے رب کے احکامات جانیں اور عمل میں ڈھالنے کی مشق کریں۔ اتنا خوبصورت، مکمل، حکمت سے بھرپور طریقہ تربیت اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور ہستی بناہی نہیں سکتی اور لا کھوں کروڑوں درودو سلام نبی رحمت ؐ پر جنہوں نے اس خاکے میں عملی ر نگ بھرے اور اپنی عملی راہنمائی سے امت مسلمہ کے لیے وہ مثالی نمونہ فراہم کیا جس نے عر ب کے بدوئوں کو ان صحابہ کرام ؓ میں ڈھال دیا جو رہتی دنیا تک رو شنی کے مینار ہیں۔ تقویٰ، صداقت، امانت، صبر و تحمل، احساس ذمہ داری، خشیت الہی، فکر آخرت اور اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کی وہ مثالیں قائم کیں جن کا نمونہ ان کے بعد کوئی نہ بن سکا۔ ان بہترین پیشوائوں نے بہترین طریقے سے قرآن کا نظام دنیا میں نافذ کیا اور دنیا نے عدل اور امن کی بہار دیکھی۔ خوشحالی اور مالی فروانی کا دوردورہ دیکھا، باہمی محبت، امن و بھائی چارہ کے اعلیٰ نمونے دیکھے۔ یہی تو اتمام تھا اسلام کے نظام تر بیت کا، یہی تو مطلوب و مقصود تھا کہ نما ز، روزے، حج، عمرے، زکوۃ کی عبادات کے ذریعے وہ انسان دنیامیں ابھریں جو اللہ کی زمین پر اللہ کا بنایا ہو مثالی نظام قائم کریں اور بندوں کو بندوں کے ہاتھوں پہنچے ہوئے دکھوں سے نجات دلائیں۔

رمضان، قرآن اور آج کا انسان:
آج کا انسان دکھوں کا ستایا ہوا ہے۔ بے سکونی، بدامنی، ڈپریشن اور طرح طرح کے ذہنی امراض میں گھرا ہوا ہے۔ انسا نیت نے ربانی چشمہ ہدایت سے منہ موڑ کر دنیا کو نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ مادیت پرستی، مفادات اور شہرت و دولت کی بھوک نے اعلیٰ اقدار تباہ کردی ہیں (الھٰکم التکا ثر ) انسان،انسان کا دشمن بن گیا ہے۔ حسد اور شر نے سکون برباد کردیا ہے۔ قومیں، قوموں پر چڑھ دوڑی ہیں۔ خونی جنگیں جاری ہیں۔ آج نفسانیت اور خودغرضی کے ان پجاریوں کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلام کے اس نظام تربیت کی ضرورت ہے۔ آج انسانیت پیاسی بھی ہے اور ضرورت مند بھی کہ یہ آب حیات لے کر کوئی اس کے پاس جائے۔ اندھیروں میں بھٹکتے ہو ئے اللہ کے بندوں تک اللہ نورالسموت والارض کا نورانی کلام اور پاکیزہ احکام پہنچائے۔ رمضان ایک مثالی مہینہ  بن سکتا ہے اگر امت مسلمہ اس مہینے کو اس شان و شوکت اور آب و تاب کے ساتھ گزارے کہ یہ شہادت حق کا نمونہ بن جائے۔ دیکھنے والے سر کی آنکھوں سے دیکھیں کہ ایک ماہ کی تربیت پا کر کیسی آب وتاب وا لا نسا ن اٹھ کھڑا ہوا۔

دیکھنے والے یہ دیکھیں کہ مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیا، افریقہ اور امریکہ و یورپ تک ایک پا کیزہ فضا ہے ہر طرف نورانیت ہے، محبت ہے، ذکر ہیں، دعائیں ہیں، قرآن پڑھا جارہا ہے، سچائی ہے، امانت و دیانت ہے، قتل و غارت، چوری چکاری، لڑائی مارکٹائی، گالم گلوچ، شہوت و بے حیائی سب کچھ یکسر بند ہوگیا ہے۔ امن کا دور دورہ ہے۔ پاکیزہ فضائیں ہیں، معطر ہوائیں ہیں۔ انسانی ہمدردی اور اخوت کی اعلیٰ مثالیں ہیں، افطاریاں کرائی جا رہی ہیں، کوئی بھوکا نہیں، کوئی مجبور نہیں۔ فطرانہ دیا جارہا ہے، کپڑے اور راشن تقسیم ہورہے ہیں، محبتیں با نٹی جا رہی ہیں کیا رمضان ہے ! کیا اس کی رو ح ہے۔ کیا اعلیٰ تصور ہے کاش ہم یہ عملی مثالیں قائم کرسکیں۔

فر مان نبی رحمت ؐ ہے کہ ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سر زد ہوئے ہونگے اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کردیے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہو نگے ‘‘۔  (متفق علیہ )

یعنی روزہ اور قرآن شفاعت تو کریں گے لیکن شرائط کیا ہیں ’ایمان اور احتساب‘ ایمان تو خیر کسی بھی عمل کے نافع ہو نے کی بنیادی شرط ہے ورنہ تمام نیک اعمال بھی حیات و دنیا کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے ہیں اور جتنا اجر ملنا ہو، جس بھی صورت میں، وہ اس دنیا میں ایک کافر حاصل کر لیتا ہے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا کیونکہ ایک کافر ایمان کو حیاتِ دنیا کے عوض بیچ چکا ہوتا ہے جبکہ مومن اپنے جان مال، اللہ کی رضا اور خوشنودی کے عوض اس کے ہاتھ بیچ چکا ہوتا ہے۔

’’ ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ       (التوبہ:11)
’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘

یہی اصل ایمان ہے کہ جو کچھ ہے، اے ربّ ! تیرے لیے اور تیرا ہے۔ جان ہو یا مال۔ جو تیرا حکم ہے وہ سرآنکھوں پر، میری مرضی، میری خواہش، سب کچھ تیری رضا پر قربان۔

احتساب کیا ہے؟ اپنا جائزہ، نیت کا کہ کتنی خالص ہے؟ عمل کتنا درست ہے؟ بھلا کتنے انسان ہوں گے جو روزہ رکھ کر اپنا احتساب بھی کرتے ہوں گے؟ جائزہ لیتے ہونگے کہ کتنے اعضا ء کا روزہ ہے؟ محض بھوک پیاس ہے یا واقعی آنکھوں، کانوں زبان، ہر عضو نے روزہ رکھاہے۔ کتنے لوگوں کو یہ حدیث یاد ہوگی کہ:
’’ کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور کتنے ہی قیام کرنے والے ہیں، جنہیں رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا‘‘ (ابن ماجہ)

ایسے کون لوگ ہوتے ہیں، ذرا جائزہ تو لیں۔  روزہ رکھا، جھوٹ نہ چھوڑا۔ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر مال بیچا۔ رمضان آیا، مال کی قیمت بڑھا دی۔  ناجائز منافع خوری شروع کر دی، عید آرہی ہے، خرچ بڑھ جائے گا۔  دودھ میں پانی ملا دیا۔ اچھا دکھا کر گلا سڑا پھل تھیلے میں ڈال کردے دیا۔ ملازمت کے اوقات میں ڈنڈی ماری۔ دیر سے آئے، جلدی گھر چلے گئے اور روزے رکھ کر خیانت کے مرتکب  ہوگئے۔ ٹریفک کے ناکے زیادہ کر دئے۔ رشوت کے ریٹ بڑھا دئیے۔ رمضان میں توعیدی بنانی ہے۔ یہ اور اس طرح کے سارے افعال جھوٹ کی قسمیں ہیں اور روزے کے اجر کو چاٹ جانے والی ہیں۔ سیر بھر اجر کمایا، من بھر گناہ کر لیے۔اس لیے روزے رکھ کر احتساب ضروری ہے کہ اجر حاصل ہورہا یا ضائع ہو رہا ہے۔ اور یہ احتساب ہر طبقہ زندگی کے افراد کے لیے ضروری ہے۔ عورت ہے یا مرد، استاد ہوں یا علماء، تاجر ہوں یا ڈاکٹر، حکومتی اہلکار، عدلیہ، سیاستدان، کسان یا مزدورسب اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی دیانتداری پر نظر ڈالیں۔ اور جائزہ لیں کہ روزہ کتنا درست روزہ ہے۔ جس کے روزے کے ساتھ جتنا احتساب اور محنت ہوگی ان شاءاللہ اتنا ہی وزنی روزہ ہوگا میزان عمل کو بھاری کرے گا۔

قیام کے ساتھ بھی احتساب کی شرط لگا ئی۔رمضان کا قیام الیل، سماع قرآن کے ساتھ مشروط ہے رات کو تراویح پڑھی جاتی ہے اور اسمیں قرآن سناجاتا ہے۔ قرآن اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک کلام وہ رحمتوں اور برکتوں کا خزانہ جو دنیا بھر کے خزانوں سے قیمتی ہے اور جس کے ملنے پر اللہ نے جشن منا نے کو کہا:
’’لو گو تھمارے پاس تمھارے رب کی طر ف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے جو اسے قبول کر لے ان کے لیے راہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی کہو کہ ایہ اللہ کا فضل اور اس کی مہر بانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چا ہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لو گ سمیٹ رہے ہیں‘‘ (سورہ یونس 57 تا8)

اور رمضان کو تو خیر و بر کت کی سعادت بھی اس قر آن کی وجہ سے ملی کہ اللہ نے یہ پا ک کلام اس ماہ میں نازل فرمایا اور پھر رب کریم نے رمضان المبارک میں قرآن کی کم از کم ایک مرتبہ مکمل دھرائی کا انتظام کیا۔ تروایح کی صورت میں کہ اللہ کے بندے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے  رب کے احکامات سے پوری طرح باخبر ہوجائیں، وہ ہدایات دھرالیں جو ان کے مالک نے زندگی گزارنے کے لیے دی ہیں ۔

اپنے اعمال کو اس کے مطا بق پرکھ لیں۔اپنی غلطیاں درست کر لیں گویا رمضان المبار ک کی ہر رات پکارتی ہوئی آتی ہے کہ اللہ کے بندو آئو اپنے رب کی پکار سنو! آئو دیکھو اور جانو کہ فلاح کا راستہ کونساہے؟ آئو یہ سمجھو کہ رمضان تمھارے لیے تقویٰ کے حصول کا با عث کیسے بن سکتا ہے؟ روزہ تمھارے کر دار کو جلا کیسے بخش سکتا ہے؟ یہ قیام الیل بڑے جلیل مقاصد کا حامل ہوتا ہے اگر احتساب کے ساتھ ہو، اگر مسلمانوں کو قرآن کی سمجھ آرہی ہو، اگر وہ اسکی روح سے آشنا ہوں، انہیں سمجھ آرہی ہو کہ انکا رب کن باتوں کا حکم دے رہا ہے کن کاموں سے منع کر رہا ہے؟ کس میں اس کی رضا ہے اور کس میں ناراضگی، کونسا راستہ جنت کو جاتا ہے اور جہنم میں لے جا نے والے اعمال کون سے ہیں۔ اللہ کے پیارے بند ے جب را توں کو کھڑے ہو کر اپنے رب کا کلام پاک سنتے ہیں تو انکی آنکھیں تر ہوجاتی ہیں، انکا دل خشیت الہیٰ سے بھر جاتا ہے۔
انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ و جلت قلو بھم واذا تلیت علیھم ایتہ زادتہم ایما نا ً و علیٰ ربھم یتو کلون۔
’’سچے اہل ایمان تو وہ لو گ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جا تے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑ ھی جا تی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں ۔‘‘  (سور ۃ الا نفال:  2)
اسی کا نام تقویٰ ہے اور اسی کیفیت کے تحت وہ رمضان کے دن گزارتے ہیں ۔۔۔ قرآن کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ دن بھر انہیں اللہ اور اس کے احکام یاد رہتے ہیں۔ وہ قدم قدم پر اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ پھر اگلی رات آجاتی ہے پھر قرآن سنتے ہیں اور ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے، اعمال نکھر تے چلے جاتے ہیں، گناہ دھلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک جب پہلا عشرہ رمضان گزرتا ہے تو روزہ دار اللہ کی رحمت کو حاصل کرچکے ہوتے ہیں ۔۔۔ دن گزرتے جا تے ہیں شوق و محبت بڑھتا جاتا ہے۔ مومن کا تعلق اپنے رب اور قرآن سے مزید مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی دعائوں میں اور ذکر میں سوز آجاتا ہے، تقویٰ کی اگلی منزلیں طے کرلیتا ہے اور دوسرا عشرہ گزرنے تک مغفرت کا حقدارہوجاتاہے اور آخری عشرہ رمضان کے تو کیا کہنے بندے کی خشیت الہیٰ  اور حب الہیٰ اتنی بڑھ جا تی ہے کہ وہ سب کچھ ترک کر کے رب کے در پڑتا ہے وہ دس دن کے لیے رب کی چو کھٹ تھام لیتا ہے۔ اب وہ ہوتا ہے اس کا رب، اس کا کلام پاک، ذکر اور دعا، آنسو اور آہیں اور نیکیوں کی کثرت اور پھر اللہ تعالیٰ آتش دوزخ سے رہائی کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔

لیکن افسوس! کتنے لوگ اس کیفیت اور جذبے سے قرآن پاک پڑ ھتے ہیں؟ کتنے اس احتساب کے ساتھ قیام الیل کر تے ہیں؟ اکثریت کا حال کیا ہے؟ اس کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی کیفیات کا بھی۔ پہلی بدنصیبی تو یہ ہے کہ اکثریت کو قرآن کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ نہ قرآن  پاک ترجمہ سے پڑ ھا، نہ سیکھا، نہ اسکی کوشش کی۔ زندگی میں انگلش بھی ٹیوشن رکھ رکھ کر پڑ ھی، فزکس، کیمسٹری کے لیے اکیڈمیوں میں جاتے رہے۔ بچوں کے لیے کئی کئی ہزار کے خر چے کیے کہ کیرئیر کا سوال ہے۔ ایسے کتنے خوش نصیب ہو نگے ہمارے معا شرے میں جو قرآن پاک سمجھنے کی خاطر بھی اپنے لیے بھی اور بچوں کے لیے بھی ٹیوشن کا بندو بست کرتے ہونگے کہ زندگی بھر کا نصاب ہے اس کو جان لیں! آہ بد نصیبی انسان ان تمام کتابوں کے پڑ ھنے اور سیکھنے کا کتنا اہتمام کرتا ہے جو ہر کلاس کے ساتھ بدل جاتی ہیں۔ کلاس اوّل سے لے کر کلاس دہم تک دس مر تبہ کتا بیں خر یدتے ہیں اور پڑ ھتے ہیں اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے تو کوئی حد ہی نہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب اور تو اور مقا بلے جاری رہتے ہیں! جبکہ خالق و مالک نے زندگی بھر کے لیے ’ایک اور صرف ایک‘ کتاب نا زل کی ہے اور زندگی میں ڈھیروں کتابیں رٹ لینے والے انسانو ں کا رویہ اس کتاب کے بارے میں کیا ہے۔

اس کتاب سے بے اعتنائی! جو زند گی بخشنے والی ہے، جو عروج کے زینوں پر چڑھانے والی ہے۔ وہ کلام الہی،ٰ جس کی اقامت  پر اوپر سے رزق بر سنے اور نیچے سے رزق لینے کی نو ید سنائی گئی، مگر ان کے لیے جو اس کا حق ادا کرتے ہیں۔
’’ کا ش انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگر چہ ان میں کچھ لوگ راست رو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے ‘‘۔(سورۃ المائد ہ:  66)

ہاں کہیے! رمضان تو قرآن کا مہینہ ہے۔ ہم تراویح میں قر آن سنتے ہیں۔ آخری عشرے میں شبینے ہوتے ہیں۔ لیکن  ہمارے اوپر بھوک اور غربت مسلط ہے۔ خشک سالی ہے اور مصائب ہیں۔ ہاں ہم رمضان میں تین بار قرآن پاک ختم کرتے ہیں اور شا ید اس سے زائد بھی ۔۔۔۔۔
دیکھنا یہ ہے کیسا سنتے ہیں اور کیسا پڑھتے ہیں اور اس وقت قرآن کے ساتھ ہمارا عملی رویہ کیا ہے۔
قرآن انقلاب کی کتاب تھی صرف ثواب کی کتاب بنادیا
یہ اعمال کی کتاب تھی وظیفوں کی کتاب بنا دیا
سمجھنے کی کتاب تھی پڑ ھنے کی کتاب بنا دیا
زندوں کا دستور تھا مُردوں کا منشور بنا دیا
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی صرف مدرسوں کا نصاب بنا دیا۔
مردہ قوموں کو زندہ کر نے آئی تھی مُردوں کو بخشوانے پر لگا دیا۔
یہ ہم نے کیا کیا؟
کیا رمضان میں اس رو یے میں تبد یلی آتی ہے؟
عملاً کیا ہو تا ہے؟ یہ دل کا ایک درد ہے جسے بیان کر تے ہوئے دل خون کے آنسو رو تا ہے۔ آخری عشرے میں مساجد میں خوب چراغاں کیا جا تا ہے۔ طاق راتوں میں شبینے ہوتے ہیں۔ کسی مسجد میں پانچ راتو ں میں قرآن ختم کیا جاتا ہے اور کسی میں دس راتوں میں۔ ہوسکتا ہے کہیں معیاری طر یقے سے قرآن پڑھا جاتا ہو لیکن عموما ً تو رو شنی کی رفتار سے پڑ ھتے ہوئے حفاظ ہوتے ہیں اور او نگھتے ہوئے مقتدی (الا ما شا ء اللہ )
سچ بتا ئیں یہ قرآن ہمارے حق میں حجت ہوگا یا ہمارے خلا ف؟
وہ قرآن جو ساری بیماریوں کی شفا بن کر آیا ہے۔ جس نے عربوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ جس کے ذریعے وہ چند سال کے اندر اندر دنیا کے حکمران بن گئے تھے،  اسی قرآن کو ہم نے مذاق بنادیا! قیام الیل کا مفہوم ہی کھودیا! قیام تو رہ گیا روح نکل گئی، جیسے مسجد میں داخل ہوتے ہیں، ویسے ہی کورے کے کورے باہر نکل آتے ہیں حالانکہ پورا پارہ سنتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ یہ سماعت قرآن ہماری شفاعت کرائے گی، ہمارے گناہ معاف کرائے گی؟

کہاں رہ گیا وہ ایمان اور احتساب؟ نہ دل کی کیفیت بدلی نہ سوچ، نہ عمل، کیا سنا؟ کیا سمجھا؟ دنیا میں ہی دیکھیں، کیا حا لت ہے! اتنا قرآن پڑھا جارہا ہے پڑھایا جارہا ہے، سنا جارہا ہے ہر سال، ہر رمضان میں، لیکن ہم جیسے رمضان میں داخل ہوتے ہیں ویسے ہی نکل آتے ہیں۔ نہ قلبی کیفیت بدلتی ہے، نہ اخلاق، نہ کردار، نہ ذاتی زندگی میں تبد یلی، نہ اقوام کی حالت میں تغیر۔ قرآن پڑھ رہے ہیں حامل قرآن ہیں لیکن کافروں کے غلام ہیں۔ ذلت و مسکنت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اگرچہ ہم قرآن کا احترام کر تے ہیں، چومتے ہیں، اونچا رکھتے ہیں، اسکی طرف پشت نہیں کر تے لیکن عملی زندگی میں شا ید یہی واحد کتاب ہے جسے پس پشت ڈال کر ہم ہدا یت  Oxford  اور  Haward  سے حاصل کررہے ہیں ۔

آئیے عہد کریں اس رمضان قرآن پاک کو سمجھنے کی کوشش شروع کردیں گے۔ کم از کم اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں رات کو جو پارہ سننا ہے دن میں اس کے تر جمے پر ایک نظر ڈال لیں اور پھر ایسا منصوبہ بنائیں کہ اگلا رمضان آنے تک ہم نے اتنا ترجمہ قرآن تو ضرور سیکھ لیا ہو کہ ہمیں مفہوم سمجھ میں آنے لگے۔ کم از کم تذکیری آیات کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ اگر ہم رو زانہ پانچ آیات پڑھیں تو ساڑھے تین سال میں ترجمہ مکمل طور پر سیکھ سکتے ہیں اور اس کا آغاز اس رمضان سے لا زما ً کردیں گے شاید کہ جنت کے دروازے ہمارے لیے بھی کھل جائیں! شاید کہ ہماری زندگی کا رُخ بدل جائے، شاید کہ امت پرچھائی ذلت و مسکنت دور ہو جائے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply