مر چلے ہم اس۔۔۔ ٹر کے ہاتھوں!

computer-era

منیر نیازی کا بہت مشہور شعر ہے:
تم نے تو کچھ عادت سی بنا لی ہے منیر!
جس دیس میں رہنا، اکتائے ہوئے رہنا
اپنا ذکر کریں تو ہمیں یہ بات یوں سچ لگتی ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے دور میں پیدا ہونے کا بہت قلق ہے۔ گھر میں موجود تمام تر مشینوں میں سر فہرست کمپیوٹر ہے جس سے ہم سب سے زیادہ گھبراتے ہیں! اب یہ بات نہیں کہ ہمارا تعلق کسی زما نہ قدیم سے ہے۔ گھر میں Ken Tech کا کمپیوٹر بڑے بھائی کی علمی ضرورت کے لیے موجود تھا جس پر دیگر بہن بھائی گیمز کھیلا کر تے تھے مگر سچ ہے کہ ہمیں اسکرین سے ٹکٹکی باندھے بیٹھے رہنا کسی صورت پسند نہیں! نہ پہلے تھا نہ اب ہے!

اب آپ ہمیں بالکل ہی نا بلد نہ سمجھیں! اپنے تعلیمی پراجیکٹ کے لیے ایک مکمل کمپیوٹرائزڈ آلہ کے ساتھ کام کر نا پڑا تھا۔ ہمارے سپر وائزر نے بہت معمولی بریفنگ کرکے یہ ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم نے بھی مقدار بھر ہی بات سمجھ کر کام شروع کر دیا۔ زیادہ وقت تو لگانا نہیں تھا۔ بس ریڈینگ مل جائیں پھر اس کی شکل ہمیں نہیں دیکھنی۔ یہ تو ہم نے طے کیا ہوا تھا۔۔۔

ایک دن ہم نے جیسے ہی اس عظیم الجثہ آلہ کو آن کیا وہ ایک دم فلاپ ہو گیا۔ سر نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے ہمیں سروس انجیئنرکو فون کرنے کو کہا۔ ہم بھاگتے ہوئے نیچے کی منزل فون کرنے دوڑے( ظاہر ہے اس وقت موبائیل تو تھا نہیں! )۔ شاید وہ قریب ہی موجود تھا یا پھر معاملے کی سنگینی اور اہمیت کی وجہ سے دوڑا چلا آ یا۔ جی بھر کے مسخرہ تھا وہ! معائنہ کرتے ہی سنجیدہ سی شکل بنا کر مئودب ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پہلے ٹوپی اتاری، انگلیوں سے سر اور داڑھی میں کنگھا کر کے گویا ہوا ’’سر! میں اس عظیم شخصیت کی کرامت کو سلام کرتا ہوں جس نے الٹی فلاپی لگائی اور وہ پھر بھی چل پڑی۔ سائنس میں بھاڑ جھونکنے سے تو بہتر ہے انسان کرشمہ سیکھ لے۔۔۔‘‘ ظاہر ہے یہ طنز سن کر ہمارے کلیجے پر چھری سی چل گئی اور اس پر سر کا قہقہہ! ان کا ٹینشن جو ختم ہوا کہ وہ اس مہنگے آلے کو ایک نوسیکھ کے حوالے کرنے پر احتساب سے بال بال بچے تھے۔۔۔ بہرحال اس کو جب علم ہوا کہ یہ کارنامہ صنف مخالف کا ہے تو خاموشی اختیار کرلی مگر چہرے پر مسکراہٹ تھی اور تاثرات چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ’’ women are the women! ‘‘

کیا غلطیاں صرف خواتین کر تی ہیں؟ ہمارے ایک بھائی نے گاڑی کے کھلے اور گیراج کے بند دروازے سے گاڑی باہر نکالنے کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ؟ فوراً مکینک کو بلانا پڑا۔ اس کی تو چاندی ہوگئی کہ ڈینٹنگ اور پینٹنگ کا کام مل گیا لیکن بھائی نے اس غلطی سے اتنا سیکھا کہ اب وہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے حد نگاہ تک ریکی کر لیتے ہیں۔۔۔ یعنی غلطی سے انسان اخذ بھی کر تا ہے! جی ہاں ہم نے اس ابتدائی کارنامے کا اتنا اثر لیا کہ آ ج بھی کوئی چیز فٹ کرنی ہو تو اس کی notch کا معائنہ ضرور کرتے ہیں اور اس آلے پراتنے محتاط ہوکر کام کیا کہ ہماری لی ہوئی ریڈنگ بطور حوالہ پیش کی جانے لگیں۔۔ ( ویسے مذاق تو بنتا رہا ہماری اس کرامت کا! )

اس جملہ معترضہ کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف آ تے ہیںیعنی گھر کا کمپیوٹر! کچھ عرصے بعد یہ صورت حال ہوئی کہ وہ بے چارہ تنہا رہ گیا تھا کیونکہ اس پر بیٹھنے کے لیے لڑ نے والے بہن بھائی ملازمت، تعلیم اور دیگر وجوہات کی وجہ سے گھر سے دور چلے گئے تھے۔ امی اباتو اس کو چلانا جانتے نہ تھے اور ہمیں اپنے سے کیے گئے عہد کے مطابق اس پر کام نہ کرنا تھا۔ بہانہ اپنی نظر کی کمزوری کا تھا۔ اب یہ نہ سمجھیں کہ وہ بالکل بیکار پڑا تھا بلکہ ہم اس پر اپنے استری شدہ کپڑے لٹکانے کا کام لے رہے تھے!

زندگی مزے میں گزر رہی تھی مگر ایک نیا چیلنج تھا۔ برادران ای میل بھیجتے ، تصاویر روانہ کرتے اور فون پر مطالبہ ہوتا کہ امی ابا کو دکھادیں ، پڑھادیں۔۔۔۔۔ ہم ان کے تقاضے خوش اسلوبی سے ٹال جاتے مگر والدین کی منت بھری نظریں نہ سہہ پائے چنانچہ مجبوراً اسے آن کرنا پڑا۔ ہم نے اسے چلانے کا طریقہ لکھوا کر دیوار پر لٹکا دیا تھا مگر مشین تو مشین ہے کبھی نہ کبھی خلل ضرور واقع ہوتا۔ پھر کسی ماہر کی مدد لینی پڑتی۔۔۔ ’’اب کیا کریں؟ کونسا بٹن؟ کتنی دیر؟‘‘ وغیرہ وغیرہ!

ایک دفعہ ہم کمپیوٹر پر مصروف تھے کہ وہ ایک دم دھماکے سے بند ہوگیا! ہماری گھبراہٹ بجا تھی کہ اس وقت بیسمنٹ میں تنہا کام کر رہے تھے۔ فوراً اوپر آکر پی ٹی سی ایل سے بھائی کو موبائیل پر کال کی ( اور یہ ہما ری زندگی کی پہلی موبائیل کال تھی۔ اس سے پہلے اٹینڈ تو کر چکے تھے مگر خود کال ملانے کا پہلا اتفاق تھا! اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں انسان ہمیشہ پہلی دفعہ کوئی نہ کوئی کام کرتا ہی ہے! آپ نے کبھی نہ کبھی پہلی دفعہ مرغی خریدی ہوگی؟ کبھی پہلی دفعہ مچھلی پکائی ہوگی۔۔۔) بھائی اس وقت سپرہائی وے پر محو سفر تھے۔ اطمینان سے بولے ’’آگ تو نہیں لگی ؟‘‘ نفی میں جواب پاکر انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ سوئچ آف کر دیں۔۔۔ ‘‘ وہ ہم پہلے ہی کرچکے تھے۔

اب ہمیں تھوڑا افسوس ہوتا کہ کاش ہم نے کسی کی زیر نگرانی پریکٹس کر لیتی ہوتی تو اتنی شر مند گی نہ اٹھا نی پڑ تی۔۔۔ کچھ فکریں ہمیں یوں بھی لاحق ہونے لگیں کہ اب ایسا لگتا کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہونے والی ہے! کمپیوٹر جاننے اور نہ جاننے والوں میں اورجہاں کمپیوٹر نہ جاننے والا جاہل سمجھا جائے گا۔ ہماری گھگھی بن جاتی یہ سوچ کر کہ رابطے کے لیے دوسروں کی خوشامدیں کرنی پڑیں گی! پرائیویسی کا بھی مسئلہ ہوگا۔ جس سے کام لیں گے وہ ہمارے معاملات کا ڈھنڈورا پیٹتا رہے گا۔۔۔

بس ان ہی خدشات کے پیش نظر ہم نے اپنے محلے میں واقع کمپیوٹر سنٹر میں داخلہ لے لیا۔ وہاں ایک نئی شر مندگی کا سامنا تھا! ہمارے سوا سب کے سب میٹرک اور انٹر کے طالبعلم! اور تو اور خود انسٹرکٹر ہم سے کہیں جونئیر! علم حاصل کرنے میں کیا شرم! ہم فوراً گردن اکڑا لیتے اور ویسے بھی یہ واحد علم ہے جس میں نئی نسل زیادہ ماسٹر ہے! لیکن تین مہینے بعد جب اس کورس کا امتحان ہواتو تھیوری میں ہم بلا مقابلہ فرسٹ رہے! وجہ صاف ظاہر ہے! انگلش!! میٹرک اور انٹر کے طلبہ کامعیارانگریزی ایک سوالیہ نشان ہے اور کمپیوٹر کی ساری زبان اسی پر چلتی ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہے سی ڈی لگانا آ ئے یا نہ آئے ٹسٹ میں پورے نمبرتھے! اچھا تجربہ تھا اور مزید ایڈوانس کورس کے لیے ہمیں تیار بھی کرلیا گیا تھامگر وہ کسی اور سنٹر میں تھا لہذا یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

ختم کہاں؟ وہ کورس تو ابتدا تھا کمپیوٹر سے دوستی کا! سیکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اب آپ کو کام کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں پھیلے رشتہ داروں کا رابطہ ہمارے ای میل سے ہی ہونے لگا۔ سرچ انجن کی بھی خوب کارکردگی ہے۔ ایک لفظ ڈالو سینکڑوں ویب سائٹ کھل جا تیں۔ (ہمیں اپنی طالبعلمی کا دور یاد آ جاتا کتنا وقت ہم نے لائبریروں میں صرف کیا! کاش ہمارے زمانے میں بھی اتنی آسانی ہوتی۔۔ )۔

اس زمانے میں فی گھنٹہ ائر ٹائم کارڈ کے ذریعے ملاکرتے تھے۔ آدھ گھنٹہ تو ہمیں connect کرنے میں لگ جایا کرتے تھے اور ابھی میل ادھوری ہی ہوتی کہ وقت ختم ہوجاتا۔ کسی عقلمند نے مشورہ دیاکہ خط پہلے کمپوز کر لیاکریں پھر منسلک کر دیں۔ یہ پریکٹس آج بھی (جبکہ چوبیس میں سے بیس گھنٹے انٹر نیٹ سروس جاری رہتی ہے) ہم کرتے ہیں۔ اور مزے کی بات کہ کمپیوٹر کا سارا کام کاٹو اور چپکائو ( Cut & paste )کے سلوگن پر چلتا ہے۔ ہم نے inpage بھی سیکھ لیا ہے کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ ٹائپ کی ہوئی لکھائی کا کتنا رعب پڑ تاہے! وہی بات جو ہاتھ کی لکھائی میں ہو کوئی گھاس نہیں ڈالتااورکمپوز کر کے بھیجیں تو فوراً اسے توجہ مل جاتی ہے۔ اب تو سب یہ ہی فر مائش کرتے ہیں۔ اکبرالٰہ آ بادی سو سال پہلے کہہ گئے تھے
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

لیکن ہمارا خیال ہے کہ وہ جسے مصیبت سمجھ رہے تھے وہ قلم کاروں کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں! کتنا مزہ آ تا ہے جب ہم اپنی پرانی تحریر میں ردو بدل کرکے، تھوڑا سا بڑ ھا کر کہیں بھی پوسٹ کر دیتے ہیں۔ ورنہ پہلے تو ایک سے دوسری جگہ بھیجنا ہوتا تو لکھ کر ہاتھ میں درد ہو جا تا۔ فوٹو کاپی لینے کو کوئی بھی میگزین؍ اخبار لینے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ اب کمپوزکی ہوئی تحریر میں کوئی نخرہ نہیں! کچھ ضرورت اور کچھ ذمہ داری! ہم نے کافی چیزیں سیکھ لی ہیں لیکن یادبس وہی رہتی ہے جو استعمال ہوتی ہے۔ اور جبب اس میں ماہر ہوجاتے ہیں تو وہ سسٹم پرانا ہوکر بے کار ہوجاتا ہے۔ نئی سے نئی چیزیں سیکھنی پڑ رہی ہیں کیونکہ اب تو سارا کام اسی پر ہوتاہے۔

ہمیں آج ہی یہ اطلاع فراہم کی گئی بلکہ اپنی دانست میں خوش خبری دی گئی کہ اب ہمارے وائی فائی کی اسپیڈ بڑھا کر دگنی کر دی گئی ہے! ہم بجائے خوش ہونے کے سوچ میں پڑ گئے کیا انسانی صلاحیت بھی بڑھ سکتی ہے؟ کیا دن کو بھی لمباکیا جا سکتا ہے؟ آخر انسان ہے کوئی جن تو نہیں کہ سارے کام چٹکی بجاتے کر لے! ! اوراسی لیے ہم ایسی خبروں کو بہت غور سے پڑھتے ہیں جس میں دنیا کے دوبارہ manual ہونے کی بات ہوتاکہ ہم انسانی رفتار سے کام کریں!

اس مشینی دور کے تقاضوں سے گھبرانے والے ہم تنہا تھوڑی ہیں؟ علامہ اقبال بھی مشینوں پر بر ہمی کا اظہار کر گئے ہیں!

فیس بک تبصرے

Leave a Reply