راستے جدا ہوچکے ہیں

munwar-hassanکیا پاک فوج کے ترجمان بیان جاری کرتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ یہ وہی سید منور حسن ہیں جنہوں نے میجر جرنل ثناء اللہ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے طالبان کو سخت تنقید کانشانہ بنایا تھا۔ کیا ترجمان یہ بھی بھول گئے تھے کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر بھارت اور مکتی باہنی کا مقابلہ کیا اور یہ سوال تک کرنا گوارا نہ کیا کہ ہمیں دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر آپ پلٹن میدان میں کیا کررہے تھے؟  کیا ترجمان یہ بھی بھول گئے تھے کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس نے کمیونزم کے خلاف فکری ، عملی اور حربی میدان میں بیک  وقت آپکا ساتھ دیا۔ کیا ترجمان یہ بھی بھول گئے تھے کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جو کشمیر پالیسی میں آپکا ہراول دستہ رہی اور جس نے کارگل کے مسئلے پر اسوقت آپکے حق میں آواز اٹھائی جب منتخب وزیر اعظم بھی آپکے ساتھ کھڑے ہونے سے کترارہے تھے۔ میرے خیال میں ترجمان کچھ نہیں بھولے بلکہ انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرتے ہوئے اسلامی تحریکوں کو واضع پیغام دیا ہے کہ اب راستے جدا ہوچکے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج ایم کیو ایم ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کی شکل میں نئے اتحادی تلاش کرچکی ہے یا ابھی نئے اتحادیوں کے لئے بکنگ جاری ہے۔ شا ید ان جماعتوں کی بیرون ملک مقیم قیادت کو یہی سوال چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہے۔

 

افسوس تو یہ ہے کہ جس بات کو بنیا د بنا کر یہ طوفان سر پر اٹھایا گیاوہ بات سید صاحب نے کی ہی نہیں تھی، گویا وہ بات انکو بری لگی جسکا سارے افسانے میں ذکر ہی نہ تھا۔ اگر تعصب اور بغض کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اپنے انٹرویو میں انہوں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ وطن عزیز کے لئے جان دینے والے افواج پاکستان کے جوان شہید نہیں ہیں بلکہ انہوں نے تو سلیم صافی سے یہ جوابی استفسار کیا تھا کہ”اس جنگ میں لڑنے والا امریکی شہید نہیں، تو دیکھنا ہوگا کہ جوامریکی فوج کا ساتھ دیتا، امریکیوں کے مقاصد کو اگے بڑھاتا اور امریکہ سے ڈکٹیشن لیتا ہے وہ کیا ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔” فوجی ترجمان کے ردعمل، میڈیا کے شور شرابے اور سیاسی جماعتوں کی خوشامد نے دراصل بلواسطہ طور پر اس خیال کو قبول کرلیا ہے کہ افواج پاکستان امریکی افواج کا ساتھ دے رہی ہے ۔ اگر واقعی صورتحال ایسی ہے تو فطری طور پر کسی بھی خالص اسلامی تحریک کا فوج کے ساتھ تعاون جاری رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسلامی تحریکوں کا بنیادی ڈھانچہ ہی ملکی مفادات، وطنیت اور قومی ریاست کے تصوارات کے برخلاف الہہیت ، امت اور حق و باطل کے نظریات پر ہی کھڑا ہوتا ہے ۔اقبال نے وطنیت کے رائج تصور کی کچھ یوں تعریف کی تھی۔
ان تازہ خداوں میں بڑ ا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

 

بظاہر یہ سارا معاملہ اس بحث سے شروع سے ہوا جسکا حتمی فیصلہ رب کائنات نے خود کرنا ہے لیکن یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے جتنی سمجھی جارہی ہے۔پھر سید منور حسن نے پہلی باریہ سوالات نہیں اٹھائے ہیں، اپنے لاتعداد خطبات اور ٹی وی شوز میں وہ یہ سوال پہلے بھی اٹھا چکےتھے۔ ایک سال پہلے شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں بھی انہوں نے جو باتیں کہیں تھی، ٹھیک وہی باتیں انہوں نے ایک سال بعد سلیم صافی کے پروگرام میں کیں۔پھر کیا وجہ ہے اس بار یہ ہائیپ بنائی گئی؟ جن لوگوں کو سوات امن معاہدے کے بعد مولانا صوفی محمد کا جلسہ عام سے خطاب یاد ہو وہ اس صورتحال کا درست تجزیہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگائیں گے۔ نہ اس وقت صوفی محمد نے کوئی نئی بات کی تھی اور نہ ہی اب سید منور حسن نے اپنا کوئی نیا خیال پیش کیا ہے۔ البتہ سید منور حسن کے سوالات کے ردعمل میں آنے والے روئیے نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں، صرف جماعت اسلامی پر غداری کا داغ نہیں آیا بلکہ افواج پاکستان نےاپنے گرتے ہوئے مورال کو بحال کرنے، ایک طویل عرصے کے لئے طالبان کے ساتھ مزاکرات کا گلا گھونٹنے اور نیشنل اسٹیٹ یعنی قومی ریاست کے تصور کو عام کرنے کا بھی انتظام پیدا کرلیا ہے ۔

 

کمال بات یہ ہے کہ فوجی ترجمان نے جماعت اسلامی سے براہ راست استفسار کرتے ہوئے معافی کا مطالبہ کیا۔معافی کا یہ مطالبہ اس سے پہلے کبھی کسی اور کے لئے نہیں آیا، نہ بائیں بازو (حقیقی لیفٹ) کے شعرا اور دانشوروں سے جنہوں نے فوج کو بار بار للکارا، نہ ان سیاستدانوں سے جنہوں نے مختلف وقتوں میں فوج کو چیلنج کیا اور نہ ہی ان لوگوں سے جو اکبر بگٹی سے لیکر برہمداغ بگٹی تک ہر اس شخص کو شہید قرار دیتے نہیں تھکتے جس نے لسانیت ، عصبیت اور سیکولرازم کے لئے جان دی ہو۔ اس سے زیادہ کمال بات یہ ہے کہ جمہوریت کے دعویداروں میں کوئی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ فوج کس حیثیت میں ایک سیاس و مذہبی جماعت سے براہ راست استفسار کررہی ہے؟ درحقیقت معافی تو ہماری فوج کو خود مانگنی چاہئے ،سیٹو اور سینٹو ، تاشقنداور سندھ طاس ایسے معاہدوں پر، 71 اور 98 کی جنگوں میں بدترین شکست پر، 65 کی جنگ سے متعلق جھوٹ بولنے پر،48 سے لیکر 2013 تک مختلف نجی فورسز کی سرپرستی کرنے پر، مشرقی پاکستان ، بلوچستان ، فاٹا ، کراچی اور لال مسجد میں آپریشن پر، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر دباؤ ڈال کر ایسے جرم کا اعتراف کرانے پر جو درحقیقت انہوں نے کیا ہی نہیں تھا ، افغانستان پرامریکی جارہیت کا حصہ بننے پر، منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکارنے پر، گمشدہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں پر اور چار بار اس ملک کے دستور کو پامال کرکے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر۔ لیکن ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب جمہوریت کے ترانے پڑھنے والے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ روک لیں، کارگل وار پر کمیشن ہی نہ بنائیں اور پرویزمشرف کو چور دروازے فراہم کریں۔

 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی اسلامی تحریکوں نے فوج کے اس پیغام کو سمجھ لیا ہے یا انہیں ابھی کوئی شک ہے۔ اگر سمجھ لیا ہے تو مستقبل کا کیا لائحہ عمل طہ کیا گیا ہے ،تصادم یا صبر محض، یکجہتی یا خاموشی۔ کچھ روایتی مذہبی جماعتیں پاکستان کی النور پارٹی بننا چارہی ہیں لیکن مصری النور پارٹی کی طرح انکے ہاتھ بھی نہ خدا آئے گا اور نہ ہی وصال صنم۔ وہ فوج کا ماضی اور حال بھول گئیں، یا یہ سمجھ رہی ہیں کہ فوجی ترجمان وقتی بھول چوک کا شکار ہے جسکا فائدہ اٹھا لیا جائےلیکن میرے خیال میں ترجمان کچھ نہیں بھولے بلکہ انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرتے ہوئے اسلامی تحریکوں کو واضع پیغام دیا ہے کہ اب راستے جدا ہوچکے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج ایم کیو ایم ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کی شکل میں نئے اتحادی تلاش کرچکی ہے یا ابھی نئے اتحادیوں کے لئے بکنگ جاری ہے۔ شا ید ان جماعتوں کی بیرون ملک مقیم قیادت کو یہی سوال چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہے۔

فیس بک تبصرے

راستے جدا ہوچکے ہیں“ پر 7 تبصرے

  1. ! may Allah grant bless on Islamic movements Prosperity and success

  2. دوستی بھی رہی ہوگی کبھی
    دشمنی بلا سبب نہیں ہوتی

    آپکی تحریر تضادات کا شکار ہے، ایک طرف آپ جن اقدامات پر افواج پاکستان سے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں دوسری طرف ان ہی غلط اقدامات پر آپ جماعت اسلامی کا فوج سے تعاون کرنے پر احسان بھی جتا رہے ہیں، اسکا مطلب تو یہ ہوا کے جماعت اسلامی نے جانتے بوجھتے فوج کے غلط کاموں میں اسکا ساتھہ دیا، غلط کاموں میں فوج کے ہاتھہ مضبوط کئے، تو ایسے غلط کاموں میں فوج کا ساتھہ دینے پر جماعت کو پوری قوم سے معافی نہیں مانگنی چاہئیے؟ اور اگر وہ اقدامات غلط نہیں تھے تو پھر فوج سے معافی کا مطالبہ کیوں؟ اور اگر فوج کے وہ اقدامات غلط تھے تو جماعت نے غلط کام میں فوج کا ساتھہ کیوں دیا؟

  3. @ فکر پاکستان : میں نے افواج پاکستان کے جو جرائم گنوائے ہیں ان میں کن کن جرائم میں جماعت اسلامی شریک رہی اگر آپ وضاحت کردیں تو جواب دینے میں آسانی ہوجائے گی۔

  4. کاشف بھائی، کارگل پر آپ نے فوج سے معافی کا مطالبہ کیا ہے، پھر کارگل ایشو پر ہی آپ جماعت اسلامی کے فوج کے ساتھہ کھڑے ہونے کو بطور احسان بھی گنوا رہے ہیں، کیا جماعت نے ضیاءالحق کے مارشل لا کو دوام نہیں بخشا؟ کیا جماعت اسلامی سترویں ترمیم میں مشرف کی حامی نہیں تھی؟ پینسٹھہ کی جنگ پر اگر جھوٹ بولا گیا جو کہ واقعی بولا گیا، مگر جماعت اسلامی تو چھہ ستمبر کو پوری جوش و خروش سے مناتی رہی ہے ماضی میں۔ چار بار دستور پاکستان کو پامال کرنے پر بھی آپ معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ کم از کم تین بار تو جماعت ڈائیرکٹ اور ان ڈائیرکٹ خود ان فوجی آمروں کے ہاتھہ مضبوط کرتی رہی ہے، ضیاءالحق کی تو شوریٰ کا حصہ رہی ہے جماعت، پھر اڑتالیس سے لے کر دو ہزار تیرہ تک جن لوگوں کی سرپرستی کی فوج نے ان میں خود جماعت بھی شامل ہے، پھر آپ نے ایک ہی سانس میں فرمایا کہ، مشرقی پاکستان ، بلوچستان ، فاٹا ، کراچی اور لال مسجد میں آپریشن پر۔ یعنیٰ مشرقی پاکستان میں آپریشن غلط تھا؟ اگر مشرقی پاکستان میں آپریشن غلط تھا تو المس البدر بنا کر فوج کے شانہ بہ شانے لڑنے والے کیسے ٹھیک ہوگئے؟۔

  5. @ فکر پاکستان :
    1۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کا ساتھ دیا تھا، یہ میاں محمد طفیل صاحب کا غلط فیصلہ تھا جس سے جماعت اسلامی کو صرف اور صرف نقصان پہنچایا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ میاں محمد طفیل نے خلوص نیت سے اسکا ساتھ دیا ہو کیونکہ ضیاء الحق نے اقتدار میں آکر جتنے جھوٹ بولے تھے اس پر کئی اسلامی تحریکوں نے اس سے دھوکہ کھایا۔ کئی کو بہت جلد اندازہ ہوگیا اور کئی کافی دیر بعد جاکر جان سکے۔ اچھا ہوگا کہ کوئی مناسب وقت دیکھ کر جماعت اسلامی اس غلطی پر قوم سے معذرت کرلے۔
    2۔ جہاں تک کارگل کا معاملہ ہے، تو جماعت اسلامی نے فوج کے حق میں آواز بلند کرکے بالکل درست کیا تھا، انہوں نے قومی فوج کا دشمن (بھارت) کے مقابلے میں ساتھ دیا تھا۔ اس وقت کی حکومت اور فوج کا قصور تھا کے حکومت اس سے بے خبر کیوں رہی اور فوج نے قوم سے غلط بیانی کیوں کی، جماعت کا ہرگز نہیں۔
    3۔ یہی معاملہ 1965 کا ہے۔ جماعت اسلامی،پاکستان کی تمام جماعتیں اور سول سوسائٹی کا 6 ستمبر کے روز افواج پاکستان سے اظہار یکجہتی کرنا ایک فطری، قومی اور ملی تقاضہ ہے۔ بادل نخواستہ فوجی جوانوں نے کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ قربانیاں تو دیں تھیں۔ غلط بیانی ان جوانوں نے نہیں دی جو کھلے دشمن کے نبر آزما ہوئے بلکہ فوج کے پالیسی سازوں نے کی تھی اور معافی کا مطالبہ بھی انہی سے ہے۔
    3۔ مشرقی پاکستان مختی باہنی اور بھارت کے خلاف ساتھ دیکر جماعت نے درست کیا یا غلط ، اس پر ایک بہت بڑی بحث ہوسکتی ہے۔ میری رائے میں جماعت کو آپریشن کی مخالفت کرنی چاہئے تھی لیکن یہ سب کچھ ایک محب وطن جماعت کے لئے اتنا آسان بھی نہ تھا۔ بھارت اس پورے معاملے میں کھلم کھلا ملوث ہوچکا تھا۔ مختی باہنی وہاں ٹریننگ دی رہی تھی، اسلحہ فراہم کیا جارہا تھا ۔ یہاں تک جب فوج نے خونی آپریشن کےنتیجے میں مختی باہنی کو دبا دیا تو بھارت براہ راست حملہ آور ہوگیا۔ صرف جماعت ہی نہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے گھڑے بھی آپریشن کی بھرپور حمایت کررہی تھی۔ میرے نانا کے چھوٹے بھائی این ایس ایف کے کارکن تھے لیکن رضاکار فورس میں شامل ہوئے اور فخریہ بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے خود کئی مختی باہنیوں کو موت کی گھات اتارا، وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنے رشتے داروں کا بدلہ لیا تھا۔میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہو کہ جسکے ننھیال اور ددھیال دونوں کے درجنوں، بوڑھے، بچے اور خواتین صرف اس لئے مارے گئے تھے کہ وہ بنگالی نہیں تھے، میرے نانا جو مسلم لیگ کے حامی تھے اور جو فوجی ذیادتیوں کے بھی عینی شاہد تھے، ایک فوجی جوان کو اپنے گھر میں پناہ دی جس نے ساڑھی پہن کر میرے ننھیال کے سرحد پار کی۔ گو کہ میری رائے میں اپنے شہریوں کے خلاف فوجی کاروائی کا اصول ہی غلط ہے لیکن میں نےدانستہ طور پر اس آپریشن سے متعلق معافی کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ شکست پر کیا ہے۔

    آخر میں آتے ہےدہشتگردی کے خلاف جنگ کی طرف۔
    الف :پاکستان کے اندر دہشتگردی کے خلاف جنگ اصل میں امریکہ کا اس مطالبے کی تعمیل ہے کہ پاکستان بزور طاقت اپنے آزاد قبائل کو افغانستان میں سرگرم مجاہدین کی امداد سے روکے۔
    ب۔ آزاد قبائل کا جرم یہ تھا کہ وہ ہزاروں سالہ قبائلی روایات اور اسلامی غیرت و حمیت کا پاس رکھتے ہوئے انہوں نے سرحد پار افغانستان میں امریکہ سے برسرپیکار مجاہدین کی مالی اور جانی مدد کررہے تھے اوراس پار کے مجاہدین کو مہمان بنارہےتھے۔ آزاد قبائل یہ پہلی بار نہیں کررہے تھے، قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد روس کے خلاف جہاد میں بھی وہ ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔
    ج۔ آزاد قبائل نے ملکی تحریک کی صورت 2007 میں لال مسجد آپریشن کے بعد اختیار کی۔ اس عرصے میں نیک محمد شہید پر ڈرون حملہ ہوا، ڈامہ ڈولہ کے مدرسے پر حملہ ہوا ، باجوڑ میں ہارون رشید صاحب کے گھر پر بمباری ہوئی اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں درجنوں ظالمانہ کاروائی ہوئی۔

  6. کاشف بھائی،

    آپ نے فرمایا کے ضیاع الحق کا ساتھہ جماعت نے نیک نیتی اور خلوص کے ساتھہ دیا تھا، میرے بھائی وہ خودکش حملہ آور بھی پوری نیک نیتی اور جنت کے حصول کا اپنا حق سمجھہ کر ہی خود کش حملہ کرتا ہے جو ہزاروں بے گناہ معصوم لوگوں کا قاتل ہوتا ہے، اگر غلط کام کی تاویل نیک نیتی اور خلوص مان لی جائے تو پھر اس خود کش حملہ آور نے کیا قصور کیا ہے جسے ساری دنیا لعنت ملامت کرتی ہے؟

    ملک و قوموں کے تقدیر کے ساتھہ کئے گئے فیصلے بلیک بورڈ پر لکھی تحریر نہیں ہوتے کہ جب چاہا اسے معافی کے ڈسٹر سے مٹا دیا اور جب چاہا دوبارہ لکھہ لیا، مودودی صاحب کا ہی فرمان ہے کہ غلطی کبھی بانچ نہیں ہوتی، وہ بچے دیتی ہے، جماعت کی ایک غلطی کے بعد نتائچ آج تک بھی آرہے ہیں، کیا غلطی مانگنے سے وہ سب بدل جائے گا جو آج تک ہمارا مقدر ہے؟ اس ایک غلطی کے نتیجے میں جو کچھہ ہمیں ملا اسکا اندازہ یقیناَ اس وقت خود جماعت اسلامی کو بھی نہ ہوگا ورنہ مجھے یقین ہے کہ جماعت کبھی بھی ضیاع الحق کے ان جرائم میں حصہ دار نہ بنتی، مجھے جماعت اسلامی کے لوگوں کی نیت پر زرا بھی شک نہیں ہے لیکن ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، تنظیم کا نام ہے جماعت اسلامی، اور فراست کا کہیں دور بہت دوووووووووووووور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہے، لیڈر تو وہ ہوتا ہے مومن تو وہ ہوتا ہے جو عشروں کے پار دیکھہ لیتا ہے، تو یہ تو طے ہوگیا کہ کے اس وقت کی جماعت کی لیڈر شپ اور شوریٰ فہم و فراست سے یکسر آری تھے، لگ بھگ وہ ہی لوگ آج تک بھی جماعت کے کرتا دھرتاوں میں شامل ہیں اور بد قسمتی سے آج بھی انکو اپنی ناک سے آگے کا منظر نظر نہیں آرہا، آج بھی یہ لوگ مستند دہشتگردوں کی ہمایت میں مرے جا رہے ہیں، جسے منور حسن صاحب شہید قرار دینے پر بضد ہیں وہ ہی حکیم محسود قاضی حسین احمد کو لا دین کہہ چکا ہے، یہ بات آپ بھی جانتے ہیں میں بھی جانتا ہوں کے بانی جماعت اسلامی کے مودودی صاحب کا ریاست کے اعلانِِ جہاد کے بغیر جہاد کرنے پر کیا نظریہ تھا، مجھے تو حیرت ہے کہ جماعت آج کہاں کھڑی ہے؟ وہ مودودی صاحب جنکے علم و فراست کی ایک دنیا معترف ہے انکے پیروکار آج انکی تعلیمات کو ہی فراموش کر چکے ہیں، دین کی خود ساختہ تشریحات کر کہ عام معصوم لوگوں کے قاتلوں کے ساتھہ کھڑے ہیں، ایک طرف پورا پاکستان کھڑا ہے اور ایک طرف جماعت اسلامی اور یہ دہشتگرد کھڑے ہیں، کیا یہ ہو وہ مومن کی فراست ہے جس سے ڈرنے کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے؟ اگر مان بھی لیا جائے کے فوج نے جماعت اسلامی کو آج تک اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کیا اور اب مطلب نکل جانے کے بعد لات مار دی ہے، تو یہ دودھہ پیتے بچے تھے کیا؟ ان میں عقل شعور دانش عشروں کے پار دیکھنے کی صلاحیت کچھہ بھی نہیں تھا کیا؟ تو پھر مجھے کہنے دیجئیے کے یہ لوگ اس قابل بھی نہیں کہ انکا سجدہ سہو قبول کیا جاسکے، ان میں اہلیت ہی نہیں کہ یہ لوگ اس منصب پر مزید فائز رہ سکتیں۔

    یہ بات درست ہے کہ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں باقی تمام جماعتیں بھی کسی نہ کسی صورت سے افواج پاکستان کی ہی پیداوار ہیں، لیکن ان سب میں اور جماعت سمیت کسی بھی دوسری مذہبی جماعت میں یہ فرق ہے کہ وہ خود کو اسلام کا علمبردار نہیں کہتیں، انکی بدمعاشیاں انکی حرام خوریاں نوشتہِ دیوار ہیں وہ اسلام کے نام پر پارسائی کا دعویٰ بھی نہیں کرتیں، پیپلز پارٹی کرپٹ جماعت ہے سب کو معلوم ہے، کراچی میں امن کمیٹی کے نام پر دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہے سبکو معلوم ہے، ایم کیو ایم بھتہ خوری میں ملوث ہے سبکو معلوم ہے، ایم کیو ایم کے لوگوں نے مخالفین کو قتل کیا ہے سب کو معلوم ہے، اس ہی طرح اے این پی و دیگر جماعتیں بھی ان ہی سب کاروائیوں میں ملوث ہیں یہ کون نہیں جانتا؟

    لیکن ان سب میں اور جماعت اسلامی میں فرق لفظ اسلام کا ہے، یہ ہی سارے کام دانستہ یا غیر دانستہ جماعت اسلامی نے بھی کئے ہیں، اگر باقی جماعتوں نے اپنے ہی شہریوں سے بھتہ وصول کیا ہے تو جماعت اسلامی نے یہ بھتہ امریکہ سے ڈالر کی صورت میں وصول کیا ہے، اگر ان تنظیموں نے اپنے ہی شہریوں کو قتل کیا ہے تو جماعت اسلامی بھی آج طالبان دہشتگروں کی ہمایت کر کے وہ سب خود کش حملے اور چالیس ہزار پاکستانیوں کا خونِ نہ حق اپنے نامہِ اعمال پر لے رہی ہے، ضیاع الحق کا ساتھہ دینے کی ایک غلطی نے جو بچے دئیے جسکا نتیجہ کلاشنکوف کلچر ہیروئن منشیات اور افغانیوں کی صورت میں پاکستان کو ملا یہ سب بھی اس ایک غلطی کے بچے ہی ہیں، کیا اسے مومن کی فراست سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟

    نہیں ہرگز نہیں، یہ طے ہوگیا کہ جماعت اسلامی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے نام کے ساتھہ اسلام کا لفظ جوڑے، جتنی بے حرمتی اس لفظ کی ہونی تھی ہوگئی اب مزید سے اجتناب کیا جائے اور کم از کم اتنی تو اخلاقی جرت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ اپنے نام سے لفظ اسلامی ہٹا دیا جائے، قاتلوں لٹیروں بینک لوٹنے والوں، جبری شادیاں کرنے والوں، خود کش حملہ کرنے والوں، جہاد کے نام پر فساد کرنے والوں جیسا کہ خود قاضی حیسن احمد فرما چکے ہیں کہ پاکستانی طالبان جہاد نہیں فساد کر رہے ہیں، اگر ان سب کا ہی ساتھہ دینا ہے اگر انہیں شہید ہی ڈکلئیر کرنا ہے تو پھر خدارا کم از کم اسلام کا نام تو استعمال نہ کریں، اپنے نام سے اسلامی نکال کر جو کرنا ہے کریں تاکے دین فروشی سے بچ سکتیں۔

    مجھے یقین ہے آج اگر مودودی صاحب زندہ ہوتے تو یہ سب دیکھنے کے بعد وہ شرم اور جماعت اسلامی بنانے پر بھی پوری قوم سے معافی مانگتے اور جماعت اسلامی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیتے، کیوں کہ پوری جماعت اسلامی میں صرف ایک ہی شخص تھا جو مومن کی تعریف پر پورا اترتا تھا، وہ نہیں رہا تو دنیا نے دیکھا کہ جماعت کہاں سے چلی تھی اور اب کہاں کھڑی ہے، مودودی صاحب نے بلکل درست فرمایا تھا کہ غلطی بانچ نہیں ہوتی۔

  7. @ فکر پاکستان : ضیاء الحق کا ساتھ دینے اور خود کش دھماکے میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی اور خلوص نیت کئے گئے فیصلے اگر بادی النظر میں غلط ثابت ہوں تو بجائے اس پر بار بار تامل کیا جائے، بہتر یہ ہے کہ مناسب وقت دیکر معذرت کرلی جائے۔

    جہاں تک حکیم اللہ محسود کا تعلق ہے تو اسے امریکہ نے مارا ہے، امریکہ کا الزام ہے کہ اسنے حکیم اللہ محسود کو اس لئے مارا تھا کیونکہ وہ امریکہ کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ اس شہید قرار دینے کے لئے بس ایک یہی ایک نقطہ کافی ہے۔زندگی میں اس نے جتنے بھی غلط کام کئے، اسکے انجام کی بدولت وہ سب معاف ہوسکتے ہیں۔ شہادت کے بارے میں شریعی حکم سمجھنے میں ہم اکثر غلطی کرتے ہیں، ایک فوجی جوان ہے جو زنا، شراب نوشی، قتل، سودخوری سمیت ہر غلط کام کرتا ہے اور سب اسکے ان غلط کاموں سے واقف ہیں لیکن اچانک اسکی پوسٹنگ سرحد پر ہوجاتی ہے اور اسی رات دشمن کے حملے میں وہ جوان مارا جاتا ہے، شریعی نقطہ نظر سے نہ اسکے کپڑے اتارے جائیں گے اور نہ ہی غسل دیا جائے، پس اس ہی حال میں دفن کردیا جائے گا۔ کوئی یہ نہیں کہے کہ یہ بندا کیسے شہید ہوگیا، یہ تو ذانی، شرابی اور قاتل تھا۔ ایک اور ضمنی بات کرتا چلوں کہ پھر حکیم اللہ محسود پر 40،000 افراد کے قتل کی بات کی جاتی ہے جو تاریخ کا بہت بڑا جھوٹ ہے کیونکہ 2003 سے لیکر 2013 تک دہشتگردی کے تمام واقعات کو جمع کرکے تحریک طالبان کے اوپر لاد دیا جاتا ہے جبکہ طالبان صرف فوجی تنصیبات اور چند متنازعہ شخصیات پر حملوں کی ذمہ داری ہی قبول کرتے ہیں۔

    ریاست کے بغیر جہاد کا مفروضہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا۔اسلامی شریعت میں حاکم شرع کا تصورتو ملتا ہے کسی ریاست کا تصور آج تک مجھے باوجود تلاش کے نہیں مل سکا۔ مولانا مودودی نے کب اس قسم کی شرط لگائی یہ بھی میری نظر سے نہیں گزری کیونکہ میرے مشاہدے کے مطابق جماعت اسلامی کو جمہوری سرگرمیوں کو بھی جہاد اور حق و باطل کی کشمکش ہی سمجھتی ہے۔ خروج کے معاملے پر احناف کی مظبوط دلیل موجود ہے کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج جائز ہے بشریکہ کامیابی کی امید ہو۔خود امام ابوحنیفہ نے بنو عباس کے خلاف خروج کے واقعات کی تائید کی تھی۔ بلکہ زید ابن علی کی ناکام تحریک کو توامام صاحب کی بھرپور تائید و حمایت حاسل تھی

    جماعت اسلامی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اپنے کردار کی وجہ آج تک نمایاں ہے۔ رفاحی کاموں کے علاوہ متوسط طبقت کی مخلص، ایماندار اور پڑھی لکھی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے اور جماعت کا تنظیمی نظم آج بھی افرادیت کا حامل ہے۔ جہاں کراچی میں ایم کیو ایم ، پی پی پی، اے این پی، سنی تحریک اور سپہ صحابہ بھی خود کو بھتہ خور عناصر سے نہیں بچاسکی، جماعت ان سبوں سے محفوظ ہیں۔

Leave a Reply