اللہ کو یہی منظور تھا

یکے بعد دیگرے کئی دردناک مضامین لکھتے لکھتے آج میرا قلم بھی سراپا احتجاج تھا جس نے ابھی نیا نیا چلنا ہی سیکھا تھا کہ اتنے تکلیف دہ مناظرکو قلم بند کرنا یقینا اس کے حوصلے کا امتحان تھا مگر میں کیا کروں کہ۔

جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں

کہاں سے لاوٴں خوشیوں کے ترانے ؟ جب کہ ہر طرف ایک یا سیت کی فضا سی پھیلی ہوئی ہے جس سمت دیکھو بے حسی اپنی ڈیرے جماےٴ بیٹھی ہے۔

 

ایسی ہی  اجتماعی بےحسی کی بھینٹ چڑھنے والا اویس بیگ نامی نوجوان جس نے   2009 میں کراچی یونیورسٹی سے بی کام کے امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور ایم بی اے کرنے کی خواہش رکھتا تھا ۔ اویس بیگ 3 بھائیوں اور3 بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھا والد پرائیوٹ فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں جو کہ اکثر بیمار بھی رہتے ہیں۔ اویس بیگ کی فیس بک میں ایک البم کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سیلاب ذدگان کی مدد کی لیے سامان جمع کرتا رہا اور پھر ان علاقوں میں خود بھی گیا۔ کہیں دواوٴں کے کرٹن پہنچاےٴ تو کہیں کھانا اور ضروریات زندگی کا سامان پہنچاتا یہ نوجوان جو کسی این جی او سے بھی تعلق نہیں رکھتا تھا صرف اپنے جذبہ مسلمانی کی تڑپ نے اس سے یہ سب کام کروایا جو آج کی برق رفتار زندگی میں انتہائی مشکل امر ہے۔

 

یہ نو جوان جو چند دن پہلے تک گمنام تھا جسے اسکی موت نے نام دیا۔۔۔

آہ …!!

مگر یہ کیسا نام تھا جس نے ہر شخص کو دکھی کر دیا یوں تو اس شہر میں موت اب بہت سستی ہے مگر ایسی اندوہناک موت..!!

وہ بھی اتنےبڑے  مجمعے کی آنکھوں کے سامنے بے بسی سے تڑپ تڑپ کر جان دے دینا من حیث القوم ہماری بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

 

جس وقت عمارت میں آگ بھڑکی اویس جو کہ ملازمت کیلیے فائنل انٹرویو دینے آیا تھا۔ جیسے ہی عمارت میں آگ لگنے کا شور مچا تو پوری عمارت کی بجلی بند کر دی گئی اور عمارت میں ہر جانب دھواں ہی دھواں بھر گیا۔ اویس نے آٹھویں منزل کی کھڑکی کے روشن دان سے خود کوباہر نکلا اور ہاتھوں کی مدد سے لٹک گیا تاہم زیادہ دیر تک وہ اس پوزیشن میں نہیں رہ سکا اور ہاتھ چھوٹ جانے کے باعث بلندی سے نیچے گر کر شدید زخمی ہو کر خالق حقیقی سے جا ملا۔۔۔

 

چار جملوں میں سماجانے والا یہ قصہ بس اتنا ہی نہیں تھا بلکہ اس قصہ نے جن بھیانک رویوں کو برہنہ کر دیا مجھےآج بس ان رویوں کی بات کرنی ہے۔ سینکڑوں کے اس مجمعے میں جس طرح کے رویے دیکھنے کو ملے ان میں ایک ان لوگوں کا رویہ  جو اپنے چینل کے لئیے انہونی خبریں دکھا کر ﴿سب سے پہلے ہم کی دوڑ جیتنے کی فکر میں لگے رہے﴾ اگر اویس اتنی دیر اس کھڑکی سے لٹکا رہا کہ ٹی وی چینلز اپنی لائیو کوریج دکھانے کے لیے پہنچ چکے تھے  تو کیا اسکو بچانے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے والا کوئی نہیں آسکا؟
اویس تڑپتا رہا اور لوگ اپنے موبائل سے اسکی ویڈیو اور تصویریں بناتے رہے۔۔۔

آہ۔۔۔

بس ایک بات کا جواب اگر مل جاےٴ کہ اگر اویس ان میں سے کسی کا اپنا بھائی یا جگر کا ٹکڑا ہوتا تب بھی کیا اسی طرح کا رویہ ہوتا؟؟؟

 

شائدعلامہ اقبال ایسے وقت کے لیے کہہ گئے

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

 

اسی ہولناک منظر کو دیکھتے ہوےٴ میرے ذہن میں ایک سوال  ابھرا کہ اگر یہی واقعہ امریکہ یا یورب کے کسی ملک میں پیش آتا تو کیا صورتحال ایسی ہی ہوتی؟ مگر  مجھے فوراً ہی خود کو جھٹلانا پڑا کہ ہرگز نہیں کیونکہ میں کافی عرصہ پہلے ریسکیو 911کے نام سے دکھایا جانے والا ایک پروگرام بہت شوق سے دیکھا کرتی تھی جس میں اسی طرح کے انہونے واقعات اور ان میں ریسکیو کے لیے جانے والی ٹیم کی کوششیں جن میں اکثر ناممکن کو ممکن بنا دیا جاتا تھا اور انسانی جان تو کیا وہ ایک جانور کی جان بچانے کے لیے بھی اتنی ہی تگ و دو کرتے نظر آتے اور اکثر کامیاب بھی رہتے کیوں کہ وہ لوگ صرف آسمان کی طرف دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کے بجاےٴ اپنی تمام تر توجہ مسئلے کا حل نکالنے پر مرکوز رکھتے ہیں۔

 

میں یہ سوچنے لگی کہ جب ہماری قوم مغرب کی اتباع کرنے میں اسقدر اندھی نظر آتی کہ اپنے کپڑے اتارنے سے لیکر ہم جنس پرستی کے مذاکرے جیسے شرمناک عمل سے بھی نہیں گریز کر رہی اور اپنی تمام اخلاقی اور مذہبی اقدار کو خدا حافظ کہنے پر تلی ہوئی ہے اسے ان قوموں کے یہ پہلو کیوں نہیں دکھائی دیتے؟ ان سے یہ سب کیوں نہیں سیکھتے؟ کیوں ہم یا تو تماشائی بنے ہوتے ہیں یا سب اﷲ پر چھوڑکر فارغ ہوجاتے ہیں؟ اور ہمارے اسی رویے نے ایک معصوم انسان کی جان لے لی ایکٴ ماں سے ﴿جو  بیٹے کی نوکری  لگ جانے کی آس لگاےٴبیٹھی تھی﴾ اسکے جوان لعل کو چھین لیا۔ کوئی پوچھے اس ماں کے چھلنی کلیجے سے بیٹا کیسے جوان ہوتا ہے۔۔۔ ایک باپ کا بڑھاپے کا سہارا چھین لیا، بہنوں کی آ نکھوں میں سجی خوشیاں چھین لیں۔۔۔

 

بہت سے لوگ یہ کہہ کر فارغ ہوجاتے ہیں کہ اﷲ کو یہی منظور تھا۔۔۔

مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا ہم اپنی ہر ناکامی کو اﷲ کے کھاتے میں ڈال کر اسقدر مطمئن کیوں ہو جاتے ہیں؟ دراصل یہی ہمارے زوال کی وجہ ہے۔ نقصانات سے انسان سبق حاصل کرتا ہے مگر ہمارا یہ اطمنان ہمیں اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسوانے کے لیے  پھر تیار کردیتا ہے۔

 

یا د رکھیے دعائیں بھی تب اثر کرتیں ہیں جب ان کے ساتھ کچھ دوا بھی کی جاےٴ ورنہ آپ اپنے سامنے کھانا رکھ کرچلہ کاٹنے بیٹھ جائیں یا اعتکاف میں بیٹھ جائیں کہ اب یہ کھانا اس چلے یا اعتکاف کی برکت سے آپ کے پیٹ میں خود بخود چلا جاےٴ گا تو آپ ایسے لاکھوں چلے کاٹ لیں یا قیامت تک اعتکاف میں بیٹھیں رہیں کھانا آپ کے پیٹ میں تب ہی جاےٴ گا جب آپ خود اسکو کھانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو زحمت دینگے اور یقین جانیے کہ حالات تب تک نہیں بدلیں گے جب تک ہم آسمان کی طرف دیکھ کر بس فارغ ہو جا نے کے بجاےٴ خود مسائل سے نکلنے کا حل تلاش کرنے کی فکر نہیں کرینگے۔

فیس بک تبصرے

اللہ کو یہی منظور تھا“ پر 5 تبصرے

  1. اس سانحے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ہنگامی حفاظتی دفاع کی کوئی مہارت نہیں ہے ورنہ ہماری قوم اتنی بے حس ہر گز نہیں ہے جتنا میڈیا اسے ثا بت کر نے پر تلا ہوا ہے۔ مسئلے کی شناخت در اصل اس کا حل ہو تی ہے لہذا تمام با شعور تنظیموں کو چا ہئیے کہ اس ضمن میں تر بیتی کورسز کا اہتمام کر یں
    تا کہ اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکے۔

  2. Very good article depicting deadlt behaviours of our society. I congratulatr to author for writing on such a sensible issue.

  3. what ever i under stand…i am pleased to write some thing on it…………….

  4. ”جب ہماری قوم مغرب کی اتباع کرنے میں اسقدر اندھی نظر آتی کہ اپنے کپڑے اتارنے سے لیکر ہم جنس پرستی کے مذاکرے جیسے شرمناک عمل سے بھی نہیں گریز کر رہی اور اپنی تمام اخلاقی اور مذہبی اقدار کو خدا حافظ کہنے پر تلی ہوئی ہے اسے ان قوموں کے یہ پہلو کیوں نہیں دکھائی دیتے؟ ان سے یہ سب کیوں نہیں سیکھتے؟“
    یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو آپ نے لکھ دیا ہے ۔ میں نے جو کچھ اپنے ارد گرد وطنِ عزیز مین دیکھا ہے اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا ہم تماش بینوں کا گروہ ہیں ۔ حکومت تو گئی بھاڑ میں ۔ حکمرانوں کو مال اکٹھا کرنے سے فرصت نہیں کہ شاید پھر یہ موقع ملے یا نہ ملے ۔ لیکن عوام کی عقل کہان کھو گئی ہے ؟ کسی کے ذہن میں کیوں نہ آیا گھر سے ی کسی دکان سے ایک کھیس یا مضبوط چادر لاکر 8 آدمی اسے تان کر کھڑے ہو جاتے اور اویس بیگ سے کہتے اس پر کود جاؤ ۔
    لیکن میرے ہموطنوں کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہو کر حکومت اور حکومتی اداروں حتٰی کہ اپنے ملک کو برا کہہ کر سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا ۔ اور اس وقت تک پھر نہیں سوچتے جب تک ایک اور ایسا واقعہ نہ ہو جائے اور وہ اپنا پہلے والا طریقہ دہرائیں

  5. سوچنے کی بات ہے دوستو کیا ایسی بے حس قوموں میں محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی پیدا ہوتے ہیں ۔ نہیں کبھی بھی نہیں ۔ آج ہم کیا سیکھے ہیں تاریخ سے اور اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔

    ذرا سوچئے ۔

Leave a Reply