لہو لہو کراچی ”آسان نہیں ہے غم گساری“

ٹی وی اسکرین جس تواترسے یہ مناظر دکھارہا تھا وہ آہ وبکا اور چیخ وپکارکہ گویا گھمسان کا رن پڑاہے۔ یا یہ کسی فلم کے مناظرہیں؟ ان مصنوعی مناظرکو فلم کے لیے عکسبند کرنے میں کتنا کثیر سرمایہ اور وقت درکارہوتا لیکن یکے بعد دیگرے گزرنے والے یہ ناقابل یقین مناظر کراچی کی گنجان آبادایک بستی کے مناظرہیں۔ پورا شہر معمولات زندگی میں مصروف اور یہ ہزاروں بے گناہ لوگ موت کے سائے میں چار دن سے اپنے گھرمیں محصورہیں۔ ہرچندمنٹ کے وقفے کے بعد کوئی تازہ لہو اس مٹی میں جذب ہورہاہے۔ کسی حکمران کسی صدر‘ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کی جراءت ہے کہ وہ ان شورش زدہ علاقوں میں جاسکے۔ وہ تو ٹی وی میزبان ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ میں جان پر کھیل کر بلٹ پروف جیکٹس پہن کر ان مقتل گاہوں کا رخ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور تب دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے وہ وہ مناظر دیکھے اور سنے کہ الامان الحفیظ‘ وہ قافلہ ابھی فوج کی بکتربندگاڑی سے اتراہے۔ عورتیں‘ بچے‘ شیرخواربچے ماں کی گودوں میں ضعیف اور خوف و دہشت سے نڈھال نوجوان۔ 3 روز سے بھوک سے نڈھال ہیں وہ موت کے سائے اور فائرنگ کے شورمیں راتیں جاگ کر گزاری ہیں انہوں نے۔ ان کے وجود زبان حال سے ان کے نوحے بیان کررہے تھے۔ وہ باباجی بلک بلک کر رودیے کیمرے کے سامنے کہ آدھا خاندان گنوادیا تھا قیام پاکستان کے وقت۔ مگر صدمہ برداشت ہوگیا کہ منزل تو مل گئی اب جوان بیٹا گنوادیا اس لہو کی قیمت کون چکائے گا؟ تین معصوم بچوں کا باپ صرف دکان تک جانے کے لیے نکلا تھا کہ شیرخوارکو دودھ کی طلب تھی۔ گھرسے نکلا کہ گولی کا نشانہ بن گیا وہ گولی جوکسی مہاجر اورپٹھان سے اس کا پتا نہیں پوچھتی ایسی سیکڑوں گولیاں جو سینکڑوں بے گناہوں کے سینوں کے پار اترگئیں۔

4 دن بعد جب 100 کے لگ بھگ لوگ ان گولیوں کی بھینٹ چڑھ گئے تب صدر زرداری ایکشن لیتے ہیں کراچی کے حالات کا۔ تب رحمن ملک صاحب بیدار ہوجاتے ہیں اور رینجرز کو احکامات جاری کرتے ہیں۔ یہ پولیس اور رینجرز جو 4 روز سے تماشا بنی ہرگلی سے اٹھتی ہوئی لاشوں کو دیکھ رہی تھی اور محصور ومجبور عوام مدد کے لیے انہیں پکاررہے تھے مگر ان کو ”احکامات“ موصول نہیں ہوئے تھے وہ کیسے ریسکیو کرسکتے تھے۔ معصوم بچوں اور بے سہارا عورتوں اور مدد کے لیے پکارتے خون میں لتھڑے نوجوانوں کو اور وہ 10 برس کی بچی بھوک سے نڈھال خوف ودہشت کی علامت بنی بری طرح رورہی تھی کہ 3 دن سے اس کے گھروالوں نے ایک وقت کی روٹی نہیں کھائی، اس کے چھوٹے بھائی کو 104 بخار تھا اس کو دوائی تک نہ دے سکے کہ گھرسے باہرتو موت رقص کررہی تھی۔!! منی بس سے جو 5 افراد کی لاشیں ملیں۔ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ‘ایک ادھیڑ عمر شخص کے جنازے کے گرد اس کے 4‘ 5 معصوم بچے جو رو روکر نڈھال ہوچکے تھے۔ وہ بیٹی جوچیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ میں تو انٹرکا پیپر دینے گئی تھی اباجان مجھے چھوڑ کر آئے تھے سینٹر‘ انہوں نے تو مجھے بتایا بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے لینے نہیں آئیں گے۔ ظالموں نے میرے باپ کو لہولہان کردیا۔ مجھ سے میرا باپ چھین لیا۔کئی گولیاں میرے ابا کے سینے کو چھلنی کرگئیں۔ مجھے میرے باپ کا قصور کون بتائے گا۔ اس معصوم بچی کے سوال کا قوم کے کسی فرد کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ایک دو تو نہیں ٹی وی اسکرین نے چند لمحوں میں درجنوں جنازے دکھائے جن کے گرد ان کے پیارے رنج وغم سے نڈھال صرف گزشتہ 6 ماہ میں ہزارسے زیادہ بے گناہ افراد اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

ہمارے آقا جو امریکی غلام ہیں جو امریکی عینک سے دیکھتے اور امریکی دماغوں سے سوچتے ہیں ان کے خیال میں یہ دہشت گردی نہیں ہے۔ اس کو روکنے کے لیے نہ فورسز کی ضرورت ہے نہ ہنگامی اقدامات کی۔ راستہ چلتے اور منی بسوں میں سفرکرتے سینکڑوں ایسے بے گناہ شہری ہلاکتوں کی نذرہوئے جن کا کسی سیاسی گروپ سے کوئی واسطہ نہیں تھا‘ شہرکے بیچوں بیچ گنجان آبادی والے علاقے کے لیے دہشت گردوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیے گئے کہ وہ پہاڑیوں پر چڑھے گولیاں چلاتے رہے انسانی جانوں سے کھیلتے رہے اورکراچی سے اسلام آباد تک حکومتی رٹ کہیں بھی نظرنہیں آئی۔ قصبہ کالونی اورکٹی پہاڑی میدان جنگ بنے رہے‘ لوگ بھوکے پیاسے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ جنگ کس کی جنگ ہے؟ لیکن اس جنگ کا ایندھن وہ بیوہ عورت ہے جس کا اب کوئی کمانے والا نہیں بچا‘ وہ ہزاروں معصوم بچے ہیں جن کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھ گیا‘ کوئی نہیں جانتا کہ اب ان خاندانوں کا ذریعہ معاش کیاہوگا؟ کتنے معصوم بچے اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکیں گے یا نہیں۔ ان سیکڑوں بے گناہوں کے لہو کا قصاص کس سے وصول کیاجائے ۔ وہ جن کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانی جانوں کا احترام اور حفاظت تھی۔وہی دراصل امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور ان ناحق جانوں کے زیاں کے ذمہ دارہیں.

لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی‘ اسٹیٹ کرائمز غرض دوسروں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی وہ کون سی تدبیر ہے جو حکمران بروئے کار نہیں لارہے۔جہاں جنگ اختیار اور اقتدار کی ہو وہ معاشرے اسی طرح تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں۔ غیرمحفوظ لوگ اسی طرح بے آبرو ہوتے ہیں جیسے وہ نوجوان جس کا بھائی قصبہ میں بلندی سے آئی ہوئی گولی کا نشانہ بن گیا تھا ‘چلّاچلّاکر کہہ رہا تھا کہ کیا دیا مجھے پاکستان نے؟ مجھے نہیں رہنا اس دیس میں۔ بڑا خراج مانگتی ہے یہ مٹی۔ اقتدارکی ہوس میں اندھے طاقتوروں کومعاف کرنے اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے ریاست کی قوت کو اپنے گھرکی لونڈی بنانے والے یہ حکمران جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بہت باخبر ہیں کہ سٹیلائٹ انہیں یہ بھی بتادیتی ہے کہ کس کے چولہے کی ہانڈی میں کیا پک رہاہے؟ تو پھر مجرموں کی سرکوبی کیوں نہیں کی جاتی؟ مجرموں کی سرپرستی کیوں کی جاتی ہے؟ دولسانی گروپ جو شہر پراپنی اجارہ داری ثابت کرنا چاہتے ہیں اورجنہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور حکومت کو اور وزیر داخلہ کو 4 دن سے مقتل بنے گنجان آباد علاقوں میں ان کارروائیوں کے پیچھے ہاتھ نظرآتاہے تو طالبان کا اور حسب دستور طالبان پر ذمہ داری ڈال کر وہ گویا احساس جرم سے بھی بری ہوگئے۔ درحقیقت قوم کے وہ طبقے جو قوم کے دل اور دماغ ہوتے ہیں وہ بناو کے بجائے بگاڑ پر تلے ہوئے ہیں اور بناو کی ہرحد میں مزاحم‘ان سے چھٹکارہ ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply