ایدھی صاحب یاد رکھے جائیں گے۔۔۔

edhi-yaad-rahay-ga

ایدھی صاحب بلاشبہ اس حوالے سے ضرور یاد رکھے جائیں کہ جو انہوں سمجھااسے بسر کرکے دکھایا۔۔۔۔۔ جی جناب۔۔۔ جو سمجھا اسے بسر کرکے دکھایا۔۔۔۔ اور یہ اتنی بڑی بات ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسے مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کو نجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین

ایدھی صاحب نے جاتے جاتے بھی احسان یہ کیا کہ بیمار سماج کے کپڑے ساتھ لے گئے۔۔۔۔ اور سماج بیچارہ بیچ چوراہے پر ننگا کھڑا ہے۔۔۔۔ اور حمام میں سب ننگے ہوں تو شرم کیسی؟

خیر!
جو درویش کراچی کی خونی سڑکوں پر بغیر کسی ہٹو بچو کی صدائیں لگائے زندگی گزار گیا اس کی نماز جنازہ کو میرے سورماؤں نے اعزاز کے نام ایسا پروٹوکول زدہ کیا کہ ننگے شکریاؤں کی جھنکار میں ہی رقص کرتے رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔
قوم کے سیاسی سردار اگلی صف میں کھڑے سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی بات نہیں ، لاشیں اٹھانے کیلیئے متبادل بغل میں ہی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایدھی صاحب کو پاکستان تو چھوڑیں کراچی کے کسی بھی حلقے سے الیکشن لڑوادیا جاتا تو پچھلی صفوں میں کھڑی تعداد جتنے ووٹ نہ مل سکیں۔۔۔۔۔۔
میڈیا کے قبر میں لیٹ جانے کے بعد کسی تبصرے کی گنجائش تو اپنے صدر صاحب ہی نکلواسکتے ہیں، ہم اس مسخرہ گیری سے باز آئے۔۔۔۔۔۔۔
چلیں میڈیا تو قبر میں جا لیٹا لیکن عوام بھی کچھ پیچھے نہیں رہی۔۔۔۔۔ جنہوں نے پورے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ بھی کرتا پھاڑ کر چلاتے ہوئے سوشل میڈیا پر نکل آئے۔۔۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہر شخص صالح ظافر اور غزوہ ہند کے مجاہد امیر حمزہ کا ریکارڈ برابر کرنا چاہتا ہے۔

تبصروں میں کہاگیا کہ:
محسن انسانیت اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ قوم ایک بار پھر یتیم ہوگئی۔ ایدھی صاحب وہ کام کرگئے جو ریاستیں بھی نہیں کر سکتیں۔ ایدھی صاحب نے میدان عمل میں آکر ریاست سے ذیادہ کام کیا۔ آپ نے پاکستان کی شناخت ایک انسانیت دوست ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کی۔۔۔ اور وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

میرے بھائیوں ، دوستوں اور بزرگوں!
دل نہیں چاہتا تھا کہ اس موقع پر کچھ کہا جائے، لیکن اتنا ادھم مچایا گیا، زمین آسمان ایک کردیا گیا، گریہ و ماتم کا ایسا ناٹک پیش کیا گیا کہ حیرانگی ہوئی۔ یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ جو دنیا میں آیا اسے جانا بھی ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سطحیت کی سطح سے بھی نیچے چلے جائیں؟

خدارا عام اور معصوم لوگوں کو مس گائیڈ مت کریں۔۔۔ محسن انسانیت صرف نبی کریم ﷺ کی ذات مبارک ہے۔۔۔۔ یقیننا ایدھی صاحب معاشرے کیلیئے انتہائی مفید فرد تھے لیکن یتیمی کا لفظ ماں باپ کیلیئے ہی منسوب رہنے دیں۔۔۔۔ دنیا کی ساری فلاحی تنظیموں کو پاکستان بلا کر کوئی ایک مسئلہ حل کروا کر دکھادیں اگر ریاست نہ چاہے۔۔۔۔۔ اگر کوئی فرد ریاست سے ذیادہ کام کرسکتا ہوتا تومیرے نبی ﷺ بھی کسی این جی او پر ہی اکتفا کرتے۔۔۔۔۔۔۔ اور پاکستان کی شناخت کیلیئے یاد دلاتا چلوں کہ ہمارے اجداد کا خون دنیا کی واحد نظریاتی ریاست کیلیئے بہا تھا۔
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلائیں۔۔۔۔ ضرور جلائیں لیکن موم بتی مافیا بن کر نہ رہ جائیں۔۔۔۔لوگوں کو یاد دلائیں کہ یہ ملک ہمارے لیئے مدینہ ثانی ہے۔۔۔ جی وہی مدینہ جہاں نبی کریم ﷺ نے ایک شاندار اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔۔۔ ایک ایسی ریاست جہاں کسی فلاحی تنظیم کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔۔۔ امن ایسا تھا کہ آج دنیا کی ساری فوجیں مل کر بھی پیدا نہیں کرسکتیں۔۔۔ ریاست لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار تھی۔۔۔۔۔ اسی ریاست کا ایک امیر بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ریاست کو اکیلا جوابدہ تھا۔۔۔۔ کوئی ایدھی نہیں تھا۔۔۔۔ کوئی الخدمت نہیں تھی۔۔۔ کوئی خدمت خلق فاؤنڈیشن نہیں تھی۔۔۔۔ کوئی فلاح انسانیت اور چھیپا نہیں تھی۔

یاد رکھیئے ! مہذب ریاستوں میں ایدھی نہیں ہوتے۔

اور دنیا میں اسلامی ریاست سے ذیادہ مہذب اور انسانیت دوست معاشرہ ہو نہیں سکتا۔۔۔

فیس بک تبصرے

ایدھی صاحب یاد رکھے جائیں گے۔۔۔“ ایک تبصرہ

Leave a Reply to Mansoor Ahmed Cancel reply