پی این ایس مہران پر حملہ! مجرم کون؟؟

پی این ایس مہران پر دہشت گردون کا حملہ قابل مذمت عمل ہے. دہشت گردی کی اس واردات سے افواجِ پاکستان کا مورال ڈاؤن کرنے کی ناکام و ناپاک کوشش کی گئی ہے. انشاء اللہ العزیز ہماری افواج کو ایسی کاروائیوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا اور پاک فوج دہشتگردی کا نشانہ بننے کے باجود اپنے فرائض مکمل زمہ داری سے سرنجام دیتی رہیں گی. تمام اہل وطن یہ بات سوچتے ہیں کہ یہ حملے، یہ کاروائیاں، کب رکیں گی؟ یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ ملک میں دہشت گردی، بم دھماکے، فورسز پر حملے کب ختم ہونگے؟؟ ہماری ناقص رائے میں ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ ہم امریکہ کی اس نام نہاد جنگ سے باہر نکل آئیں۔امریکہ کی کاسہ لیسی اور اس کی غلامی سے نکل آئیں اور دہشت گردی کی ان وارداتوں کے ذمہ داران کا تعین دیانت داری سے کریں.

فی زمانہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کے پاس اپنی جان چھڑانے کا تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی بم دھماکہ ہو، فورسز پر کوئی حملہ ہو یا دہشت گردی کی کوئی بھی واردات ہو. فوری طور پر اس کا الزام طالبان اور القاعدہ پر لگادیا جاتا ہے اور ساتھ ہی کسی نامعلوم مقام سے طالبان کا کوئی رہنما (مغربی خبر رساں اداروں کو فون کرکے) اس واقعے کی ذمہ داری بھی قبول کرلیتا ہے. اس کے بعد بس بات ختم! آپ لوگ مجھے دہشت گردوں کا ہمدرد کہہ لیں، مجھ پر طنز کے تیر برسا لیں، مجھ پر تنقید کریں لیکن تھوڑا سا ٹھنڈے دل سے میری باتوں پر غور کرلیں تو مہربانی ہوگی.

سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ اِدھر دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے. ابھی لوگ یہ دیکھ اور سمجھ ہی رہے ہیں کہ کیا واقعہ ہوا؟ کس نے کیا ہے؟ کتنا نقصان ہوا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب فوراً سے پیشتر اس کی ذمہ داری ’’طالبان ‘‘ یا نام نہاد ’’القاعدہ ‘‘ پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے بعد اللہ اللہ خیر صلّا! نہ کوئی تفتیش نہ تحقیق بس بات ختم! ویسے یہ رحمان ملک صاحب وہی ہیں نا جو برطانیہ میں خفیہ جاسوسی ایجنسی چلا رہے ہیں اور اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی رحمان ملک صاحب ہیں جنہوں نے ممبئی دھماکوں کے بعد جب بھارت نے مبینہ دہشت گردوں کی ایک کشتی برآمد کی تھی تو اس کے جواب میں انہوں نے بھی ایک کشتی برآمد کرکے کہا تھا کہ اصل کشتی تو ہم نے پکڑی ہے۔ اور کیا یہ وہی رحمان ملک صاحب نہیں ہیں جنہوں نے کراچی میں سانحہ عاشورہ کو بھی خود کش حملہ قرار دیکر رینجرز کے ایک اہل کار کو تمغہ بھی عطا کردیا تھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ دھماکہ تو ریمورٹ کنٹرول تھا۔ یہ وہ رحمان ملک ہیں کراچی ہی میں حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر دھماکے کے بعد دو لوگوں کو خود کش حملہ آور کہا تھا اور کہا تھا کہ یہ لوگ حملے میں جاں بحق ہوگئے ہیں لیکن بعد میں یہ دونوں افراد زندہ سلامت اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے۔ تو وہی رحمان ملک صاحب پی این ایس مہران کے واقعے کو بھی طالبان کے سر ڈال رہے ہیں تو ان کی بات کا کیا اعتبار؟؟؟

اب ذرا غور کیجئے کہ امریکہ اور برطانیہ نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر عراق کا بیڑا گرق کردیا، لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی،پاکستان کی خودمختاری کو پامال کرکے روزانہ کی بنیاد پر ڈرون حملے کیئے جارہے ہیں، حتٰی کہ امریکہ اور نیٹو افواج ملک کی حدود میں داخل ہوکر کاروائیاں کرتی ہیں۔ امریکی صدر کہتے ہیں کہ ہائی ویلیو ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لئے ہر قسم کی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک امریکہ کی اس غنڈہ گردی کو ہلا شیری دیتے ہیں لیکن! لیکن دوستو اسی امریکہ، برطانیہ اورفرانس کی خبر رساں ایجنسیوں کے نام نہاد طالبان سے روابطے ہیں۔ نام نہاد طالبان ’’فون‘‘ کرکے اپنی کاروائیوں کی اطلاع ان تینوں ممالک کے اخبارات تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن وہی امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر قسم کی کاروائی کو جائز سمجھتا ہے وہ ان اخباری ایجنسیوں سے ’’طالبان ‘‘ کے فون نمبر نہیں معلوم کرسکتا۔ وہ امریکہ جو جدید ترین ٹیکنالوجی رکھتا ہے جو ایبٹ آباد کا آپریشن بقول امریکہ واشنگٹن میں براہ راست دکھا سکتا ہے وہ ان فون نمبرز کے ذریعے ’’دہشت گردوں‘‘ تک نہین پہنچ سکتا۔ وہ یہ نہیں معلوم کرسکتا کہ طالبان کے نام سے جو ای میل اس کو وصول ہوئی ہے وہ کس آئی پی ایڈریس سے آئی ہے۔ سوچیں اور غور کریں کہ کیا اس جدید اور ڈیجیٹل دور میں ایسا ممکن ہے؟ جواب ہے کہ نہیں ممکن نہیں ہے! تو پھر اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان اور القاعدہ کے نام پر دنیا کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اور اس کی آڑ میں پاکستان کو پھنسایا جارہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جارہا ہے.

اب تھوڑی توجہ پی این ایس مہران کے واقعے پر !غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے اس واقع کی ذمہ داری بعد میں قبول کی رحمان ملک صاحب نے پہلے ہی اس کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیدیا۔ آخر کیسے؟پھر دیکھیں کہ جب رحمان ملک اور نیوی کے ذمہ دارران کے بیانات میں تضاد ہے۔ حملے اتوار کو رات گئے تک جو خبریں میڈیا کے ذریعے عوام ت پہنچائیں گئی اس میں نیوی حکام نے واضح طور پر بتا کہ چار حملہ آور ہلاک اور چار گرفتار ہیں جبکہ پانچ سے دس مزید دہشت گرد اندر موجود ہیں لیکن جب اگلے دن رحمان ملک صاحب نے پریس بریفنگ دی تو انہوں نے پہلے تو امریکہ کا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے طالبان کو برابھلا کہا ،اس کے بعد اسامہ بن لادن کے لئے فاتحہ خوانی کرنے والے اکرنا پارلیمنٹ کو لتاڑا اور پھر انہوں نے یہ مضحکہ خیز بیان جاری کیا کہ حملہ آور دہشت گرد چھے تھے جن میں سے چار ہلاک ہوگئے جب کہ دو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے اس بیان نے افواجِ پاکستان کی اہلیت پر ایک سوال اٹھا دیا کہ اگر چار سے چھے دہشت گرد افواج کے بیس کے اندر گھس کر ان کو بے بس کرسکتے ہیں تو یہ ہماری حفاظت کیا کریں گی؟ یہ کیسے ملک کا دفاع کریں گے؟ خیر اس کے بعد اگلے روز یعنی بدھ 25مئی کو نیوی حکام کا بیان جاری ہوا کہ ’’نیول چیف نے ابتدا میں جو بیان جاری کیا وہی درست ہے،حملہ آور 12تھے ایف آئی آر میں تعدا غلط لکھی گئی ہے اس کو درست کیا جارہا ہے۔‘‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رحمان ملک صاحب نے غلط بیانی کیوں کی؟ انہوں نے دہشت گردوں کی تعدا کم کیوں بتائی؟ انہوں نے دہشت گردوں کی گرفتاری سے انکار کیوں کیا؟ وہ اس طریقے سے کس کو تحفظ دینا چاہتے تھے؟ ان سوالوں کا جواب آپ کو آخر میں مل جائے گا۔

دیکھیں جرم و سزا کے معاملے میں ایک سیدھا سادہ قانون ہوتا ہے کہ اگر کوئی جرم یا واردات ہوتی ہے تو اس کی تفتیش میں دیگر چیزوں کے ساتھ دو بنیادی نکات کے ساتھ تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ کسی کو بھی شک و شہبے سے بالاتر نہ سمجھا جائے،ہر زاویئے سے واردات کا جائزہ لیا جائے اور دوسرا اور اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ واردات کے بعد سب سے زیادہ فائدہ کس کو ملے گا۔ جس کو سب سے زیادہ فائدہ ملے گا وہی سب سے زیادہ شکل و شہبے کی زد میں آئے گا۔اب اس واردات کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ملے گا۔ طالبان کو یا امریکہ اور بھارت کو۔

اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد جس راستے سے بیس مین داخل ہوئے اس کے ایک فرلانگ پر ہی نیوی کی اہم تنصیبات موجود تھیں لیکن دہشت گردوں نے ان کو نقصان پہنچانے کے بجائے دیڑھ کلو میٹر پیدل جاکر نیوی کے دو اہم طیاروں پی سی 3اورین کو نشانہ بنایا بلکہ سب سے پہلے انہی کو نشانہ بنایا۔یہ طیارے پاک فضائیہ کی قوت تھے اور ان سے سمندری نگرانی کا کام لیا جاتا تھا۔ چار انجن والے یہ طیارے چوبیس گھنٹے تک فضاء میں رہ سکتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ طیارے آبدوز کو بھی نشانہ بنا سکتے تھے۔ ان طیاروں کی تباہی سے پاک نیوی کا سمندری حدود کی فضائی نگرانی کی اہیلت بیس فیصد رہ گئی ہے۔ یہ طیارے آج تک طالبان کے خلاف استعمال نہیں کئے گئے۔ تو پھر ان طیاروں کی تباہی سے کس کو فائدہ ہوا۔ طالبان کو یا بھارت کو؟ اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے بَیس پر پاک بحریہ کو ٹیکنکی معاونت فراہم کرنے والے چینی انجئیرز کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن ان کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی انجیئرز کو نشانہ بنا کر اور ان کونقصان پہنچا کر پاک چین دوستی متاثر کرنے میں طالبان کا فائدہ ہے یا امریکہ اور بھارت کا؟

اس واردت کے بعد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کا معاملہ ایک بار پھر اٹھایا جارہا ہے۔ کہ جو افواج اپنی بیس کی ہی حفاظت نہیں کرسکتی وہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیسے کرسکتی ہیں؟ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ ظاہر کرکے ان کی آڑ میں پاکستان میں امریکہ اور نیٹو کو فوجی کاروائی کا موقع فراہم کرنے میں طالبان کا فائدہ ہے یا امریکہ اور بھارت کا؟ اگر سوچیں گے اور غور کریں گے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آئیں گی۔ سوچیں اور غور کریں کہ کیا بھارت اتنا ہی شریف اور اچھا ہمسایہ ہے کہ پاکستان کو مشکل میں دیکھ کر اس کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا؟ کیا بلیک واٹر اور امریکی ایجنٹوں نے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے سے توبہ کرلی ہے؟ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ایک امریکی باشندے کو کہوٹہ پلانٹ کے نزدیک سے مشکوک حالت میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ وہ امریکی وہاں کیا کررہا تھا؟دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت (پاکستان) کس کی نظروں میں کھٹکتی ہے؟ جواب ہے کہ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ رحمان ملک،صدر زرداری، احمد مختار اور ان جیسے دوسرے لوگ جانتے بوجھتے پاکستان دشمنوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوں پر پردہ ڈالتے ہیں کیوں کہ ان لوگوں نے تو حکومت ختم ہونے کے بعد امریکہ،برطانیہ یا دبئی میں جاکر بس جانا ہے بھگتنا تو مجھے اور آپ کو ہے۔

فیس بک تبصرے

پی این ایس مہران پر حملہ! مجرم کون؟؟“ پر 18 تبصرے

  1. اس کے پالتو(پوڈل)
    ازراہ کرم اگر ممکن ہو تو مندرجہ بالا الفاظ ہٹا دیں۔ کیونکہ آپ نے یہ تجزیہ واقعاتی شہادتوں پہ کیا ہے مگر مندرجہ بالا الفاظ جہاں آپ کے اخلاق کو زیب نہیں وہیں یہ تاثر دیتے ہیں کہ شاید آپ برطانیہ و امریکہ سے کسی تعصب کی وجہ سے سارا ملبہ ان پہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

    آپ کا تجزیے سے اتفاق ہے۔ رحمان ملک کے بارے بہت سے لوگ انکے ماضی پہ انگلی اٹھاتے رہے ہیں۔ اور بدیانتی سے پاکستانی ریاست سے غبن وغیرہ کے الزام میں پاکستان سے فرار ہوجانے سے بھی قبل انھیں امریکہ کے لئیے کام کارنے والے کے لئیے جانا جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے۔ یہ اسب ان پہ الزام تراشی ہو مگر ہر واقعے کو خودکش حملہ قرار دے دینا اور موقع واردات سے زخمیوں کے ہٹائے جانے سے قبل ہی بغیر کسی تفتیش یا حقائق کے طالبان پہ ڈال دینا۔ رحمٰن ملک کے بیان کو مشکوک بناتا ہے۔ اور یہ طلبان یا القاعدہ نامی لوگ کیا سر پہ سلیمانی ٹوپی اوڑھے پورے پاکستان میں جہاں چاہتے ہیں وہاں اپنے لاؤلشکر ۔ اسلحہ و بارود ۔ مہنگی ترین ٹکنالوجی۔ اور مہنوں کے نیٹ ورک، درست معلومات ، اور مکمل ریہرسیل اور تیاری کے ساتھ درست درست اہداف پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور رحمٰن ملک کو ٹھیک اسی وقت نظر آتے ہیں جب وہ اپنا پہلا دھماکہ کرچکے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی کسی بھی ورادات کے فورا بعد یا پہلے یہ پر اسرار قسم کے دہشت گرد یا طالبان پھر سے سلیمانی ٹوپی پہن لیتے ہیں کہ رحمن ملک کو پھر سے یہ ملک کے طول و عرض میں حرکت کرتے نظر نہیں آتے کہ ملک صاحب انکی گرفتاری کے لئیے حکم جاری کر سکیں۔ ملک صاحب کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ وہ امریکی کی طرف سے دوستی کی آڑ میں ایبٹ آباد میں پاکستانی سرحدوں کے کے تقدس کے پرخچے اڑانے کے شرمناک واقعے کو بھی نام نہاد پراسرار قسم کے طالبان کے کھاتے میں ڈال دیتے۔ اور جب ملک صاحب کو اصل حقیقت کا علم ہوا تو انکو تین دن تک قوت گویائی نہیں ملی۔

    ملک صاحب یہ پوچھا جانا چاہئیے کہ جس وسوخ سے وہ دہشت گردی کی ہر واردات سلیمانی ٹوپی اوڑھے طالبان کے دہشت گردوں کے کھاتے میں دال دیتے ہیں کیا پاکستان کے وزیر داخلہ ہونے کے ناطے اسی وسوخ سے اپنے زیر نگرانی اداروں کی اس ننگی دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنے اور انکا سدباب کرنے کے لئیے انکی اہلیت کے بارے میں بھی دھڑلے کا بیان جاری کرسکتے ہیں؟ آخر کار کو وزیر داخلہ ہونے کے ناطے یہ ان کے منصبی اور اخلاقی فرض میں آتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ہونے والی ہر دہشت گردی کی واردات پہ اس دہشت گردی کو روکے نہ جانےکے انتہائی ذمہ دار ہیں۔ کیا اسبارے کبھی انہوں نے سوچا کہ بس اب بہت ہوچکا ۔ میں اس منصب کا اہل نہ ہونے کی وجہ سے اس سے استعفٰی دے کر کسی اہل کو موقع دیں کہ وہ اس دہشت گردی کو لگام دے۔

    کبھی کبھار یوں لگتا ہے کہ رحمٰن ملک کو پاکستان کے بارے دنیا میں پاکستان کو مشکوک کرنے کا کوئی خصوصی ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم باوجود جلدی میں تیار کی گئی اور اپنی ناتجربہ کاری کے اچھا بھلا کھیل بھارت میں پیش کر رہی تھی موصوف نے اسمیں بغیر کسی وجہ کے اپنا ناک گھسیڑتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کو سٹے بازی اور جوئے وغیرہ سے منع رہنے کا اسکینڈل بیان دیا۔ جس نے کھلاڑیوں کے اعصاب پہ برا اثر ڈالا اور پاکستان اور پاکستانی ٹیم کی جگ ہنسائی مفت میں ہوئی۔ اور اس اسکینڈل کا جو نتیجہ سامنے آیا اسمیں بھارت سے ہار کر ہم ٹھنڈے ٹھار گھر چلے آئے۔

    ملک صاحب آئے دن بیان دیتے تھے کہ جو لوگ پاکستان میں بلیک واٹر یا زی نامی بدنام زمانہ کے اہلکاروں اور ٹھیکداروں کی موجودگی کی بات کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ملک صاحب مذید فرمایا کرتے تھے کہ یہ ناممکن ہے ۔ اگر کسی کو بلیک واٹر نظر آئے تو مجھے کسی وقت بھی میرے فون پہ اطلاع دیں۔ ستم ظریقی دیکھئیے قوم سے جھوٹ بولتے ہوئے موصوف اپنا موبائل نمبر بھی پیش کرتے تھے۔ان سے پوچھا جانا چاہئیے تاھ کہ ریمنڈ ڈیوس کون تھا؟ اور پاکستان کے مایہ ناز سفیر حسین حقانی نے آئی ایس آئی سے بالا اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دئیے بغیر امریکہ سے دھڑا دھڑ پانچ ہزار ویزے کس خوشی میں اور کس کو دئیے تھے؟

    ان دہشت گردوں کے نمائندوں کا نامعلوم مقام سے مغربی ذرائع ابلاغ پہ اپنی مفت کی پبلسٹی اور پاکستانی کی بدنامی بمعہ مکمل سیاق و سباق کے چھاپ دینے سے بھی یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسطرح کی دہشت گردی کی وارداتیں ایک گہری چال ہیں۔ اور اسمیں پاکستان میں اپنی اردو نشریات اور انٹر نیٹ پہ اردو ایڈیشن چھاپنے والے ایک ادارے کی پاکستان پہ خصوصی نظر کرم ہے۔ جس نے حسب دستور جبکہ ابھی پاکستان کے نیول بیس کراچی میں زخمیوں کا خون بھی دھویا گیا تھا کہ اس نے اپنے اردو ایڈیشن اور دیگر میں اپنے ایک پاکستانی تنخواہ دار کی زبان سے پاکستان کی جوہری ہتیاروں کے بارے میں پورا کالم سیاہ کرتے ہوئے پاکستان کے جوہری ہتیاروں کے خلاف اپنی مذموم مہم کا آغاز کیا ہے۔ اگر کسی غیرتمند قوم کے ملک میں ایک غیر ملکی ادراے کے تنخواہ دار دیسی نام نہاد دانشور نے ایسی گھٹیا حرکت کی ہوتی جو اسکے دفاع سے متعلق دشمن کی نظروں میں شکوک و شبہات ابھارنے سے متعلق ہوتی اور جیسا کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کا تعلق ہے اسی طرح اس مسئلے کا واسطہ براہ راست ملکی سالمیت سے ہوتا جس پہ مذکورہ ادارے نے اس ملک کے اندر اپنی غلام سوچ کو وفادار ثابت کرتے ہوئے دانش کی بناءپہ ایسی لن ترانی کی ہوتی تو اس ادارے کا بوریا کب سے اس غیرتمند قوم کے ملک سے لپیٹ دیا جاچکا ہوتا۔ مانا کہ صحافت کو آزاد ہونا چاہئیے مگر جہاں کسی ملک و قوم کی آزادی و دفاع آڑے آئے وہاں ایسی مخصوص مقاصد کا پیچھا کرتی صحافت کو فارغ کر دینا چاہئے مگر نہیں صاحب یہ پاکستان ہے ۔ جس کا کئی سائیں خصم ہی نہیں ہے۔ جس کا جو جی آتا ہے وہ کرتا پھرتا ہے ، پاکستان کے خلاف مذموم پروپگنڈہ سے لیکر دہشت گردی تک اور کوئی وزارت داخلہ نامی شئے انکا ہاتھ مروڑنے کے لئیے نہیں ہے۔ مگر بیان بازی میں وہ کسی سے پیچھے نہیں۔ اور بیان بازی بھی اکثر وہ جس سے قوم کو نقصان کا حتمال رہے۔

    ۔

    جس قوم میں اخباری اطلاعات کے مطابق ریمنڈ ڈیوس جیسے سی آئی اے اہلکار کے پاکستان سے متعلق مذموم ارادے اور اسلحہ و نقشہ جات وغیرہ سمیت پاکستانی نوجوانوں کا پاکستان کے ایک بھرے پرے شہر میں ناحق قتل کرنے کے بعد ٹوپی ڈرامے سے وی آئی پی سمجھتے ہوئے خود جہاز تک چھوڑ کر آنے والے لوگ جو ملک کے اقتدار میں ہیں تو ایسے میں دہماکوں اور دہشت گردی کے بارے میں امپارشل رائے کیسے پیدا ہو؟

    • محترم جاوید گوندل صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ
      بڑی نوازش کہ آپ اپنے مصروف وقت میں سے میرے بلاگ کو پڑھتے ہیں بلکہ ان پر گرانقدر تبصرہ بھی کرتے ہیں ۔ جس کے لئے میں آپ کا مشکور ہوں۔ آپ کے کہنے کے مطابق مذکورہ لفظ (پالتو پوڈل) ویب سائٹ سےہٹا دیا ہے۔ آپ کی دیگر باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی سے مجھے مزید لکھنے کا حوصلہ ملتا ہے اور آپ لوگوں کی مثبت تنقید سے مجھے اپنی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ شکریہ

  2. خوشی ہوئی کہ آپ نےافواج کی حمایت کی ورنہ آجکل آرمی کو رگیدا جارہا ہے
    میں فوج کے سیاسی عمل دخل کا سخت مخالف ہوں لیکن فوج کی حمایت میرے دل میں کبھی کم نہیں ہوسکتی.
    باقی مختصر بات یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ تو ایک طرف طالبان ہماری جان کے درپے ہیں یہ لوگ ملک دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں یہ لوگ اس صدی کا فتنہ ہیں جو مسلمانوں کو تقسیم کررہے ہیں.

    • محترم شازل صاحب السلام علیکمم ورحمتہ اللہ
      میری کوشش ہوتی ہے کہ تنقید کو جائز حدود میں رکھوں۔ پی این ایس والا واقعہ اگرچہ بہت بڑا اور خوفناک واقعہ ہے لیکن بات یہ ہے کہ دہشت گرد اور مجرم ہمیشہ قانون اور سیکورٹی اداروں سے آگے ہی چلتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی کاروائی پوری منصوبہ بندی سے کرتا ہے،جبکہ سیکورٹی فورسز کو فوری طور پر جوابی کاروائی کرنی ہوتی ہے۔دہشت گرد کو اپنے ٹارگٹ کی مکمل معلومات ہوتی ہیں،وہ سب کو دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن سیکورٹی فورسز اس کو دہشت گرد کے بارے میں نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کتنے ہیں اور ان کی پوزیشن کیا ہے۔
      البتہ فورسز کو تجارت وغیرہ چھوڑ کر صرف اپنی پیشہ وارانہ ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے دفاع کی جانب توجہ دینی چاہئے

  3. اس میں کوئی شک نہیں کے رحمان ملک ایک چھوٹا اور بد دیانت شخص اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں تبدیلی کے بغیر ہم موجود قیامت خیز صورتحال سے باہر نہیں نکلے گیں. البتہ آپ تمام ذمہ داری سول حکومت پر ڈال رہے اور میرے نزدیک موجودہ بدترین دفاعی، خارجہ اور داخلہ پالیسی کے خالق ہماری فوج تھی، وہی اسے چلا رہی ہے اور صرف وہی اسے بدل سکتی ہے. سول حکمرانوں کا کام صرف کھاو پیو اور مزے کرو کے کچھ نہیں.

    • ًمحترم کاشف نصیر صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ
      میرے دوست میں اس وقعے کی ذمہ داری سول انتظامیہ پر نہیں ڈال رہا ہوں بلکہ میں نے حالات و واقعات کا ایک تجزیہ کیا ہے۔ اور میرے تجزئے کے مطابق اس واردات میں امریکی اور بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ البتہ میرے نزدیک اس واردات کے بعد نیوی اور دیگر سیکورٹی اداروں کی اہلیت پر شک کرنا درست نہیں اس کی دو وجوہات ہیں پہلی وجہ میں شازل صاحب کے تبصرے میں لکھ چکا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ سیکورٹی فورسز (آرمی،فضائیہ،نیوی ریجنرز وغیرہ ) کا سپاہی تو لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوتا ہے وہ تو اپنی جان وطن پر نچھاور کرنے کے تیار ہے لیکن افسران مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں جرنیل ہتھیار ڈال دیتے ہیں (اکہتر کا سانحہ اور کارگل کی جنگ میں سپاہیوں نے ہتھیار نہیں ہار نہیں مانی تھی بلکہ جرنیلوں نے ہتھیار ڈالے تھے )۔ اور بعض مواقع پر افسران بھی کچھ کرنا چاہیں تو سول انتظامییہ کاروائی کی اجازت نہیں دیتی۔ ڈرون حملوں کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ ائر چیف کہتے ہیں کہ اگر اجازت ملے تو ڈرون حملے روک سکتے ہیں لیکن سول انتظامیہ اجازت نہیں دیتی، ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر بھی یہی ہوا کہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل شجاع پاشا نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کو صدر زرداری کے کہنے پر چھوڑا گیا۔ سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکہ،بھارت،بلیک واٹر ملوث ہیں لیکن سول انتظامیہ ان سب رپورٹس کونظر انداز کرکے ہر واقعے کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتے ہیں اس لئے میں نے سول انتظامیہ کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

  4. تجزیہ میں صرف ایک جگہ اختلاف ہے. جہاں قابل احترام مصنف کہتے ہیں :
    ” دہشت گردی کی اس واردات سے افواجِ پاکستان کا مورال ڈاؤن کرنے کی ناکام و ناپاک کوشش کی گئی ہے. انشاء اللہ العزیز ہماری افواج کو ایسی کاروائیوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا اور پاک فوج دہشتگردی کا نشانہ بننے کے باجود اپنے فرائض مکمل زمہ داری سے سرنجام دیتی رہیں گی ”
    میرا خیال ہے کہ ڈرایا جاسکتا ہے اور اتنا ڈرایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی آرمی جوہری تنصیبات کی امریکا کے ساتھہ مشترکہ نگہبانی کے لئے تیار ہو جائیں.
    میرا خیال ہے کے امریکا گزشتہ دس سالوں میں پاکستان کی بری ، بحری اور فضائی افواج میں سرائیت کر گیا ہے اور میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین بھی ہے کہ ان افواج کے سربراہان خاص طور پر نیول چیفس اپنی ہوش ربا اور ناقابل یقین بد عنوانیوں کے باعٽ اس ملک کا دفاع کرنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں.
    پی این اس مہران کا واقعہ نااہلی سے زیادہ “اندرونی مدد ” معلوم دیتا ہے.

    • محترم ڈاکٹر جواد احمد صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ
      ڈاکٹر صاحب ہر فرد کا کسی بھی معاملے پر ایک نقطہء نظر ہوتا ہے۔ ہر فرد کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے ۔ میں نے جو کچھ محسوس کیا اس پر جو میرا نقطہء نظر اور رائے تھی وہ میں نے ظاہر کی ہے۔ آپ کو اختلافِ رائے کا پورا حق ہے میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں

  5. میں آپ کے اس تجزیے کے کچھ نکات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ نجانے کیوں افواج پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے سارا ملبہ سول حکومت پر ڈال رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت تو صرف کٹھ پتلی ہے۔ فوج اور امریکہ درحقیت کنگ میکر ہیں۔ آپ نہ ڈرنے کی بار کررہے ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ اسلام اباد کی 90 فیصید سول اور فوجی بیورو کریسی امریکہ سے خوفزدہ ہے۔ اور مملکت پاکستان کے ہر ادارے میں امریکی اثر و نفوذ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اور انہیں امریکی سفارت خانہ ڈکٹیٹ کرتا ہے۔

    انہیں جواب دینا ہوگا کہ صرف 6 یا 12 دہشت گرد اتنی بڑی کاروائی آسانی سے کیسے کرگئے۔ بزدل نیول چیف اور رحمن ملک کہتے ہیں کہ دہشت گرد تربیت یافتہ اور شارپ شوٹر تھے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ افواج پاکستان کو کیا گھاس کاٹنے کی تربیت دی جاتی ہے؟

    • محترم وقار اعظم صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ
      محترم آپ کا اور کاشف نصیر کے پوائنٹس تقریباً ایک ہی ہیں اس لئے میں گزارش کرونگا کہ آپ محترم کاشف صاحب کے تبصرے پر میرا جواب پڑھ لیں ۔شکریہ

  6. وقار اعظم بھائی ۔
    ہم پوچھتے ہیں کہ افواج پاکستان کو کیا گھاس کاٹنے کی تربیت دی جاتی ہے؟

    خصوصی طور پہ ایسی واردتوں کو روکنے کے لئیے کے لئیے خصوصی تربیت یافتہ دستے ممکن ہے اس وقت فوری طور پہ دستیاب نہ ہوں کیونکہ کہ دہشت گرد کونسا اپنا شیڈول اعلان کر کے حملہ کرتے ہیں کہ ہر جگہ دہشت گردی کے خلاف خصوصی تربیت یافتہ پاکستان افواج کے شارپ شوٹر ہر جگہ دستیاب ہوں۔

    پھر بھی اسطرح کی دہشت گردی کے حملوں میں جوابی کاروائی کے لحاظ سے ابھی تک پاکستانی فوجی دستوں کا ریکارڈ دنیا بھر کے ممالک کے انتہائی تربیت یافتہ خصوصی دستوں کی نسبت کافی بہتر ہے۔ جس میں تربیت اور جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملکی سالمیت یا عزت کو ترجیج دینا ہے۔ اس طرح کی وارداتوں اور حملوں میں توپ کے سامنے چھاتی کھڑی کردینے والے جوان بعین اسی جذبے سے معمور ہیں جسطرح پاکستان کے عوام پاکستان کے لئیے جذبہ رکھتے ہیں۔

    اگر کوئی مسئلہ ہے تو یہ اونچے لیول کے فیصلہ ساز جرنیلوں اور نیوی وغیرہ کے سربراہان میں ہے۔ جو پاکستان کے متعلق دفاعی پالیسز میں فیصلہ ساز رسوخ رکھتے ہیں اور میری ذاتی رائے میں ان میں بھی اکثریت پاکستان کی موجودہ صرتحال اور امریکی عمل دخل سے نالاں ہے۔

  7. جاوید بھائی نے بہت خوبصورت بات کہی ہے، بلکل ایسا ہی ہے جیسا جاوید بھائی نے فرمایا ہے عام فوجی خود اپنے افسران کی پالیسوں سے بدزن ہیں وہ اپنے ادارے کے ڈسپلن کی وجہ سے مجبور ہیں۔ باقی رہی بات کاشف نصیر بھائی اور وقار اعظم کے ذہنیت ایک ہونے کی تو اسکی وجہ صاف ہے دونوں کی برین واشنگ ایک ہی ایک ہی واشنگ مشین سے کی جاتی ہے یہ بیچارے مجبور ہیں انہیں سبق ہی یہ پڑھایا جاتا ہے کے کوئی بھی واقع ہو کوئی بھی ثانحہ ہو اس میں چاہے ہماری اپنی ہی کمی کوتاہی ہو اپنی ہی غداری ہو مگر الزام امریکہ کو ہی دینا ہے۔

    • مبارکاں جی مبارکاں۔۔۔۔
      فکرمند صاحب نے حملے کی ذمہ داری جماعت اسلامی پر نہیں ڈالی۔
      بھائی جی، طبعیت تو ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔ 😛

  8. فوج اور آئی ایس آئی کا ایک حصہ دہشت گردی کے کینسر میں مبتلاء ہوچکا ہے،
    اسے جڑ سے کاٹ کر پھینکے بغیر پاکستان کے حالات میں سدھار پیدا ہونا ناممکن ہے،
    یہی لوگ ہیں جوفوج کے اداروں پر حملوں ، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ سے لے کر بینکوں کی ڈکیتیوں ، اغوا برائے تاوان کےکاروبار میں بھی ملوث ہیں!

    • ہمممم۔۔۔
      لگتا ہے الطاف بھائی نے اپنا آرٹیکل چھپوانے سے پہلے عبداللہ صاحب اور دوسرے کارکنوں کو بھیج دیا تھا۔ کیا خوب سائنسی تجزیہ کیا ہے۔ 😆 😆 😆 😆

  9. میرا سوال فاضل مضمون نگار سے صرف یہ ہے کہ کیوں پاکستان آرمی ڈرون حملوں پر یہ کہتی ہے کہ ” اگر حکومت کہے گی تو ہم ڈرونز کو مار گرائیں گے ” ؟ کیا وہ بھارتی فضائی خلاف ورزی سے نمٹنے کے لئے بھی حکومت سے اجازت طالب کرتی ہے ؟
    پھر اس جنرل کیانی و پاشا نے اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت پر کے جانے والے ڈرامے میں ایکسٹراکے رول جس خوبی سے نبھائے ہیں وہ مزید سنگین نوعیت کےسوالات کو جنم دیتے ہیں.
    ہمارے جنرلز کہتے ہیں کہ انکے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے آپکو پتا نہیں چلا ….مگر کوئی بھی ان سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ حضرت جب آپکو علم ہوا تب آپنے کیا کیا ؟ ان میں تو اتنی ہمّت نہیں تھی کہ انھیں گھیر کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیتے. اپنے چیف کو معزول کرنے پر ایک منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کر دینے والی یہ آرمی کیا اتنی ہی کمزور ہے ؟
    آپ مانیں یا نہ مانیں یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ انکے اپنے ویسٹد انٹرسٹ نہ ہی انکو سچ بولنے دیں گے اور نہ ہی اس ملک کی حفاظت کرنے دیں گے.

Leave a Reply