کراچی کا سانحہ: اب تو عادت سی ہے مجھ کو

کراچی میں رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں ایک نہتے نوجوان کا قتل ایک انتہائی افسوسناک اور دردناک سانحہ ہے جس نے صرف مقتول سرفراز بلکہ پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے اور اس واقعے نے ایک بار پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات اور احتساب سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ ہماری ایجنسیز ،قانون نافذ کرنے والے اداے اور ان کے اہلکار ایک بدمست سانڈ کی طرح ہوگئے ہیں جو ہر ایک کو ٹکریں مارتا پھرتا ہے اور کسی کی اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اس بھپرے اور بد مست سانڈ کو روکنے کی کوشش کرے۔

ابھی خروٹ آباد والے وقعے کی انکوائری جاری ھی کہ اس کے بعد کراچی کے واقعے نے لوگوں کو دہلا دیا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا پولیس،رینجرز ،سی آئی اے اور دیگر فورسز کے اہلکار کسی قانون کے ماتحت نہیں ہیں؟کیا ان لوگوں کو عوام کے قتل عام کا کھلا لائسنس دیدیا گیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ رینجرز اہلکار کو واقعے کے دو روز گزرنے کے بعد گرفتار کیا گیا ،جبکہ اصولی طور پر تو اس کو اگلے ہی روز لاک اپ کردیا جانا چاہئے تھا۔

بوٹ بیسن پر جو کچھ بھی ہوا قطع نظر اس کے مقتول نوجوان جرائم پیشہ تھا یا نہیں تھا ۔ لیکن رینجرز کو کس نے یہ اختیار دیا کہ وہ نہتے عوام کو ’’سڑکوں پر انصاف ‘‘ کرتے ہوئے موقع پرہی کسی بھی فرد کو مجرم کہتے ہوئے قتل کردیں؟واقعے کی جو ویڈیو سامنے آئی اس نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ اس قدر سفاکیت اور امریکیت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ ایک نہتا نوجوان جس کو ایک فرد مارتا ہوا رینجرز کے حوالے کرتا ہے، اور پھر وہ رینجرز کے پانج مشٹنڈے اس کو گھیر کر سر عام دن دیہاڑے قتل کرتے ہیں جبکہ وہ چیخ رہا ہے اور رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔ رحمٰن ملک کے بقول نوجوان رائفل چھینے کی کوشش کررہا تھا۔ ملک صاحب کے بیان کو اگر قبول کرلیں تو کچھ اس طرح کا منظر ذہن میں آتا ہے کہ ابتدا ء میں جو دو گولیاں چلائی گئیں وہ اتفاقی اور اضطراری حرکت تھی، کیوں کہ جس اہلکار نے مقتول پر گن تانی اس نے مقتول کو زمین پر بیٹھنے کا ’’حکم ‘‘دیا۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مقتول نوجوان یہ سمجھا کہ یہ مجھے گولی مارنے والا ہے اور مقتول نے فوری طور پر اس کی گن کی نال نیچے کردی، جس پر رینجرز کے دیگر اہلکار بھی مشتعل ہوگئے اور سب نے اس کو زور زور سے بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن بدقسمتی سے مقتول سرفراز بیٹھنے کے بجائے بار بار اہلکار کی گن پکڑ کر اس کی نال نیچے کرتا رہا ،اور مذکورہ اہلکار کے قریب جاتا رہا کہ قریب سے یہ گولی نہیں مار سکے گا، اسی چھینا چھپٹی اور ہاتھا پائی میں ایک رینجرز اہلکار نے مقتول کو زور سے دھکا دیکر دور کیا اور دوسرے نے فوری طور پر گولی داغ دی۔ رحمٰن ملک کے بیان کو ذہن میں رکھ کر ہم مان لیتے ہیں کہ ویڈیو کے مطابق یہاں تک کا سارا وقعہ ایک حادثہ تھا لیکن نوجوان کے زخمی ہونے کے بعد رینجرز کی پوری ٹیم نے اپنے ساتھی کے جرم میں پردہ ڈالنے کے لئے انتہائی سفاکی کا ثبوت دیا اور اعانتِ مجرمانہ کرتے ہوئے نوجوان کو سڑک پر تڑپنے دیا تاوقتیکہ کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ دیکھا جائے تو اگر نوجوان کو فوری طبی امداد مہیا کی جاتی تو وہ بچ بھی سکتا تھا لیکن رینجرز نے اپنے ساتھی کو تحفظ دیا اور نوجوان کو مرنے دیا تاکہ اپنی مرضی کا وقوع بنایا جاسکے۔

اس کے بعد اگلے دن کے ایک یا دو اخبارات کے علاوہ تمام ہی اخبارات میں یہ خبر تھی کہ لوٹ مار میں مصروف ڈاکو رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔ عین ممکن تھا کہ یہی بات دب جاتی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ اصل واقعہ کیا ہے لیکن بینظیر پارک میں اس وقت ’’آواز ٹی وی ‘‘ کی ٹیم ایک پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھی ان کے کیمرہ مین نے شور شرابہ سن کر کیمرے کا رخ اس جانب موڑ دیا اور اس طرح یہ سارا معاملہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوگیا۔ اور اگلے دن لوگوں نے رینجرز کی سفاکیت کا مظاہرہ اپنے گھروں میں ٹی وی اسکرین پر دیکھا ۔سیکورٹی فورسز کو اب یہ عادت ہی ہوگئی ہے کہ وہ ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کرنے کے بجائے نہتے عوام پر شیر ہوتے جارہے ہیں۔ خروٹ آباد اور کراچی کا واقعہ تو ابھی حالیہ واقعات ہیں لیکن اس سے پہلے بھی پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی جانب سے عوام کے ساتھ زیادتیوں کو سلسلہ جاری رہا ہے جس کی ویڈیوز گذشتہ دن سے نجی چینلز پر چلائی جارہی ہیں لیکن کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جو میرے او رآپ کے سامنے پیش ہوتے ہیں لیکن جو کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رہ جاتے ہیں ۔اس لئے ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔یہی رینجرز اور پولیس 12مئی 2004،12مئی 2007۔نومبر2008میں کراچی کے فسادات،سانحہ عاشورہ،اور گذشتہ تین سالوں سے جاری تارگٹ کلنگ کو تو ختم نہیں کراسکے لیکن نہتے عوام پر یہ لوگ شیر ہیں۔ بقول شاعر اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں….

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے او ر ا س کا حل کیا ہے؟ ہماری ناقص رائے میں اس کی سب سے پہلی وجہ انصاف کا نہ ہونا،دہرے معیارات کا ہونا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک عام فرد اگر غلطی بھی کرے تو اس کو موقع پر ہی لترول، چھترول کی جائے، مرغا بنایا جائے۔ اور اگر کوئی جرم کرے تو نہ صرف اس کو بلکہ اس کے اہل خانہ کو بھی ذہنی اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی وردی والا، کوئی سیاسی لیڈر، کسی سیاسی جماعت کا کارکن، یا کوئی با اثر فرد جرم کرے تو اس کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جیل میں اے کلاس فراہم کی جاتی ہے اور سب سے بڑی بات کہ اس کو ہتھکڑی نہیں لگائی جاتی بلکہ اس کو ہتھکڑی لگائے بغیر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جب تک تمام لوگوں کے لئے خواہ ،وہ کوئی عام فرد ہو، کوئی لیڈرہو، کوئی سرکاری افسر، وزیر، مشیر ہو، یا کوئی فورسز کا اہلکارہو۔ جرم کے مطابق یکساں سلوک کیا جائے تو ایسے واقعات کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے۔

دوسری چیز عدلیہ اور پولیس و ررینجرز میں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جائے جب تک سیاسی بنیادوں پر ایس ایچ اوز ،ڈی ایس پیز اور دیگر من پسند افراد کے تقرر اور تبادلے ختم نہیں کیے جائیں گے،جب تک اس بات کو یقینی نہ بنایا جائے اگر کوئی فرد کسی جرم میں گرفتار ہوکر تھانے میں پیش ہو تو کسی سیاسی رہنما،کسی افسر کو یہ حق حاصل نہیں ہو کہ وہ اس میں مداخلت کرے اور نہ ہی کسی سیاسی رہنما،کسی سرکاری افسر،کسی وزیر مشیر کے کہنے پر کسی بے گناہ کو گرفتار کیا جائے ۔جب یہ ساری چیزیں کردی جائیں گی تو پھر ہی یہ سارے معاملات کسی حد تک سدھر سکتے ہیں ورنہ حالات مزید خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے ۔ اور اگر وردی والوں کا احتساب نہ کیا گیا۔ان کو ان کے جرم کی قرار واقعی سزا نہ دی جائے گی تو یاد رکھیں کہ آج تو رینجرز کے اہلکار لوگوں کو قتل کررہے ہیں ۔کل عوام اپنے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا لے گی اور معاشرہ بد امنی اور انتشار کا شکار ہوجائے گا اس لئے انصاف ،اور سب لوگوں کے لئے یکساں قوانین کا نفاذ ہی معاشرے میں امن و سکون کی ضمانت ہے۔

فیس بک تبصرے

کراچی کا سانحہ: اب تو عادت سی ہے مجھ کو“ پر 2 تبصرے

  1. جناب آپ کی تحریر میں اٹھائے گئے اکثر نکات سے متفق ہوں لیکن یہ جو آپ نے نوجوان کے قتل کا تجزیہ کرتے ہوئے رحمٰن ملک کی زبان بولی ہے اس پر شدید تحفظات ہیں۔ ویڈیو کو دیکھ کر ہر فرد اندازا لگا سکتا ہے کہ ان قاتل اہلکاروں کے تیور سے شروع ہی سے یہی لگ رہا تھا کہ نوجوان مارا جانے والا ہے۔ کوئی ذی ہوش شخص نوجوان کے اضطراری فعل اور التجائوں کو رائفل چھینے سے تشبیہ نہیں دے سکتا۔

    حقیقت یہی ہے کہ فوج اور نیم فوجی دستوں اور پولیس میں نیچے سے اوپر تک شاید یہ اتفاق رائے موجود ہے کہ جسے چاہو کھڑکا دو، خاص کر جس پر شک ہو۔ باقی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ احمد فراز کی یہ نظم ان کے کردار کو بخوبی عیاں کرتی ہے کہ۔۔۔
    آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
    تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
    اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
    کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
    آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
    اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
    خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
    پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
    اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہئیں
    اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
    پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں

  2. یہ تو ایک واقعہ ہے جو خروٹ آباد والے واقعہ کی طرح منظر عام پر آگیا. اس جیسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو تاریک راہوں میں مارے گئے ہوں گے. جن کے خون کا حساب صرف روز محشر لیا جا سکے گے. ہمیشہ سے ہمین یہ ہی پڑھا یا گیا اور بتایا گیا کہ پاک فوج ایمان ، نظم اور جہاد پریقین رکھنے والے مجاحدوں کا گروپ ہے لیکن آج 2011 میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ فوج کسی بھی قابض فوج سے مختلف نہیں اور اسکی حیثیت استعمار کے ہتھیار سے زیادہ کچھ نہیں.

Leave a Reply