ایبٹ آباد آپریشن اور تضاد بیانیاں

اسامہ بن لادن شہید تو اپنی منزلِ مراد پا چکے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ اس بارے میں سچ کیا ہے وہ تو ایک یا دو ہفتوں میں سامنے آجائے گا لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ پیر کو اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کا اعلان کیا گیا ،اور منگل سے اب تک امریکہ اور پاکستانی حکام کی کئی تضاد بیانیاں سامنے آچکی ہیں۔اطلاعات کے اس جنگل میں اصل بات تو شائد اس وقت معلوم نہ ہوسکے اور لگتا ایسا ہے کہ شائد سال دو سال کے بعد ہی اس سارے واقعے کے متعلق حقائق سامنے آئیں گے۔ ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کافی عرصہ پہلے شہید یا جاں بحق ہوچکے ہیں اور امریکہ کو یہ بات پتہ تھی لیکن وہ دس سالوں تک ان کا نام استعمال کرتے رہے اور اب انہوں نے محسوس کیا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے اور افغانستان سے نکلا جائے تو انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرتے ہوئے اول اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان کے سر ڈالا، دوم پاکستانی حکم اور ایجنسیوں کی امریکی حکام اور سی آئے اے سے ایک سرد جنگ جو چل رہی تھی اس کا بدلہ لینے کے لئے اسامہ کی موجودگی کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریب ظاہر کر کے دنیا بھر میں یہ پیغام دیا کہ پاکستانی ایجنسیاں یا تو اتنی ناہل ہیں یا اتنی دوغلی ہیں کہ اسامہ یہاں موجود تھا اور انہوں نے اس کی اطلاع نہیں دی۔ تیسری طرف میرے منہ میں خاک پاکستان کی ایٹمی پلانٹ اور جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم اور ناکام ریاست ثابت کرنے کے ایجنڈے پر عمل شروع کردیا گیا۔ غیر اس حوالے سے تو پوری دنیا کے میڈیا میں باتیں ہورہی ہیں ہم اس مضمون میں ایبٹ آباد آپریشن سے متعلق تضاد بیانیوں کا جائزہ پیش کریں گے جن سے ہمارے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سارا آپریشن ڈرامہ ہے اور پاکستان کو پھنسانے کی ایک سازش ہے اور اس سازش میں ہمارے عسکری و سیاسی حکام بھی شامل ہیں۔

لیکن اس آپریشن سے متعلق جو ابتدائی خبر روزنامہ جنگ کی 2مئی بروز پیر کی اشاعت میں شائع ہوئی ۔ یہ خبر صفحہ اول پر تین کالمی صورت میں شائع کی گئی۔ خبر کے مطابق ”ملٹری اکیڈمی کاکول کے قریب 3دھماکے ،فائرنگ،ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ۔ فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ اگلے دن یعنی 3مئی بروز منگل کو روزنامہ جنگ کراچی کی سرخی یہ تھی کہ ” ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن: اسامہ بن لادن ہلاک،لاش سمندر برد،پاکستان کے تعاون سے ٹھکانے تک پہنچے ،انصاف ہوگیا۔اوبامہ:کہا جارہا ہے کہ یہ آپریشن 40منٹ میں مکمل کیا گیا لیکن اسی خبر کے اس خبر کے متن میں ایک عینی شاہد کا بیان بھی شائع ہوا ہے ۔اور وہ بیان اس دعوے کی نفی کر رہا ہے عینی شاہد کے مطابق”کاکول کے قریب ٹھنڈا چوا کے علاقے میں فوجی کاروائی شروع ہونے کے کوئی 2گھنٹے بعد ایک دھماکے کے آواز سنائی دی،اس کے ساتھ ہی گولیاں چلنے کی آواز آئی،پھر توپ کے گولے کی طرح آواز سنی گئی انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی ایک ہیلی کاپٹر ایک حویلی نما مکان کے باہر گر کر تباہ ہوگیا اور آگ لگ گئی“ قارئین کرام اس کا مطلب یہ ہوا کہ اول تو ساری کاروائی 40منٹ کے بجائے کم و بیش ڈھائی گھنٹے جاری رہی اور اس میں ہماری فورسز بھی شامل تھیں،ورنہ عینی شاہد فوجی کاروائی کا لفظ استعمال نہ کرتا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ 40 منٹ میں کاروائی کا سارا دعویٰ عالمی دہشت گرد اور جھوٹے امریکہ کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور باقی سارا میڈیا امریکی بیان کو ہی آگے بڑھا رہا ہے۔

پھر اس کاروائی میں پاکستانی تعاون کا معاملہ بھی گھبیر ہوتا جارہا ہے۔ منگل کو شائع ہونے خبروں کے مطابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے اسامہ بن لادن کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان کے تعاون سے ٹھکانے تک پہنچے ،انصاف ہوگیا۔اوبامہ۔اسی روز پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے بیان دیا کہ ”اسامہ کے لئے انٹیلی جنس معلوما ت کا تبادلہ ہوا“ 4مئی روزنامہ جنگ کراچی کے صفحہ 12 شائع ہونے ایک خبر کے مطابق”امریکہ نے آپریشن کی تفصیلات سے ایک ہفتہ قبل آگاہ کردیا تھا: دونوں ممالک نے ہائی ویلیو ٹارگٹ سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ کر کے آپریشن کی تفصیلات طے کیں“ اس کے ساتھ ہی اگر 3مئی کو شائع ہونے والے ترجمان دفتر خارجہ کے بیان کو ملا کر پڑھا جائے تو صورتحال مزید واضح ہوتی ہے ۔3مئی کو روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے ایک خبر میں ترجمان دفتر خارجہ نے فرمایا کہ ”امریکہ نے اپنی پالسیی کے تحت براہ راست کاروائی کی“ ترجمان کے بیان کا لب ولہجہ یہ بتا رہا ہے کہ آپریشن ان کے لئے غیر متوقع نہیں تھا۔اسی دن روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر ہی ایک اور خبر بھی شائع ہوئی ۔اخبار کے نمائندے کے مطابق ”اسامہ کے خفیہ ٹھکانے سے متعلق اہم معلومات آئی ایس آئی نے سی آئی اے تک پہنچائیں“۔ ایک طرف یہ صورتحال کہ پاکستان کو اس آپریشن میں معاون و مددگار ثابت کیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری جانب کچھ دوسرے بیانات بھی سامنے آتے ہیں -منگل 3مئی کو ہی روزنامہ جنگ میں ایک اور خبر بھی شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ”اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی سے پاکستان لاعلم تھا: امریکا۔خبر کے مطابق انسداد دہشت گردی کے امریکی سربراہ جان برینن نے اس بات کی واضح تردید کی کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں پاکستان کا تعاون بھی شامل رہا ہے۔“ بدھ4مئی کو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ لیون پینیٹا نے باقاعدہ طور پر پاکستانی تعاون کی تردید کردی۔روزنامہ جنگ کراچی میں بدھ 4مئی کوسی آئی اے کے سربراہ کا یہ بیان خبر شہہ سرخی کے ساتھ جاری کیا گیا کہ”پاکستان کو بتاتے تو اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ناکام ہوسکتا تھا:سی آئی اے چیف۔انہوں نے مزید کہا کہ ” امریکہ نے کئی ماہ قبل ہی کاروائی کا سوچا تھا لیکن سی آئی سے کو پاکستان پر بھروسہ نہیں۔پاکستانی حکام ٹارگٹ کو خبردار کردیتے: لیون پینیتا کو امریکی جریدہ کو انٹرویو:“ دیکھا جائے تو یہ نام نہاد اسٹرٹیجک پارٹنر کی انتہائی توہین اور پاکستانی حکام کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا گیا ہے۔ حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ہم امریکہ کی چاپلوسی کر کے اس کو خوش کرلیں گے لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہی بیوفائی کی ہے (دشمن تو اس کو ایسا سبق سکھاتے ہیں کہ یاد رکھتا ہے۔ویت نام اس کی ایک مثال ہے) کیا خوب کہا تھا شاعر نے ع نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ نہ اِدھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
اس کے بعد امریکہ نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصاویر جاری کرنے کا ڈرامہ کیا لیکن افسوس کہ یہ ڈرامہ بھی بہت برے طریقے سے ناکام ہوگیا۔1991میں امریکیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے کسی نامعلوم فرد کی لاش کے چہرے کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے اسامہ بن لادن کا چہرہ فٹ کردیا گیا لیکن یہ ڈرامہ اپنے آغاز کے چند گھنٹوں بعد ہی فلاپ ہوگیا ۔


اس پر ہی بس نہیں کیا گیا بلکہ مزید ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بار پھر اسامہ بن لادن کی لاش کی ایک نئی تصویر جاری کی گئی ۔ روزنامہ جنگ جمعرات 5مئی کی اشاعت میں صفحہ اول پر دو تصاویر شاع کی گئی۔ ایک تصویر کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ اسامہ بن لادن کے بیٹے یا گارڈ کی ہے۔جبکہ دوسری تصویر میں ایک امریکی سپاہی اسامہ بن لادن کی لاش کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ تصاویر کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایبٹ آباد والے مکان میں آپریشن کے بعد لی گئیں ہیں لیکن جھوٹ کی حد یہ ہے کہ نامعلوم فرد کی لاش تو بالکل واضح اور صاف نظر آرہی ہے اور لیکن اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر ”نائٹ وژن ‘ کیمرے سے لی گئی ہے اور دھندلی دھندلی ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ ایک ہی فوجی آپریشن کے دوران دو تصاویر لی جائیں اور ایک تو بالکل واضح ہو جبکہ دوسری نائٹ وژن کیمرے سے لی گئی ہو۔

(جاری ہے)

فیس بک تبصرے

Leave a Reply