پالیسیاں۔۔۔ دغابازیاں

electric-billآ زادی کے مہینے میں وارد ہونے والے ’’ بجلی کے بل ‘‘ نے آتے ہی ہمیں آزادی کے اس سراب سے باہر نکال دیا ۔اُف خدایا۔۔۔ اتنا بل؟ پچھلے ماہ کا دوگناہ۔۔۔ بل ہاتھ میں لیتے ہی مجازی خدا کے غصہ کا پارہ ساتویں آسمان کو چُھو گیا۔۔۔ سارا نزلہ گھوم پھر کر ہم پر آ گرا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ’’ تم کو پرواہ ہی نہیں؟ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے! کیسے کمایا جاتا ہے‘‘۔
ہم مجرم کی مانند چپ بھی تھے۔ اور ملزم کی طرح حیران بھی۔ ایک طویل ڈانٹ کے بعد جب خاموشی پھیل گئی اور مجازی خدا نے اپنے آفس کی راہ لی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔ کیا کیاِ جائے؟ آخر پُرانے بل اُٹھا لائے اور اس ماہ کے بل سے تقابل شروع کردیا۔۔۔

ارے ہم تو سراسر ’’ نِرتوش ‘‘ ہیں۔۔۔ دل نے نعرہ لگایا۔۔۔ جتنے یونٹ ہم نے پچھلے ماہ خرچ کیے تھے، اس ماہ بھی اُتنے ہی یونٹ خرچ ہوئے تھے۔۔۔ بے گناہی کے اس ثبوت کو دیکھ کر دل چاہا کہ ’’انصافیوں‘‘ کی مانند ، ٹیوٹر اور میڈیا پر دھمال ڈالی جائے۔۔۔ ہم نے فوراََ موبائل اُٹھایا اور سرتاج کو کال ملا ڈالی۔۔۔ ہاں بولو۔۔۔ دو لفظ کرختگی کے ساتھ کان کے پردے سے ٹکرائے۔۔۔ وہ میں نے پچھلا بِل نکال کے دیکھا ہے۔۔۔ اُتنے ہی یونٹ خرچ ہوئے ہیں، جتنے پچھلے ماہ ہوئے تھے۔۔۔ ہم نے فوراََ اعتماد سے وضاحت پیش کی۔۔۔
تو پھر بل کیوں اتنا زیادہ آیا ہے۔۔۔ سرتاج دہاڑے۔۔۔

حکومت نے یونٹ کے پیسے بڑ ھا دیئے ہیں۔ اس لئیے زیادہ آیا ہے۔۔۔ ہم نے اصل وجہ پیش کی۔۔۔ اچھا۔۔۔ اچھا فون بند کرو، مجھے کام کرنے دو۔۔۔ جواب آیا
چند دنوں سے ٹی وی پرخبروں میں یونٹ میں اضافے کی خبر سب ہی سُن رہے ہیں۔ لیکن معاشرے میں کوئی رد عمل نظر نہیں آیا۔۔۔ حتی کہ باخبر اور زیرک ترین افراد اور اور پارٹیوں نے بھی اس ایشو کو نہیں اُٹھایا۔ ٹوئٹر پر ہر وقت حاضر باش اور تبصرہ نگار بھی خاموش ہیں۔۔۔ کیوں؟ کیا یہ اہم ایشو نہیں؟ کس فارمولے کے تحت ۵ روپے سے یونٹ ۱۶ روپے میں تبدیل ہوگیا؟؟؟

ہم نے اسلام آباد میں مقیم ایک عزیز سے اس ہوش رُبا اضافے پہ بات کرنا چاہی۔۔۔ تو اُن کا جواب ملا کہ یہاں تو ابھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ وہاں یہ کہا گیا کہ دن میں یونٹ ریٹ کم ہوگا۔۔۔ صرف رات میں زیادہ ہوگا۔۔۔

’’ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو ‘‘ کے طرز فکر نے آج افراد کو خود غرض بنا دیا ہے جب تک خود پہ ضرب نہ پڑے۔۔۔ کوئی بولتا ہی نہیں۔۔۔ اپنے بھائی کی مدد اور مظلوم کی حمایت اسلامی شعار رہا ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو مظلوم کی حمایت ومدد کے لئیے آگے نہیں بڑھتا تو خدا اس کی اُس وقت مدد نہیں کرے گا جب وہ مدد کے لئیے خدا کو پکارے گا۔۔۔

آج مختلف علاقوں میں کی جانے والی مختلف پالیسیوں نے تمام قوم کو مختلف مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے اور اگر کہیں کوئی احتجاج بلند کرے بھی تو دوسرا اس کا ساتھ نہیں دیتا۔۔۔ یوں نہ اجتماعی طور پر بڑا احتجاج ہو گا نہ اقدام کرنے کی نوبت آئے گی۔۔۔۔ واہ۔۔۔ شاباش ہے وقت کے چالباز شہبازوں پر اور تُف ہے مظلوموں کی حمایت میں کھڑے نہ ہونے والوں پر۔۔۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply