سانحہ سقوط ہے

pak-postageمیں ایک پاکستانی شہری ہوں اور میرے والد ایک پاکستانی فوجی تھے۔ ان کی باتیں سن سن کر اپنے ملک سے محبت میں نے تب سے کی ہے جب میں محبت کے مفہوم سے بھی آشنا نہیں تھی ، شاید اب بھی نہیں ہوں ہوں مگر اتنا جانتی ہوں کہ جب جب اس ملک کے خلاف کوئی بات سنتی ہوں میرا خون کھول اٹھتا ہے، بے اختیار ہی اس کے حق میں الفاظ میرے منہ سے نکلتے ہیں اور لوگ مجھے محب وطن سمجھتے ہیں۔

محب وطن بھی عجیب لفظ ہے جو بھی اپنے وطن کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کرتا ہے اسے محب وطن سمجھ لیا جاتا ہے۔ اگر صرف محبوب کا تذکرہ کرنااور نام کا ورد کرتے رہنا ہی محبت ہے تو پھر اس ملک میں سیاستدانوں سے زیادہ محب وطن کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔

ایک انسان سے محبت میں بھی انسان صرف نام لینے کو کافی نہیں سمجھتے اور ہر وہ کام کرتے ہیں جو محبوب چاہے اور جو کوئی اس کی مرضی کے خلاف کر ے تو اسے آداب محبت کے خلاف سمجھا جاتا ہے پھر صرف نام لینے اور بڑے بڑے وعدے کرنے سے اپنے وطن سے محبت کیسے ثابت ہوتی ہے۔ محبت کے بیج کو پروان چڑھانے کے لئے انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ خود رو جھاڑیوں کی طرح دل کی سر زمین پر جگہ تو بنا لیتی ہے مگر موسم کی سختیاں تبھی برداشت کرتی ہے جب اسے خون پسینے سے وقتا فوقتا سینچا جاتا رہے ، صرف اظہار محبت کے لئے کافی نہیں ہے ۔ نہ کسی انسان سے، نہ انسانوں کو پیدا کرنے والے رب سے اور نہ ہی رب کے عطا کردہ آزاد ملک سے۔

مشرقی اور مغربی دو بازوئوں پر مشتمل 1947کو وجود میں آنے والا ایسا ملک جس کے بارے میں عمومی تاثر آج بھی یہی ہے کہ اس پر اللہ کی خصوصی رحمت ہمیشہ سایہ فگن رہی ہے کیونکہ اس کاوجود رمضان المبارک جیسے اللہ کے پسندیدہ مہینے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا، مگر اللہ کی رحمت کے باوجود محض 24سالوں میں دو لخت ہو گیا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رحمت رب العالمین میں کوئی کمی آئی تھی بلکہ یہ ہوس کی سلطنت کے ان شہزادو ںکا کیا دھرا ہے جو خواہش اقتدار میں اندھے ہو گئے تھے۔قیام پاکستان کا مقصد اور حب الوطنی سب بھول کر آپس میں ہی دست و گریباں ہو گئے ، اور مقصد کو یاد رکھنے والے لوگ آج اپنی حب الوطنی کی سزا مقتل گاہوں میں بھگت رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے جنگی مجرم قرار دے کر شہید کئے جانے والے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے جنازے غالب کی شاعری کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں

سقوط ڈھاکہ کا نام لیتے ہی تجزیہ کاروں کے قلم اور زبانیں تلواریں بن جاتی ہیں، 1971کے مغربی اور مشرقی سیاسی رہنماؤں اور بھارت کے کردار پر ایسی قلمی ضربیں لگائی جاتی ہیں اور ایسے وار کئے جاتے ہیں کہ الامان۔ کسی ایک کے خلاف بولنے اور لکھنے والے دوسرے کو بالکل معصوم ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں، حالانکہ تالی ایک ہاتھ سے قطعی نہیں بج سکتی۔
اس دنیا کے قائم ہونے سے لے کر آج تک جنگیں جاری ہی رہی ہیں کبھی ایک کونے میں تو کبھی دوسرے کونے میں، مگر ان جنگوں کا اختتام یاتو امن معاہدے ہوا کرتے تھے یا کسی ایک قوم کی فتح اور دوسری کی شکست۔ سقوط ڈھاکہ ایک ایسی لڑائی تھی جس میں ایک ہی قوم کے آدھے لوگ اسے فتح اور آدھے لوگ شکست تسلیم کر رہے تھے۔ عوام کا حال دیکھا جاتا تو فاتح و مفتوح دونوں ہی طرف جو بھی محب وطن تھا اشکبار تھا۔ اس جنگ میں دراصل فتح نہ پاکستان کی ہوئی تھی اور نہ حالیہ بنگلہ دیش کی، فتح ہوئی تھی کفار کی، مقصد پورا ہوا تھا کفار کا۔
کفار جو صدیوں پہلے ہی یہ بات سمجھ چکے تھے کہ مسلمانوں کے خلاف اگرانھیں کامیاب ہونا ہے تو انھیں اپنی قطاروں میں مسلمان پیدا کرنے ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب کی قوم سے جو بھی وعدے کئے ہیں ہمیشہ پورے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ــمیں اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا اور اللہ کا مسلمانوں سے وعدہ ہے کہ وہ تعداد میں کم ہوں یا زیادہ، ہتھیار بند ہوں یا بے سرو ساماں ، شکست کی ذلت مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔ مگر کیا کریں کہ کہ آزمائش کے لئے شیطان کے نام سے جو دشمن مسلمانوں کو بہکانے کے لئے اللہ تعالی سے قیامت تک کی اجازت لے کر اس دنیا میں آیا ہے، وہ انسان کی رگ رگ سے واقف ہے اور یہ واقفیت بخوشی کافروں کے ساتھ بانٹتا رہتا ہے۔ سو کافروںنے بھی اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے توڑ نکالا۔

مسلمانوں کی صفوں میں منافق کھڑے کئے جو دل سے کافر ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں۔ جہاں منافقین کی کمی محسوس ہوئی ، وہاں غدار پیدا کر دئیے۔ ہر قوم کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوا کرتی ہے جس کے ذریعے اس قوم کی آزمائش ہوتی ہے اور احادیث کے مطابق مسلمان قوم کی آزمائش دو چیزیں ہیں ، مال اور اولاد۔ اور یہ دونوں آزمائشیں غداروں کی پیداوار کیلئے کھاد کا کام کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی ہاری ہوئی جنگوں میں کبھی بھی قصور صلاحیت وبہادری کی کمی کا نہیں رہا، بلکہ پشت پر وار کرنے والے غداروں کا رہا ہے۔
یہ قوم ایسے شیروں کو اپنی گود میں پالتی ہے جو دشمن پر ایسی ہیبت طاری کرتے ہیں کہ شہید ہو جانے کے بعد بھی دشمن ان کے نزدیک جانے سے ڈرتا ہے۔ جو ایک بہن کی پکار پر اپنی پوری فوج کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ جو کشتیاں جلا کر واپسی کے راستے بند کر کے آگے بڑھتے ہیں، یہانکہ تعصب پسند بنیا کے نام سے پہچانی جانے والی قوم کی فوج کا چیف بھی اس قوم کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور باقاعدہ تعریفی خط لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

یہ برسوں پرانا غداری کا سبق بھارت نے مشرقی پاکستان کو پڑھانے میں 24سال صرف کر دئیے اور حالات کی نزاکت کو سمجھے بغیر جمہوریت کے محافظ خود اپنے ہی اصولوں کو توڑتے ہوئے ’’ادھر ہم ۔ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگانے لگے۔ جمہوریت کا لفظ پاکستان کے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں دیا گیا وہ ہتھیار ہے جسے وہ اپنا اقتدار محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس ہتھیار نے پاکستان کو وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کا درد 43سال گزر جانے کے بعد بھی چین نہیں لینے دیتا۔

میرے گھر کے بزرگ آج بھی اس دور کا، ان حالات کا ذکر کرتے ہیں تو بے اختیار ہی آنکھوں پرنم ہو جاتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی باقی عوام کا حال اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔کہتے ہیں انسان محبوب سے دستبردار ہو بھی جائے مگر محبت سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا۔ پاکستانی فوج نے بھی بے شک ہتھیار ڈال کر بنگلہ دیش کو ان کی مرضی کا مختار بنا دیا تھا مگر ان کی محبت پاکستانیوں کے دلوں سے کبھی کم نہیں ہوئی۔

بنگلہ دیش کے صاحب اقتدار بھلے ہی بھارتی ایما پر عوام تک حقائق کا غلط روپ ہی پہنچاتے ہوں، تاریخ توڑ مروڑ کے بیان کرتے ہوں اور پاکستانیوں سے نفرت کے درس دیتے ہوں، مگر پاکستانی آج بھی انھیں اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں، اور یہ محبت یک طرفہ نہیں ہے۔طاغوتی طاقتوں کے زیر اثر میڈیا جتنی مرضی نفرتوں کا عکاس بنے مگر محبتیں چھلکتی ہیں تو نظروں میں آ ہی جاتی ہیں۔

آج بھی بنگالی بھائی کھیلوں کے مقابلے دیکھتے ہیں تو پاکستانی ٹیم کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ حب الوطنی کا ثبوت دینے والی اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں کے سامنے ڈٹے رہنے میں فوج کا ساتھ دینے والی جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو جب وطن سے محبت کے جرم میں سزائے موت دی جاتی ہے تو آج بھی پورے بنگال میں اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج ہوتا ہے،ان محب وطن رہنمائوں کے جنازوں میں آج بھی لاکھوں بنگالی شریک ہوتے ہیں یہانتکہ حکومت ان کے بڑے جنازوں پر بھی پابندی عائد کر دیتی ہے۔ ہر وقت انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔پوری دنیا میں سزائے موت ختم کروانے کے لئے سرگرم عمل عالمی غیر سرکاری تنظیم بھی ایک مذمتی بیان دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی آ نکھوں پر یک بیک کالی پٹی بندھ جاتی ہے، ویسے تو مسلمانوں کے ہر معاملے میں وہاں ہر وقت کالی پٹی دستیاب رہتی ہے، چاہے وہ عافیہ صدیقی کا معاملہ ہو یا عبدالقادر مولہ کا، گوانتا نامو کا معاملہ ہو یا بگرام جیل کا ، کشمیریوں کا معاملہ ہو فلسطینیوں کا ۔ ہاں مگر مختاراں مائی اور ملالہ یوسفزئی یہ کالی پٹی اتارنے میں کامیاب ہو جاتی ہیںنجانے کیسے؟ یا پھر یہ سچ ہے کہ مختاراں مائی جیسے لوگ ہوتے نہیں ہیں انہیں بنایا جاتا ہے۔

عالمی طاقتیں جو بھی کھیل کھیلیں مگر ہم اتنا جانتے ہیں کہ مسلمان قوم کے درمیان اللہ نے محبت کاجو رشتہ بنایا ہے، اسے سرحدوں، ثقافت اور زبان سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ سقوط ڈھاکہ بے شک بد ترین شکست تھی اور انسان تاریخ نہیں بدل سکتامگر آنے والے والے کل کو تو تدبیر اور دعا سے اپنے حق میں کر سکتا ہے۔

جو امن کی آشا کیسی مہم بھارت کے ساتھ چلارہے ہیں وہ کیا ایک محبت کی آشا اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ نہیں چلا سکتے؟ یہ پاکستانی قوم آج بھی اپنے بنگالی بھائیوں سیاتنی ہی محبت کرتی ہے جتنی مشرقی پاکستان سے کرتی تھی۔

اقتدار کے لئے قوموں کی زندگیوں سے کھیلنے کا تماشہ اب بند ہونا چاہیے اور عوام کو بھی سیاستدانوں کے سرابوں سے نکل کر محبتوں کے پیغام پھیلانے چاہیے ورنہ یہ نہ ہو کہ سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور سقوط بھی اس قوم کی اہم تاریخوں میں جگہ بنا لے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply