بارہ مئی 2007 اور 90کی دہائی کی دہشت گردی کا ریکارڈ

12مئی 2007ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب جب ایک فاشسٹ اور دہشت گرد گروہ نے ایک آمر مطلق کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنے دنیاوی اور وقتی اقتدار کو دوام بخشنے کی لاحاصل کوشش میں ملک کے سب سے بڑے شہر کو ایک مقتل میں تبدیل کردیا۔ پورے ملک کے میڈیا نے یہ سارے مناظر براہ راست نشر کئے۔اور سارے ملک کے لوگوں نے اس دہشت گرد اور تخریب کار گروپ گروپ کی سفاکی اور امریکیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اس دن کراچی شہر ایک جنگی قلعے میں تبدیل تھا ۔کراچی کے ’’دونمبر ‘‘ ناظم شہر اور دہشت گردوں کے نمائندوں نے سارے وسائل اس ظلم کے لئے استعمال کئے۔ ذرا غور کیجئے،پولیس جو کہ سندھ گورنمنٹ کے ماتحت ہوتی ہے اور سندھ کا وزیر اعلیٰ ایک ایسا شخص تھا جو کہ ان دہشتگردوں کی آشیرباد سے مسند وزارت پر بیٹھا تھا اور گورنر ان کا حلف یافتہ اور دیرینہ کارکن ہے اس لئے پولیس کو سختی سے منع کردیا گیا کہ اس دن متحدہ کے دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ ہے ۔کسی نے کچھ نہیں کرنا ہے ۔ پھر مشیر داخلہ وسیم اختر جن کی ’’طاقت گفتار‘‘ اور ’’اعلیٰ اخلاق ‘‘ کا مظاہرہ اہلیان پاکستان نے چند ماہ قبل ملاحظہ کیا جب پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر انہوں نے اپنی لفاظی کے جوہر دکھائے اور مخالفین کی ماؤں بہنوں،کو سر عام لتاڑ دیا تھا۔سیاست کے معرکے کو سر کرنے کے لئے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو بھی پامال کیا اور مخالفین کی ماں بہن تک کو ٹی وی اسکرین پر آن کیمرہ گالیاں دی گئیں،وہی وسیم اختر اس وقت مشیر داخلہ تھے اور انہوں نے بھی رینجرز اور پولیس کو کسی بھی معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا کہا ہوا تھا۔

اس کے بعد کل تک لاروش ریسٹورنٹ کے مینیجر اور آج کے ایک بہت بڑے بلڈر،بابر غوری جو کہ اس وقت وزیر شپنگ اینڈ پورٹ تھے،انہوں نے پورٹ سے سینکڑوں کنٹینرز فراہم کر کے کے شہر کی ناکا بندی کی اور شکاریوں کی اصطلاح میں ’’مچان باندھ ‘‘ کر مخالفین کا شکار کھیلا گیا۔ رہے دو نمبر سٹی ناظم تو انہوں نے سٹی گورنمنٹ نے اس دن اپنے نام نہاد جلسے کے انتظامات کے لئے سٹی گورنمنٹ کے سارے وسائل جھونک دیئے،سٹی گورنمنٹ کی گاڑیاں،اسنارکل،وغیرہ اور سٹی گورنمنٹ کا اسٹاف جلسے کے انتظامات میں جتے رہے۔یہی سارے لوگ اس وقت صوبہ سندھ کے عمومی اور کراچی کے تمام وسائل پر قابض تھے اور انہوں نے شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔اور آج یہ لوگ عوام کو بیوقف بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر ایم کیو ایم کو اقتدار ملا تو یہ کردیا جائے گا،وہ کردیا جائے،انقلاب برپا ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ ‘‘ لیکن یہی لوگ تو پچھلے بارہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ جنرل مشرف کا دور ہو یا موجودہ پی پی پی کا دور ،یہی لوگ اہم وزارتوں پر فائز ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے روٹھنے ،اور حکومت سے باہر نکلنے کا ڈرامہ کیا جاتا ہے اور پھر مزید مراعات حاصل کر کے اسی حکومت کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں،یعنی کہ رند کے رند رہے ۔ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔

لیکن دوستوں! بارہ مئی کو جو کچھ ہوا کیا وہ پہلی بار ہوا تھا؟ کیا اس سے پہلے شہر کراچی بالکل پر امن شہر تھا؟ کیا اس سے پہلے شہر میں ایسی قتل و غارت گری نہیں ہوئی تھی؟ ایسا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہی گروہ شہر میں قتل و غارت گری اور مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے کاموں میں سرگرم رہا ہے۔ بارہ مئی 2004کو قومی اسمبلی کے حلقہ NA147پر ضمنی الیکشن کے موقع پر ایک ہی دن میں جماعت اسلامی کے نو کارکنوں کو شہید کیا گیا،لیکن چونکہ مرنے والے جماعت کے لوگ تھے اس لئے میڈیا نے اس واقعے کو اتنی اہمیت نہیں دی،اس وقت بھی اسی دہشت گرد اور قاتل موومنٹ کے کارکنوں نے ایک نشست کے لئے نو لاشیں گرا کر لوگوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ یہ فاشسٹ اور دہشت گرد گروہ اپنے مفادات اور اقتدار کے لئے درجنوں بلکہ سینکڑوں انسانی جانوں کو ضائع کرسکتا ہے۔

یہ لوگ کراچی آپریشن کے حوالے سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کراچی آپریشن نہ کیا جاتا تو اس وقت پتہ نہیں کراچی کا کیا حال ہوتا۔ یاد رکھیں کہ بارہ مئی 2007اور بارہ مئی2004کو جو کچھ ہوا ۔یہ سب کچھ تو شہر کراچی کے عوام 1986سے بھگت رہے ہیں۔ اس وقت سے شہر میں بوری بند لاشیں،بھتہ خوری،ٹارچر سیلز،مخالفین کو قتل کرنے کا کام جاری و ساری ہے۔ کراچی آپریشن کے ذریعے ان کو لگام دینے کی کوشش کی گئی تھی۔یہاں ہم بینظیر بھٹو موحومہ کے دوسرے دور حکومت میں شہر کراچی میں ہونے والی قتل غارت گاری اور ڈکیتیوں کی صورتحال کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کریں گے اس کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ کیا کراچی آپریشن درست نہیں تھا؟ یہاں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ آج تو ہر واردات طالبان،امن کمیٹی،لینڈ مافیہ،اور اے این پی کے سر ڈال دی جاتی ہے ۔لیکن اس دور میں نہ تو امن کمیٹی تھی،نہ طالبان کا ظہور ہوا تھا اور نہ ہی اے این پی سیاسی طور پر اتنا اثر رسوخ رکھتی تھی کہ وہ شہر میں کوئی گربڑ کرا سکے۔محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کا آغاز 20اکتوبر1993سے ہوا اور چونکہ ایم کیو ایم اس سے قبل محترمہ کی پہلی حکومت سے الگ ہوکر ان کی مخالف ہوچکی تھی اور محترمہ کی پہلی حکومت کے دوران ہی سندھی مہاجر فسادات بھی کرائے گئے اس لئے محترمہ کی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی اس کو غیر مستحکم کرنے کے لئے شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے شہر میں ڈکیتیوں کی سینکڑوں وارداتیں کی گئیں یہ سارا ڈیٹا جو ہم یہاں پیش کریں گے ۔یہ اس وقت کے قومی اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے ۔

22/10/1993شہر میں سوختہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اسٹیل ٹاؤن کے نالے سے 22سالہ نوجوان کی ایک سوختہ لاش ملی۔
23/10/1993 کراچی میں سیاسی بحث کا المناک انجام،پیپلز پارٹی کے کارکن کو قتل کردیا گیا۔
2نومبر1993کراچی میں پجیرو چھیننے پر مزاحمت پر فائرنگ،خاتون ہلاک ہوگئی۔
14نومبر1993لانڈھی میں پاک فوج نے ٹارچر سیل دریافت کیا۔
15نومبر1993کراچی میں ڈکیتی کی متعدد وارداتیں،مزاحمت پر ڈرائیور کو قتل کر دیا گیا۔
17نومبر1993کراچی میں تین دن میں 5قتل ہوئے۔
22نومبر1993کراچی میں ڈکیتی کی وارتوں میں اضافہ،ہ،مزاحمت پر ایک اور قتل کردیا گیا۔
7دسمبر1993آئی آئی چندریگر روڈ پر نوجوان کا دن دیہاڑے قتل۔
16دسمبر1993پی آئی بی کالونی میں بم دھماکہ،ایک شخص ہلاک۔6زخمی۔

ڈکیتیاں
22اکتوبر1993کراچی میں ڈاکوؤں نے 13لاکھ روپے سے زائد لوٹ لئے۔
29اکتوبر1993کراچی میں ڈیڑھ درجن سے زائد ڈکیتی کی واردتیں ہوئیں۔
30 اکتوبر1993اورنگی میں صرافہ مارکیٹ میں چھے دکانیں لوٹ لی گئیں،دیگر علاقوں میں بھی وارداتیں ہوئیں۔
4نومبر1993کراچی میں ڈکیتی کی دو درجن وارداتیں،ناظم آباد میں بینک سے 12لاکھ روپے لوٹ لئے گئے، ایک چوکیدار کا قتل،نیو کراچی میں بھی بینک لوٹ لیا گیا۔
5نومبر1993شاہ فیصل کالونی میں ڈکیتی،بینک کے سپاہی کی مشین گن بھی ڈاکو لے گئے۔
8نومبر1993کراچی میں نو ڈکیتیاں مزحمت پر تین افراد کو گولی مار دی گئی۔
15نومبر1993کراچی میں ڈیڑھ درجن سے سے زائد ڈکیتی کی وارداتیں،بینک کا چوکیدار اور اس کے رشتہ دار کا قتل،ڈھائی لاکھ روپے لوٹ لئے۔
29نومبر1993کراچی میں ڈکیتی کی 4وارداتیں ہوئیں،قیمتی اشیاء،نقدی اور طلائی زیورات لوٹ لئے گئے۔
5دسمبر1993کراچی میں متعدد ڈکیتیاں لاکھوں روپے کے زیورات اور گاڑیاں اور گھڑیاں چھین لی گئیں۔
7دسمبر1993جامعہ کراچی میں ڈکیتی،اسسٹنٹ پروفیسر کا گھر لوٹ لیا گیا۔
9دسمبر1993نیو ٹاؤن میں ڈاکو دفترسے 4لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔
11دسمبر1993کرچی میں 8گاڑیاں اور لاکھوں روپے لوٹ لئے گئے،کراچی میں ڈکیتی میں ٹرکوں کا استعمال ،کاپر وائر اور دھاگے کے بورے چھین لئے گئے۔
29دسمبر1993ائر پورٹ ٹرمینل میں واقع ڈاکخانہ لوٹ لیا گیا۔

یہ سارا ڈیٹا صرف ڈھائی ماہ یعنی 22اکتوبر تا 29دسمبر تک کا ہے اور اس میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر قتل وغارت گری اور چوری ،ڈکیتی اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ انشاء اللہ ابھی ہم 1994اور 1995کا جائزہ بھی تاریخ وار آپکے سامنے پیش کریں گے۔

(جاری ہے)

فیس بک تبصرے

Leave a Reply