اللہ کو یہی منظور تھا

یکے بعد دیگرے کئی دردناک مضامین لکھتے لکھتے آج میرا قلم بھی سراپا احتجاج تھا جس نے ابھی نیا نیا چلنا ہی سیکھا تھا کہ اتنے تکلیف دہ مناظرکو قلم بند کرنا یقینا اس کے حوصلے کا امتحان تھا مگر میں کیا کروں کہ۔ جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں کہاں سے لاوٴں…

سانحہ بلدیہ ٹاؤن۔۔۔ پکارتی ہے زبان خنجر۔۔۔

آگئی تھی آندھیوں جیسی روانی آگ میں‌ جل بجھی کتنے چراغوں کی جوانی آگ میں‌ صبح دم گھر سے گئے تھے شام کو لوٹے نہیں لکھ دیا تھا پھر کسی نے دانہ پانی آگ میں‌ کون‌سا شعلہ تھا کسی کے جسم سے لپٹا ہوا جانے کتنی دیر چمکی زندگانی آگ میں کوئی ایسی آگ ہو…